وجود

... loading ...

وجود
وجود

پرتشدد۔بل

جمعه 09 جولائی 2021 پرتشدد۔بل

دوستو،چند روز قبل قومی اسمبلی نے گھریلو تشدد کا بل منظور کیا اور اس کو مزید بحث کے لیے سینیٹ بھیج دیا۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر شور مچا کہ یہ بل انتہائی متنازع ہے کیونکہ یہ ہمارے خاندانی نظام کو برباد کر دے گا۔پھر ہوا یوں کہ یہ بل سینیٹ سے بھی پاس ہوگیا۔۔ جس کے موٹے موٹے نکات یہ ہیں کہ ۔۔والدین کا اپنے بچوں کی پرائیویسی، آزادی میں حائل ہونا جرم ہوگا۔۔اولاد کے بارے میں ناگوار بات کرنا / شک کا اظہار کرنا بھی جرم ہو گا۔۔معاشی تشدد کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی کسی بھی قسم کے اختلاف، نافرمانی،کسی بھی وجہ سے بچے کا خرچہ کم یا بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ جرم ہوگا، اس پر سزا ملے گی۔۔جذباتی / نفسیاتی اور زبانی ہراسمنٹ کی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں ہیں، یعنی کسی بھی بات کو ہراسمنٹ قرار دے دیں۔۔ خاوند کا دوسری شادی کا کہنا، خواہش کا اظہار کرنا جرم ہو گا، اسے گھریلو تشدد قرار دیا گیا ہے۔۔طلاق کی بات کرنا بھی جرم، سزا ہو گی، اسی طرح کوئی غصے والی بات، اونچی آواز میں بولنا، کوئی بھی ایسا جملہ جو کہ جذباتی، نفسیاتی یا زبانی اذیت کا باعث بنے وہ جرم تصور ہو گا۔۔ اگر باپ نے مندرجہ بالا جرائم میں سے کوئی ایک سرزد کیا تو بطور سزا وہ گھر نہیں جا سکتا، اسے اولاد سے محفوظ فاصلے پر رہنا ہوگا۔جی پی ایس کڑا پہننا ہو گا۔ کسی شیلٹر ہوم / یا تھانے میں سزا کاٹنی ہو گی۔۔کم سے کم 6 ماہ جبکہ 3 سال تک سزا سنائی جا سکتی ہے۔ ایک لاکھ تک جرمانہ بھی ہو گا، اگر جرمانہ نہ دیا تو مزید 3 سال قید۔۔اس میں ساتھ دینے والے کو بھی برابر کی قید ہو گی، یعنی ماں اور باپ دونوں مجرم بنیں گے۔
اس قانون میں بہت سے ابہام ہیں، جنہیں دور کرنا لازمی ہے۔ لیکن سمجھ نہیں آتا کہ جلدبازی میں اوٹ پٹانگ قسم کے قوانین کیوں نافذ کردیئے جاتے ہیں، اب اسی بل کو دیکھ لیں، مثال کے طور پر کوئی بچہ اپنے والد کے خلاف شکایت درج کراتا ہے،پھر آگے کیا ہوگا؟؟ بل میں یہ تو بتایا نہیں گیا کہ اس کیس کے اخرجات بچے کو کون ا دا کرے گا۔ کیا پولیس اتنی اچھی اور رشوت فری ہو چکی ہے کہ بچے کے کہنے پر والدکو گرفتار کر لے گی؟؟۔ چلو مان لیا ایسا ہو بھی جاتا ہے۔ والدگرفتار ہو جاتا ہے۔ والد صاحب اگر دیہاڑی دار ملازم اور گھر کا واحدکفیل ہے تو اس کے گرفتار ہو نے سے اس کے گھر کا نظام کون چلائے گا؟۔ اس کے باقی بچوں کی ضروریات زندگی کون پوری کرے گا ؟؟ کچھ پتہ نہیں کہ ایسا کرنے سے مسائل کم ہونگے یا مزید بڑھیں گے۔ یہ قانون جن ممالک سے لایا گیا ہے وہاں پہلے سے ایک سسٹم موجود ہے۔اگرحکومت سنجیدہ ہوتی تو پہلے ان کے سسٹم کو یہاں لاتے پھر قانون لاگو کرتے۔ہمارے ہاں حالات و واقعات رہن سہن کچھ اور ہیں اور آپ ’’فارن‘‘ میں بنا بنایا قانون لا کر’’ پیسٹ ‘‘کر دیتے ہیں تو ایسا کرنے سے مسائل مزید بڑھیں گے اور بگڑیںگے۔ پہلے اپنے عدالتی سسٹم کوٹھیک کریں پھر اس قسم کے قانون بنائیں۔ گھریلو تشدد کا قانون لانے سے قبل ان وجوہات پر توجہ دیں جن کی بنا پر گھریلو تشدد ہوتا ہے۔گھریلو تشدد کی تین بڑی وجوہات ہمیشہ سامنے آتی ہیں، بے روز گاری، مہنگائی، انصاف میں تاخیر۔جس دن یہ سب ٹھیک ہوں گے، گھریلو حالات خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ انسداد گھریلو تشدد بل مردوں پر بھی لاگو ہوگا، انسداد گھریلو تشدد بل تین صوبوں میں قانون بن چکا ہے، جس کے ساتھ بھی ظلم ہوگا اس کے تحفظ کے لیے یہ قانون ہے،نامور صحافی اوریا مقبول جان کے مطابق اب تو والدین اس قدر قانون کے شکنجے میں ہوں گے کہ اگر بیٹا آوارہ پھرتا ہے، نشہ استعمال کرتا ہے، کسی بھی اخلاقی جرم میں مبتلا ہوتا ہے تو والدین اس کو روک نہیں سکیں گے، اسی طرح بیٹی، بیٹے کی ’’آزادی ’’اور پرائیویسی میں دخل دینا قابل سزا جرم بنا دیا گیا ہے۔ڈومیسٹک وائلنس بل خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا باعث ہے۔اس بل سے نہ صرف میاں بیوی کا رشتہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ماں باپ، بہن بھائی اور ہمارے بزرگ کے ساتھ تعلقات تباہ کرنے کے حوالے سے بھی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔ مطلب کسی بھی بزرگ یا بڑی بہن یا بھائی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کو برائی سے منع کرسکیں ورنہ انکے خلاف کاروائی کی جائے گی اور اس بنا پر انھیں گھر بدر کر دیا جائیگا۔قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ میاں بیوی کے رشتہ کو کس طرح پاکیزہ، پیار محبت اور عزت اور عصمت کا نمونہ ہونا چاہئے۔ والدین کا احترام کتنا ضروری ہے چاہے وہ دین اسلام سے دور ہی کیوں نہ ہوں۔لیکن اس بل میں روایتی اقدارپر لگام ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس گھریلو تشدد بل کو فی الحال ایک طرف رکھیں اور ایک دلچسپ واقعہ سنیں۔۔ایک افریقی شخص ایسے شہر میں پہنچا جہاں تقریباً شہر کی آبادی کا نظام قرض پر چلتا تھا، وہ افریقی شخص ایک ہزار روپے ہوٹل کے کاؤنٹر پر رکھ کر بولا۔۔ میں جا رہا ہوں کمرہ پسند کرنے۔۔ہوٹل کے مالک نے وہ ایک ہزار روپے اٹھائے اور بھاگا گھی والے کے پاس ،اسے ایک ہزار روپے دے کر گھی کا حساب چکادیا۔ گھی والا بھاگا،دودھ والے کے پاس اور اسی ایک ہزار کے نوٹ سے دودھ والے کا حساب کلوز کیا۔۔دودھ والا بھاگا چارے والے کے پاس اور چارے کا 1000 روپے کٹوا آیا۔چارے والا گیا اسی ہوٹل پر وہ وہاں ادھار میں کھانا کھاتا تھا اس نے 1000 روپے دے کر کھانے کا حساب چکتا کیا ،اس سارے پراسس کے دوران وہ افریقی شخص واپس آیا، کاؤنٹر سے اپنے ایک ہزار روپے اٹھائے اور یہ کہتے ہوئے باہر کی راہ لی کہ۔۔ اسے کوئی کمرہ پسند نہیں آیا۔۔اب دیکھا جائے تو نہ کسی نے کچھ لیا،نہ کسی نے کچھ دیا،سب کا حساب چکتابھی ہوگیا۔۔گڑبڑ کہاں ہوئی؟؟اصل میں گڑبڑ کہیں نہیں ہوئی،بلکہ سبھی کی غلط فہمی ہے کہ روپے ہمارے ہیں جبکہ
دنیا صرف اتنی ہی ہماری ہے جو اعمال صالحہ کی شکل میں صندوق میں ڈالی، پہن لیا اور کھا لیا باقی سب کچھ لواحقین کا ہے۔خالی ہاتھ آئے تھے، خالی ہاتھ ہی جانا ہوگا مگر اعمال کا صندوق ساتھ ہوگا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آج کی نوجوان نسل کھانے سے پہلے ہاتھ نہیں دھوتی، کھانا کھاکے لازمی ہاتھ دھوتی ہے تاکہ موبائل خراب نہ ہو۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر