وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیایومِ استحصالِ ہی ذمہ داری ہے ؟

هفته 07 اگست 2021 کیایومِ استحصالِ ہی ذمہ داری ہے ؟

کشمیریوں کے لیے کوئی دن سکون کا نہیں عید جیسے مزہبی تہواروں پر بھی خون بہایا جاتا ہے جعلی مقابلوں میں فوج نوجوانوں کو شہید کر رہی ہے پکڑدھکڑ اور چھاپوں سے زندگی اجیرن ہو چکی ہے جس سے سیا حت ختم اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں مزید براں کشمیریوں کومعاشی طور پر بدحال کرنے کے لیے فو ج زمینوں پر قبضے کر رہی ہے قابض بھارت کے ظلم و جبر سے تنگ آکر آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے اب تک پانچ لاکھ کشمیری جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں لیکن تما تر قربانیوں کے باوجود پاکستان سے محبت میں کمی نہیں آئی الحاقِ پاکستان کا علم تھامے کشمیری جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں ایسی محبت وچاہت کا جواب محبت وچاہت سے دینے کے لیے پاکستان کو لائحہ عمل بنا کر عمل کرنا چاہیے تاکہ ہر روز ایک نئی قیامت کا سامنا کرنے والے اہلِ کشمیر پر ظلم کی سیاہ رات ختم ہو سکے۔
پانچ اگست 2019 کابھارتی قدام اہلِ نظر کے لیے کسی طور حیران کُن نہیں تھا کیونکہ جب سے بی جے پی جیسی انتہا پسند نظریات کی حامل جماعت برسرِ اقتدار آئی ہے تب سے ہی اِس بات کا اندیشہ تھا کہ قابض بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر سکتا ہے حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی ،میر واعظ عمر فارو ق ،یٰسین ملک ،سید شبیر شاہ ،اورسیدہ آسیہ اندرابی جیسے لوگ باربار آگاہ کر رہے تھے کہ آرایس ایس نظریات سے متاثر بی جے پی کے عزائم واضح ہیں اور وہ کسی وقت بھی کشمیر کو ضم کر نے جیسا انتہائی قدم اُٹھا سکتی ہے یہاں تک کہ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ جیسے اقتدار پرست کٹھ پتلی سیاستدان بھی دہائی دے رہے تھے کہ بھارتی حکمران کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کا اِرادہ رکھتے ہیں ایسے عزائم کا مودی اور امیت شاہ سمیت کئی سیاستدانوںنے انتخابات کے دوران بھی کیا تھاا امیت شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیاتھا کہ کشمیر کے بارے خصوصی حیثیت کا تعین کرنے والی آئینی شق370کا خاتمہ بی جے پی کے منشور میں شامل ہے جس سے واضح ہونے لگا تھا کہ بھارت عالمی وعدوں اور یواین اوکی قراردادوں سے انحراف کر سکتا ہے اِس لیے یہ کہنا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ اچانک ہوا ہے درست نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیا گیا ہے مگر پاکستانی قیادت بروقت ادراک نہ کرسکی اگر ادراک ہوتا تو عالمی سطح پر سفارتکاری سے کام لیا جاتا لیکن ہلچل کی بجائے خاموشی طاری رہی جس سے بھارت کو مظالم جاری رکھنے کے ساتھ ایک اور ظالمانہ فیصلے کی شہ ملی پانچ اگست کا بھارتی فیصلہ 27اکتوبر 1947کے ظالمانہ فیصلے اور المیے سے کسی طور کم نہیں مگر ہماری روایتی سُستی اور غفلت ختم نہیں ہو سکی اگر ہماری قیادت نے باہمی سرپھٹول چھوڑ کر قومی مفادات کی نگہبانی کا تہیہ کیا ہوتا توعالمی قوتیں بھارت کے یکطرفہ فیصلے سے لاتعلق نہ ہوتیں اور ایٹمی ملک یوں بے توقیر نہ ہوتا کشمیر کے لیے پاکستان تین بڑی جنگیں لڑ چکاہے اگر پاکستانی سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ خاموشی اختیار کرنے سے بھارت آئندہ جارحانہ عزائم سے باز آجائے گا تو یہ اُن کی خام خیالی ہے جس کا ثبوت بلوچستان ،کے پی کے ،گلگت بلتستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی ہے بھارت کو جارحانہ عزائم سے باز رکھنے اور کشمیریوں سے یکجہتی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اہلِ کشمیر کی سفارتی،سیاسی اور اخلاقی مدد کے حوالے سے پوری قوم اور قیادت یکسو ہوپورے سال میںصرف ایک دن یاددہانی کے طور پر یومِ استحصال منانے تک محدود رہنا مناسب نہیں ۔
بھارتی قیادت شروع سے ہی کشمیر ہڑپ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے چاہے کانگرس اقتدار میں ہو یا بی جے پی ،سب کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے پر متفق ہیں حالانکہ تقسیمِ ہند میں ریاستوں کوبھارت یا پاکستان سے الحاق کرنے یا آزاد رہنے کا حق دیا گیاتھا اسی بناپر کشمیریوں نے الحاقِ پاکستان کی تحریک شروع کی مگر ڈوگرہ راجہ نے عوامی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے کی بجائے ٹال مٹول کرتے ہوئے بھارت سے راہ ورسم بڑھانے شروع کردیے جس سے کشمیریوں میں بے چینی بڑھی اور وادی کے طول وعرض میں ہنگامے پھوٹ پڑے انھی ایام میں بھارت نے اپنی فوج کشمیر میں بھیج دی جس سے ہنگامے مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر گئے جنھیں کچلنے کے لیے قابض فوج نے قتلِ عام شروع کر دیا اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے پاکستانی مجاہدین نے بھی ہتھیار اُٹھالیے اور گوریلا جنگ شروع کردی جس سے بھارتی فوج محاصر میں آگئی کشمیر ہاتھ سے نکلتا دیکھ کربھارت یو این او چلا گیااور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق الحاق کا فیصلہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے شرط عائد کی کہ وادی میں حالات معمول پر لانے کے لیے پہلے مجاہدین کو نکالا جائے جبکہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی قانونی ،اخلاقی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے بھارتی فوج کے کشمیر میں داخل ہونے پر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں کشمیر کے متعلق سیکورٹی کو نسل نے بیس قراردادیں منظور کیں بعد میں دونوں فریقوں کے موقف کے پیشِ نظر عالمی غورو فکر کے بعد 1948میںسیکورٹی کونسل نے یک جامع قراردادنمبری 47منظور کی اِس قرارداد میں پاکستان کو مجاہدین اور فوج کے انخلا کاپابند بناتے ہوئے تمام بھارتی فوجیوں کونکل جانے کا کہا گیا تاکہ خطے کو غیر مسلح کرنے کے بعدرائے شماری کرانے کے لیے ایڈ منسٹریٹر تعینات کیے جائیں جس پر دونوں ممالک نے اتفاق کیا مگر اقوامِ متحدہ آج تک اپنی ہی پاس کردہ قراردادوں پر عمل کرانے میں ناکام ہے کشمیر پر دونوں ملک 1965،1971،1999میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اب بھی اگر اقوامِ متحدہ مسلہ حل نہیں کراتی تو مستقبل میں جوہری تصادم کا امکان موجود ہے مسلہ کی خطرناکی سے دنیا کو آگاہ کرنے منظم انداز میں سفارتی مُہم کی ضرورت ہے ۔
بھارت ایک ایسا جارح ملک ہے جو جارحانہ عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں رکھتابنگلہ دیش بنانے اور ہمسایہ ملک کوتوڑنے پے فخر کرتاہے اور کسی قاعدے و قانون کو خاطر میں نہیں لاتااب بھی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے سے قبل ریاستی قانون ساز اسمبلی سے مشاورت تک نہیں کی جوآئین کے آرٹیکل370 کی شق(3)کے تحت لازم تھا بلکہ فیصلے سے قبل ہی جون 2018میں پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد کے خاتمے کی آڑ میں اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے پہلے گورنر راج اور پھر صدارتی راج نافذ کر دیامقبوضہ کشمیر میں منتخب حکومت نہ ہونے پر 2019کے صدارتی حکم نامے کی رو سے گورنر کو ریاستی اسمبلی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل370کے بارے صدر کو سفارشات بھجوانے کا حکم دیا اسی تناظر میں بھارتی صدر نے گزشتہ دنوں وادی کا دورہ کیا جس کے دوران پورے مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال کی گئی یہ قابض ملک کے صدر کی آمد کے خلاف نفرت کا اظہار تھا لیکن بھارت کو عالمی سطح پربظاہر دبائو کا سامنا نہیں اسی لیے وادی کو ضم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن مسلسل گھروں کے محاصرے ،جبرتشدد،شہادتوں ،گرفتاریوں اور چادروچاردیواری کا تقدس پامال ہونے کے باوجود کشمیریوں کے عزم و حوصلے میں کمی نہیں آئی شہدا کو پاکستانی پرچم میں سپردِ خاک کرتے ہیں اِس سے واضح ہوتاہے کہ مودی کی فاشسٹ حکومت کی غیر قانونی ،غیر آئینی اور یکطرفہ فیصلوں کو کشمیری تسلیم نہیں کرتے مگر اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹر نیشنل،ہیومن رائٹس کمیشن،جنیواسائڈ واچ سمیت یورپی کمیشن برائے انسانی حقوق جیسے اِدارے بھارتی فیصلے سے پیداہونے والے حالات کوناروا، غیر قانونی اور یکطرفہ قرار دینے لگے ہیں مگر اِس میں پاکستان کا کردار نظر نہیں آتا یومِ استحصال کشمیر منانا ٹھیک ہے لیکن ایک دن تک محدود رہنے کی بجائے پاکستان منظم طریقے سے سفارتی مُہم شروع کرے تو عالمی طاقتوں کی چشم پوشی کے باوجودعالمی رائے عامہ ہموار ہو سکتی ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستانی قیادت یکسو ہواور باہمی نفاق کو قومی مفاد پر حاوی نہ ہونے دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
hameedullahbhati@gmail.com


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر