وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایٹمی دہشت گردی

منگل 25 مئی 2021 ایٹمی دہشت گردی

ایک سوال کئی بار ذہن میں تو اٹھتا رہا لیکن اس کا تشفی جواب آج تک نہیں مل سکا کہ امریکا نے6اگست 1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹمی حملہ کیوں کیا؟ پھر تین دن بعد ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کردیا گیا۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر حملوں کے نتیجے میں ایک لاکھ چالیس ہزار (1,40,000) افراد منٹوں سیکنڈوںمیں موت کے منہ میں چلے گئے بلاشبہ یہ انسانیت کے خلاف سب سے خوفناک واقعہ ہے ۔حالانکہ اس وقت افواہیں گرم تھیں کہ ٹوکیوپر ایٹمی حملہ کیا جائے گا بہرحال اسے دوسری عالمگیرجنگ کا سب سے خوفناک المیہ کہاجاسکتاہے ،اس کے دو ہفتے بعد جاپان نے ہتھیار پھینک دئیے۔ غورطلب بات یہ ہے کہ جب جاپان کو ایٹمی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو ایڈولف ہٹلر اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا کیونکہ ہٹلر کی موت کی تاریخ 30اپریل 1945 بتائی جاتی ہے۔ اس کے چار ماہ بعد امریکا نے جاپان پر ایٹمی حملے کیے۔ مشہور ہے کہ ایڈولف ہٹلر نے پہلے سایانائڈ (Cyanide)کا کیپسول کھایا اور پھر خود کو گولی مار کرزندگی کا خاتمہ کرلیا اس کی تقلیدمیں اس کی بیوی ایوابران نے بھی اپنے ساتھ یہی کچھ کیا حالانکہ ایوابران سے ہٹلر نے موت سے صرف 48گھنٹے پہلے شادی کی تھی پھر میاںبیوی کی یکے بعددیگرے خودکشی کا کیا جواز تھا اس کا معمہ شاید کبھی حل نہ ہوسکے ۔جن لوگوں نے ان حالات کا تجزیہ کیا کہ آخر امریکا کو جاپان پر ایٹمی حملوں کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ امریکا اس جنگ کو جلد ختم کرنے کا خواہاں تھا کیونکہ اس کے فوجیوں کا نقصان ہو رہا تھا لیکن اس سے بھی بڑی وجہ یہ تھی کہ امریکا کو خوف لاحق تھا کہ کہیں وہ جنگ ہارنہ جائے نہ صرف ناگاساکی اورہیروشیما پر ایٹم بم گرانے سے دنیا بھرمیں دہشت مچ گئی لوگوںکے دلوںمیں امریکا کا خوف بیٹھ گیا بلکہ ان حملوں سے جنگ کا خاتمہ ہوگیا جس سے امریکی سپاہیوں کی جانیں بچ گئیں اور باقی مانندہ جاپانی سپاہیوں اور شہریوں کی جانیں بھی محفوظ ہو گئیں امریکا کو ان حملوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ جاپان ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا اور ان حملوں سے قبل یہ تاثر پھیل رہا تھا کہ جاپان ہتھیار پھینکنے کے لیے تیار نہیں۔
ان ایٹمی حملوں کا ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ امریکا پرل ہاربر (امریکا کا بحری اڈہ) پر جاپانی حملوں کا انتقام لینے پر تلا ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد ہی امریکا دوسری جنگ عظیم میں شامل ہوا۔جاپان نے جنگ کے دوران جس بربریت کا مظاہرہ کیا تھا امریکا یہ حساب بھی برابر کرنا چاہتا تھا۔ہیروشیما پر حملے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ ہیروشیما پر جاپان نے کوئی فضائی حملہ نہیں کیا تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایٹم بم کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے یہ شہر مناسب ہے۔ہیروشیما اس زمانے میں جاپان کا ایک اہم فوجی اڈہ بھی تھا۔ امریکی صدر ٹرومین نے فیصلہ کیا تھا کہ جاپان کے شہر پر ایٹمی حملوں سے کوئی خاطر خواہ تاثر پیدا نہیں ہوگا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ جاپان کی جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا جائے۔ اس وقت ہیروشیما کی آبادی تین لاکھ اٹھارہ ہزار (3,18,000) تھی اور جاپان کا ساتواں بڑا شہر تھا۔ اس کی فوجی اہمیت کا یہ عالم تھا کہ یہاں فوجی اسلحہ سپلائی کرنے کا ایک بڑا ڈپو تھا۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہیروشیما پر ایٹمی حملوں سے 70,000افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ناگاساکی پر حملوں سے 40,000افراد لقمہ اجل بنے۔ بعد میں زخموں کی تاب نہ لا کر مزید ہزاروں افراد موت کی وادی میں اتر گئے۔ تابکاری کے اثرات نے کئی بیماریاں پھیلا دیں جن میں سرطان کا مرض بھی شامل تھا۔ مجموعی طور پر 2 لاکھ افراد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔اب اس بات پر بھی غور ضروری ہے کہ ہیروشیما کے بعد ناگاساکی کو کیوں ایٹمی حملوں کا نشانہ بنایا گیا؟ ناگاساکی اس وقت وہ شہر تھا جہاں بحری جہاز بنائے جاتے تھے۔ اس صنعت کے قیام کا مقصد ہی تباہی پھیلانا تھا۔ اس شہر کے اردگرد پہاڑیوں کی موجودگی نے تباہی کو کم کرنے میں مدد کی۔ یہاں جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد 60 ہزار سے 80ہزار بتائی جاتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ امریکا نے جرمنی پر ایٹم بم کیوں نہیں برسائے؟ اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت تک ایٹم بم پوری طرح تیار ہی نہیں ہوا تھا جب جرمنی نے سرکاری طور پر ہتھیار پھینک دئیے۔ جرمنی نے 7مئی 1945 کو اتحادی طاقتوں کے سامنے ہتھیار پھینکے تھے۔امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر پھینکے جانے والے بموںکو چھوٹا لڑکا (Little Boy) اور موٹا آدمی (Fat man) قرار دیا تھا۔ ابھی تک اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ کیا ایٹمی حملوں کا فیصلہ ایک سنجیدہ خیال تھا۔
ایٹم بم کا پہلا کامیاب تجربہ 16جولائی 1945 کو نیو میکسیکو میں کیا جا چکا تھا۔ 1945 میں کریمیا میں ہونے والی کانفرنس میں برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل امریکا کے صدر روز ویلٹ اور سابق سوویت یونین کے وزیراعظم جوزف سٹالن شریک ہوئے مشہور جنرل گروز نے جنگ کے اختتام پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تمام کمانڈروں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ جرمنی میں جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اورایٹم بم پھینکنے کے لیے جاپان کو ہی نشانہ بنانا چاہئے۔ اس بات پر تمام اتحادیوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ایٹم بم پھینکنے کے لیے جرمنی پر ایٹمی حملہ کوئی پائیدار آپشن (Viable Option) نہیں تھا۔اب ایک بڑے اہم سوال کی طرف آتے ہیں۔ا مریکانے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو پر کیوں حملہ نہیں کیا؟ اس کی وجوہات بڑی ٹھوس ہیں۔ ویسے تو کئی جاپانی اور جرمنی کے رہنمائوں نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ جاپان تو ایٹم بم حملوں سے پہلے ہی ہتھیار پھینکنے کا سوچ رہا تھا لیکن امریکا نے ’’مذموم مقاصد کے لیے ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملے کیے۔ بہرحال یہ بحث تو اب تک جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹوکیو پر ایٹمی حملہ نہ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ یہاں جاپانی شہنشاہ کا گھر تھا۔ ٹوکیو پر ایٹم بم پھینکنے کا ارادہ اس وقت تبدیل کیا گیا جب یہ بات سامنے آئی کہ ایسا کرنا فوجی اہمیت کے حوالے سے مناسب نہ تھا۔ اگر جاپان پر ایٹمی حملہ کرنا ضروری تھا تو پھر جنوب سے حملہ کیا جائے اور ٹوکیو جنوب میں نہیں تھا۔ نیگاٹا کے علاوہ تمام اہداف جنوب میں واقع تھے۔ آخر میں کیوٹو پر بم گرانے کا منصوبہ بھی ترک کر دیا گیا اور اس کی جگہ ناگاساکی کا انتخاب کیا گیا جہاں دوسرا ایٹم بم گرایا گیا۔امریکی جنگی ماہرین کے مطابق اگر ایٹم بم ایسے شہر پر گرایا جائے جہاں پہلے ہی بہت بمباری کی جا چکی ہو (جیسے کہ ٹوکیو) تو اس سے یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ یہ کتنا طاقتور بم تھا کیونکہ فضائی حملوں سے پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا تھا جاپان کے بہت سے چھوٹے شہروں پر اس لیے ایٹمی حملوں سے گریز کیا گیا کیونکہ فوجی لحاظ سے ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ تھی کہ یہ فوجی لحاظ سے بڑے اہم شہر تھے۔ ٹوکیو پر حملے نہ کرنے کی ایک وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ یہاں جاپان کے شہنشاہ کی رہائشگاہ تھی۔ اس کے علاوہ جاپان کے بڑے فوجی افسروں کا ٹھکانہ بھی یہی تھا۔ اب اگر آپ ہتھیار پھینکنے کے لیے جاپان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان فوجی افسروں کو ہلاک کرنا ہرگز دانشمندی نہ ہو گی ہیروشیما اور ناگاساکی کی فوجی اہمیت اوپر بیان کی جا چکی ہے۔ ایٹم بم پھینکنے کے لیے ان شہروں کا انتخاب کیاگیا جہاں پہلے دوسرے بم نہیں پھینکے گئے۔ بمباری سے ٹوکیو کئی بار جل چکا تھا۔ اس لیے اسے لسٹ سے نکال دیا گیا اور پھر جاپان کے شہنشاہ کو ہلاک کرنا بھی مقصود نہیں تھا۔
اب ذرا اس نظرئیے پر غور کیجئے جو کچھ سیاسی ماہرین نے پیش کیا ان کے موقف کے مطابق جاپان ایک شرط پر ہتھیار پھینکنے پر آمادہ تھا اور اس شرط کا تعلق جاپانی شہنشاہ سے تھا۔ وہ آبرو مندانہ طریقے سے ہتھیار پھینکنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ سابق سوویت یونین کو سفارتی طور پر امریکا کیخلاف استعمال کرنے کے آرزومند تھے تاکہ انکی سودے بازی (Bargaining) کی پوزیشن بہتر ہو جائے۔ اس کے برعکس امریکا چاہتا تھا کہ جاپان غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینکے لیکن وہ جانتا تھا کہ جاپان 2 شرائط پر ہتھیار پھینکنے پر راضی ہوگا،یہ کہ جاپان کے شہنشاہ کو اقتدار میں رکھا جائے اور اس پر مقدمہ نہ چلایا جائے اور دوسرا یہ کہ سابق سوویت یونین کو ان جاپانی علاقوں پر حملوں سے روکا جائے جو براعظم کے حوالے سے جاپان کا حصہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے بہت سے جرنیل ایٹمی حملوں کے خلاف تھے کیونکہ ان کے خیال میں فوجی لحاظ سے اس کی صحیح معنوں میں کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ کچھ ماہ پہلے روسی جاپان پر ایٹمی حملوں کے حق میں تھے۔ آخری بات یہ تھی کہ ان حصوں کو ٹارگٹ کیا جائے جنہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ فوجی اہمیت کے حامل بھی ہوں اور ہیروشیما اور ناگاساکی کا انتخاب اسی لیے کیا گیا تھالیکن ٹوکیو کو ’’بخش‘‘ دیا گیابہرحال جاپان پر ایٹمی حملہ امریکا کے چہرے پر سب سے بھیانک دھبہ ہے یہ ایک ایسا جرم ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر