وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسئلہ فلسطین ، حقائق اور مغالطے

جمعرات 20 مئی 2021 مسئلہ فلسطین ، حقائق اور مغالطے

اگر آپ کا جانی دشمن کبھی سرراہ مل جائے لیکن اُس کی پشت پر ہتھیار بند، دو درجن کے قریب حمایتی بھی کھڑے ہوں جبکہ آپ تن تنہا اور بالکل نہتے ہوں ،تو کیا آپ پھر بھی اپنے جانی دشمن کو خود سے دو بہ دو مقابلہ کرنے کے لیے للکاریں گے؟۔ غالب امکان یہ ہی ہے کہ آپ کی نفرت و نخوت اپنے دشمن کے خلاف بھلے ہی آخری درجے پر کیوں نہ ہو، لیکن اپنی بے سروسامانی اور مقابل کی وسیع تر افرادی قوت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، آپ اپنے جانی دشمن کے ساتھ معرکہ آرائی کے جذبہ کو اُس دن تک دبا کر رکھیں گے کہ جب تک آپ کی قوت اور مقابل کی طاقت کا عددی تفاوت برابر نہ ہوجائے ۔یادرہے کہ آپ کا یہ طرز عمل حکمت وتدبیر کی کسی بھی لغت میں بزدلی نہیں بلکہ دوراندیشی کہلائے گا۔کیونکہ بے وقوف سا بے وقوف شخص بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ کسی تن تنہا اور نہتے شخص کا ، کسی ہتھیار بند جتھے کو لڑائی کے لیے للکارنا سراسر خودکشی اور اپنے دشمن کے عزائم پورا کرنے کے مترادف ہے۔ اس چھوٹی سے مثال کا اطلاق فلسطین کی حالیہ صورت حال پر بھی کیا جاسکتاہے۔
واضح رہے کہ فلسطین میں اسرائیلی استبداد کے ہاتھوں گزشتہ چند ہفتوں سے فلسطینیوں پر بہیمانہ ظلم و ستم کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ، جس نے صرف اہلِ مسلم ہی نہیں بلکہ ہر دردِ دل رکھنے والے انسان کو مضطرب اور مستقل بے چینی میں مبتلا کررکھاہے۔ دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلمان اقوام سراپا احتجاج ہیں لیکن اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔مسلمانوں کی بے بسی کا ایسا منظر آسمان کائنات نے کم کم ہی ملاحظہ کیاہے کہ جب دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں کا ناحق خون پانی کی طرح بہہ رہا ہو مگر مسلمان اُن کی عسکری امداد تو ایک طرف مالی و طبی امداد بھی نہ کرسکتے ہوں ۔ایسے میں اگر مسلم ممالک میں رہنے والے عوام اپنے حکمرانوں سے فلسطینیوں کو اسرائیلی افواج کے پنجہ استبداد سے بچانے کے لیے اسرائیل پر حملے کا مطالبہ کریں تو اُن کی یہ مانگ اور خواہش اُن کے اذہان اور قلوب میں پنپنے والے جذبات کی بالکل درست ترجمانی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اگر ترکی ،ایران اور پاکستان میں سے کسی بھی ایک ملک کا حکمران واقعی اسرائیل پر اپنی پوری عسکری صلاحیت کے ساتھ حملہ آور ہوجائے تو اس کے نتیجے میں کیا فلسطینیوں کی آزاد فلسطینی ریاست کا خواب پورا ہوجائے گا؟۔ یہ وہ سوال ہے جس کا حتمی جواب اسرائیل پر حملے سے قبل تلاش کرنا ہوگا ناکہ بعد میں ۔
عوام کے ایک حلقے کے ذہن میں یہ رائے پوری طرح راسخ ہوچکی ہے یا چند عاقبت نااندیش رہنماؤں کی جانب سے کردی گئی ہے کہ اسرائیل چند لاکھ نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے ،جسے کسی بھی مسلمان ملک کی فوج چند گھنٹوں کی فضائی اور زمینی کارروائی کے بعد باآسانی فتح کر کے فلسطینیوں کی جھولی میں ڈال سکتی ہے۔ یہ وہ مغالطہ ہے جو سننے میں تو ہمارے کانوں کو بھی بہت بھلالگتا ہے ،لیکن جب اس نقطہ نظر کو عقل کی کسوٹی پر ،پرکھیں تو منکشف ہوتا ہے کہ اس رائے جیسا بودا سیاسی عقیدہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ بلاشبہ اسرائیل 90 لاکھ آبادی والا ایک مختصر سے رقبہ پر قابض دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ہی ہے ، جس میں یہودیوں کی تعداد 74 فیصد ہے۔لیکن اسرائیل کی اصل عسکری طاقت اور قوت اسرائیلی افواج یا مقبوضہ سرزمین نہیں ہے ،بلکہ اُن کی اصل قوت دنیا کے وہ 97 طاقت ور ترین ممالک ہیں ، جو اسرائیل کو اپنا بغل بچہ سمجھتے ہیں ۔اسرائیل کے پشت پناہ، اِن ممالک میں امریکا ،برطانیا ، آسٹریلیا ،جاپان اور یورپ کے تمام قابل ذکر ممالک سرفہرست ہیں ۔ جن کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ اسرائیل پر حملہ کرنے والے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانا کے علاوہ کچھ نہیں ۔
یعنی پاکستان کو تو آپ تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف ہی رکھ دیں لیکن اگر ترکی کے صدر طیب اردوان اور ایران کے صدر حسن روحانی میں سے بھی کوئی ایک مسلم رہنما اپنی دینی حمیت کے تحفظ اور فلسطینی سرزمین سے یہودیوں کو بے دخل کرنے کے جذبہ سے مغلوب ہوکر اسرائیل پر لشکر کشی کردے تو اگلے چند ہی گھنٹوں میں دنیا کے 97 طاقت ور ترین ممالک اُس ملک پر بھیڑیوں کی طرح چاروں طرف سے حملہ آور ہوجائیں گے۔ جس کا آخری نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ ابھی تو اسرائیلی بربریت کا صرف 47 لاکھ فلسطینی ہی شکارہیں لیکن بعد ازاں اس میں ترکی کے 8 کروڑ اور ایران کے 9 کروڑ معصوم مسلمانوں کا بھی اضافہ ہوجائے گااور یوں اسلام مخالف قوتوں کو ظلم و ستم کی مشق کرنے کے لیے مسلم خون کچھ مزید ارزانی سے دستیاب ہوجائے گا۔ یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث ترکی اور ایران حزب اللہ کی خفیہ امداد تو ضرور کرتے ہیں لیکن اسرائیل پر اعلانیہ حملہ کرنے سے حتی المقدور اجتناب برتنے کی غیر مقبول مگر دانش مندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔
یہاں بعض اہلِ درد افراد، ترکی اور ایران کو اُن کی مذکورہ بالا مجبوریوں کی رعایت دیتے ہوئے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان سے مطالبہ کرسکتے ہیں اوریاد رہے کہ سوشل میڈیا پرتو پورے شد و مد کے ساتھ مختلف پوسٹوں میں پاکستانی اربابِ اقتدار سے سوال کیا بھی جارہا ہے کہ ’’ ایٹم بم آخر کس لیے بنایا تھا؟ کیا ہما را ایٹم بم اسرائیل کو نیست و نابود کرکے فلسطینیوں کو یہودیوں کے ظلم و جبر سے نجات نہیں دلاسکتا؟‘‘۔ایسی یا اس جیسی دیگر جذباتی پوسٹیں پڑھنے کے بعد اَب تو ہماری سادہ لوح عوام کی اکثریت بھی سوچنے لگی ہے کہ آخر پاکستان اپنے سینکڑوں ایٹم بموں سے کوئی ایک بڑا سا ایٹم بم، تل ابیب کا نشانہ لے کرچلا کیوں نہیں دیتا۔چلیں ایک لمحہ کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اپنے ایک سب سے چھوٹے ایٹم بم کو غوری یا غزنوی میزائل میں بٹھا کر اسرائیلی دارلحکومت کی جانب روانہ کردیتی ہے اور وہ صحیح سلامت مطلوبہ ہدف پر کامیابی کے ساتھ سجدہ ریز بھی ہوجاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟۔
شاید ایٹم بم اسرائیلی سرزمین پر گرانے کا مشورہ دینے والوں نے اس بارے میں نہ سوچا ہوتو اُن کی معلومات میں تصیح کے لیے ہم بتائے دیتے ہیں کہ ہمارا پھینکا گیا ایک چھوٹا سا ایٹم بم بھی تمام اسرائیل ،پوری فلسطینی ریاست، آدھے سے زیادہ عرب ممالک اور خاکم بدہن بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔ کیونکہ ایٹم بم ضرور ہمارے پاس ہے لیکن ایٹم بم کی ہولناک تباہی کو محدود ،کم یا زیادہ کرنے کی سائنس دنیا کے کسی بھی ملک کے پاس موجود نہیں ہے ۔ لہٰذا ہمارا غلطی یا مرضی سے چلایا گیا ایٹم بم یہودیوں اور فلسطینیوںکو الگ الگ شناخت کرنے کی ’’تیکنیکی صلاحیت‘‘ سے یکسر محروم ہونے کے باعث پورے خطہ عرب پر ہی ایک ہولناک قہر بن کر اُترے گا۔ یہ تو وہ مثال ہوئی کہ اگر چار پانچ اغواکاروں نے کسی عمارت میں 200 یا 300 بے گناہ و معصوم افراد کو یرغمال بنایا ہوا ہے تو ریاست یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرنے کا مشکل اور صبر آزما راستہ تلاش کرنے کے بجائے مٹھی بھر اغواکاروں کا قصہ تمام کرنے کے لیے پوری عمارت کو مع یرغمالیوںکے بم سے اُڑاکر اگلے روز بیان جاری کردے کہ ’’دیکھیںجی! ہم نے معصوم افراد کو اغوا کرنے والوں کو سزا دے کر ریاست کا قیمتی وقت اغوا کاروں سے مذاکرات میں ضائع ہونے سے بچا لیا ہے‘‘۔اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ چونکہ پاکستان کے ساتھ اسرائیل یا فلسطین کی سرحدیں نہیں ملتی، اس لیے لشکرکشی کے لیے زمینی یا فضائی کارروائی کرنا ہمارے لیے صرف کارِ محال ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔ ہاں ! اگر اسرائیل کے ساتھ متصل عرب ممالک جنگ کی بساط بچھالیں ،تو یقینا اُس میں پاکستان کی ایک اہم مہرہ ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔
مگر اَب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ آخر عرب ممالک کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود اسرائیل کو عبرت ناک ’’عسکری سبق ‘‘ سکھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟۔ جبکہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان بھی فقط سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی عرب حکمران اور عوام کو بزدلی ، کم ہمتی اور ایمان فروشی کے صبح و شام طعنے دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ تو عرب حکمران اور نہ ہی عرب عوام فلسطینیوں کے حق میں ہلکی سی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہیں دکھائی دیتے ہیں ۔ کیا اہلِ عرب! واقعی اتنے سخت دل اور کھٹور ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنے پڑوس میں چیختے چلاتے مظلوم فلسطینیوں کی آہیں اور سسکیاں سنائی نہیں دیتیں؟ ۔ سچ تو یہ ہے کہ عربوں کا چونکہ فلسطینیوں کے ساتھ خون اور زمین کا رشتہ بھی ہے ،اس لیے یقینا انہیں فلسطینیوں کے دکھ اور درد پر ہم سے زیادہ تکلیف ہوتی ہوگی۔ واضح رہے کہ اگر عربوں کو سرزمین فلسطین کی پرواہ نہ ہوتی تو وہ آخر کیوں اسرائیل کے خلاف ایک بار نہیں بلکہ تین بار جنگ کا میدان سجاتے ۔
جی ہاں! عرب فلسطینیوںکی محبت میں تین بار پراکسی یا خفیہ نہیں بلکہ اعلانیہ جنگ کرچکے ہیں۔لیکن ہر بار اسرائیل اور اُس کے اتحادی فقط اس لیے کامیاب و کامران رہے کہ عرب ممالک عسکری میدان میں ریت کی دیوار ثابت ہوئے تھے اور یوں اسرائیل فاتح اور عرب مفتوح قرار پائے۔ نیز عرب ممالک کے ہر حکمران کو ہم سے زیادہ اچھی طرح سے ادراک ہے کہ فلسطین اور یروشلم کے بعد اسرائیل کے قدم اُن کی سرزمین پر قابض ہونے کے لیے ہی بڑھیں گے۔ لیکن اہل عرب ماضی کی تین جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں اتنے زخم خورہ اور مفلوج ہوچکے ہیں کہ اُن میں اَب اسرائیل کا سامنا کرنا تو کجا ، اسرائیل کو خشمگیں نگاہ سے دیکھنے کی بھی ہمت باقی نہیں رہی ہے۔ اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تومنکشف ہوگا کہ عرب ممالک اور فلسطین یکساں طور پر اسرائیل کے محکوم ہیں ۔یعنی فلسطینی جسمانی طور پر اسرائیلیوں کی دسترس میں ہیں لیکن اِن کے ذہن مکمل طور پر آزاد ہیں ۔ جبکہ عرب ممالک ذہنی طور پر اسرائیل کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں ہوچکے ہیں ،بظاہر اِن کے جسم اور علاقے آزاد دکھائی دیتے ہیں ۔ اَب یہاں اہم ترین سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ عرب ممالک ہوں یا فلسطین انہیں اسرائیل کے پنجہ استبداد سے رہائی کون دلائے گا؟۔ یا مسئلہ فلسطین کا مبنی بر حقائق ،ممکنہ حل کیا ہوسکتاہے؟۔اور اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا سب سے مؤثر حکمت عملی کیا ہونی چاہیئے؟۔اِن تمام اشکالات کے جوابات اگلے کالم میں تلاش کرنے کی عاجزانہ سی کوشش کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر