وجود

... loading ...

وجود
وجود

کسانوں کی راہ میں کیلیں اور کانٹے

جمعه 19 فروری 2021 کسانوں کی راہ میں کیلیں اور کانٹے

(مہمان کالم)

معصوم مرادآبادی

راجدھانی دہلی کی سرحدوں پرکسانوں کا ہجوم بڑھتاہی چلا جارہا ہے۔ کسان متنازعہ زرعی قوانین کی واپسی پراڑے ہوئے ہیں جبکہ حکومت ان قوانین کوہرصورت میں نافذکرنے پراٹل ہے۔حکومت کسانوں کے مطالبات پر کان دھرنے کی بجائے ان کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے، جو اس کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔حکومت نے احتجاج کو کچلنے کی جو راہ اختیار کی ہے، اس نے حالات کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ کسانوں کا ہجوم پہلے ہریانہ سرحد تک محدود تھا ، لیکن یوم جمہوریہ پرتشددکے بعد اس کا دائرہ اترپردیش کی سرحد تک بڑھ گیا ہے اور احتجاج نے زیادہ وسیع شکل اختیار کرلی ہے۔پولیس نے کسانوں کی دہلی آمد کو روکنے کے لیے سنگھو بارڈر پر دس لیول کی بیریکیٹنگ کردی ہے۔ مظاہرے کی جگہ کونوکیلے تاروں سے گھیر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سڑکوں پربڑے بڑے ڈیوائیڈر رکھ کر راستوں کو بند کردیا گیا ہے۔ کسانوں کے احتجاج کی جگہ سے میڈیا کو بھی دور رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ میڈیا کو اسٹیج سے ایک کلومیٹر دور سے گھوم کرآنے کا راستہ دیا گیا ہے۔ سنگھو بارڈر کے آس پاس کی سبھی سڑکیں بند کردی گئی ہیں، جس سے کسانوں کے علاوہ مقامی باشندوں کو بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ کسانوں کو دہلی آنے سے روکنے کے لیے سنگھو، غازی پور اور ٹیکری بارڈر کے آس پاس کے علاقوں میں انٹرنیٹ خدمات بندکردی گئی ہیں۔پولیس نے سڑکوں پر روڈ ڈیوائیڈر کے درمیان کنکریٹ ڈال کرراستوں کو جام کردیا ہے۔ ساتھ ہی روڈ پر کیلیں لگادی گئی ہیںتاکہ کسان دہلی کی طرف نہ آسکیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپنے ہی شہریوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے صوبائی سرحدوں پر ایسی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہوں جو ملک کی سرحد پر دشمن کو روکنے کے لیے کھڑی کی جاتی ہیں۔کہا جارہا ہے کہ سنگھو بارڈر پر حکومت نے ایسے مہلک نوکیلے تار اور ااہنی انتظامات کیے ہیں کہ جو کوئی ان کی زد میں آئے گا اس کا گوشت جسم سے جدا ہوجائے گا۔

کسانوں کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے وہ تمام حربے اختیار کیے ہیں جو خوفزدہ حکمراں اختیار کرتے ہیں۔اس معاملے میں حکومت کے ردعمل کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان تمام لوگوں سے بھی خوفزدہ ہے جو اس تحریک کو کسی بھی قسم کی حمایت دے رہے ہیں۔ حال ہی میںفلم اور موسیقی کی بعض عالمی سطح پرمقبول شخصیات نے جب کسانوں کی تحریک پر زبان کھولی تو ان کی زبان بند کرنے کے لیے چاپلوس اداکاروں کی پوری ٹیم میدان میں اتاردی گئی اور سرکاری سطح پر ان تمام اعتراضات کو مسترد کردیا گیا۔مشہور پوپ گلوکار ایانا، امریکا کی نومنتخب نائب صدر کملا ہیرس کی بھانجی مینا ہیرس ، ماحولیات کے لیے کام کرنے والی گریٹا اور میا خلیفہ وغیرہ کے تبصروں نے کسانوں کی تحریک کے عالمی سطح پر مقبول ہونے کا ہی عندیہ دیاہے۔حالانکہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے ان تبصروں کو غیرذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے ان شخصیات کو مشورہ دیا ہے کہ ایسی تحریکوں کو ہندوستان کی جمہوری سیاست کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے اور کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے حقائق کو سمجھنا چاہئے۔ حکومت کی اس وضاحت کے باوجود امریکہ نے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ پرامن احتجاج کی حمایت کرتا ہے۔ یہ جمہوریت کا حصہ ہے۔ کوئی اختلاف ہوتو اسے بات چیت سے حل کرنا چاہئے۔بھارت کے سپریم کورٹ نے بھی یہی کہا ہے۔‘‘ دوسری طرف برطانیا میں ای پٹیشن پر لاکھوں لوگوں نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں دستخط کیے ہیں۔اب وہاں کی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کو عالمی حمایت حاصل ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جانی مانی شخصیات بھی اس پر کھل کر اظہارخیال کررہی ہیں۔

کسانوں کی تحریک والے مقامات پر انٹرنیٹ سروس بند کرنے کی حکومت کی کارروائی پر ایک اخبار میں شائع شدہ مضمون کو شیئر کرتے ہوئے پاپ سنگرریانانے ٹوئٹ کیا’’ ہم اس بارے میں بات کیوں نہیں کررہے ہیں؟‘‘انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں کسانوں کو ہیش ٹیگ بھی کیا۔واضح رہے کہ ریانا دنیا کی پانچ امیرترین شخصیات میںشامل ہیںاور ٹوئٹر پر ان کے فالور ز کی تعداد دس کروڑ سے زیادہ ہے۔اس دوران ماحولیات کے لیے کام کرنے والی سوئڈن کی دوشیزہ گریٹا تھن برگ کے ٹوئٹ کے خلاف امن میں خلل ڈالنے کا مقدمہ درج کرلیا گیاہے۔ اس نے کہا ہے کہ میں اب بھی کسانوں کے احتجاج کی حمایت کرتی ہوں۔واضح رہے کہ اس قسم کے مقدمات بعض دیگر لوگوں کے خلاف بھی قائم کیے گئے ہیں۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر اترپردیش کے ایک کسان کی موت پر ٹوئٹ کرنے والے سرکردہ صحافیوں پر بھی پولیس نے مقدمات درج کیے ہیں۔ راجدیپ سرڈیسائی اور مرنال پانڈے جیسے صحافیوں کے خلاف مقدمات دہلی کے علاوہ پانچ صوبوں میں دائر کیے گئے ہیں۔ ان میں کانگریس لیڈر ششی تھرور بھی شامل ہیں۔کسانوں کے مطالبات اور احتجاج کی حمایت کرنے والوں کے خلاف جس تیزی کے ساتھ مقدمات قائم ہورہے ہیں اور انھیں سرکاری سطح پر ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت آخری سانسیں گن رہی ہے، کیونکہ جمہوری نظام میں شہریوں کو جو حقوق حاصل ہوتے ہیں‘ ان میں اظہارخیال کی آزادی بنیادی حقوق کے زمرے میں آتی ہے، لیکن جب کوئی حکومت بولنے، لکھنے اور احتجاج کرنے کی آزادی کو ختم کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پھر جمہوری قدروں کے تئیں اس کی وابستگی صفر ہوجاتی ہے۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ملک میں اپنے بنیادی جمہوری حقوق کا استعمال کرنے والوں کو اب ملک دشمنوں کے زمرے میں رکھا جارہا ہے اور احتجاج کرنا سب سے بڑا جرم قرار دیا جارہا ہے۔حال ہی میں بہار سرکار نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ جو کوئی کسی قسم کے احتجاج میں شریک ہو گا ، اسے پاسپورٹ ، اورسرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ یعنی پاسپورٹ کے لیے پولیس انکوائری کے دوران یا سرکاری نوکری کے لیے خفیہ رپورٹ کی تیاری کے دوران اگریہ انکشاف ہوا کہ متعلقہ شخص کسی احتجاج یا دھرنے میں شریک ہوا ہے تو اسے ’ مجرمانہ سرگرمی‘ میں شمار کرکے اس کی رپورٹ منفی لگادی جائے گی۔ جبکہ پاسپورٹ ایکٹ مجریہ 1967 میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ اتراکھنڈ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ان لوگوں کو بھی ملک دشمنوں کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جوسوشل میڈیا پرقابل اعتراض تبصرے کریں گے۔ایسے لوگوں کو پاسپورٹ، سرکاری ملازمت اور بینک لو ن لینے کے لیے ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے گا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے برس اترپردیش سمیت بی جے پی کے اقتدار والے صوبوں میں ان لوگوں کے خلاف قرقی کی کارروائی کی گئی تھی جنھوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ایسے ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے تھے جنھوں نے تفریق پرمبنی سی اے اے قانون کو واپس لینے کے لیے جمہوری طریقوں سے پْرامن احتجاج کیا تھا۔آج بھی اترپردیش میں ایسے لوگوں کی پکڑدھکڑ کاکام جاری ہے۔ان لوگوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے ہیں اور عدم ادائیگی کی صورت میں ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئی ہیں۔جبکہ یہ لوگ اپنے جمہوری اور دستوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج کررہے تھے اور یہ پوری طرح پْرامن تھا، لیکن حکومت نے انھیں سبق سکھانے کے لیے ان پر مقدمات قائم کیے اور ان کی جائیدادیں قرق کی گئیں۔اب یہی صورتحال ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہے جو کسانوں کی تحریک میں شامل ہیں یا ان کو اخلاقی مدد فراہم کررہے ہیں۔جمہوریت میں احتجاج کا حق بنیادی آزادی کے ذیل میں آتا ہے اورپوری دنیا میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے چنی گئی سرکاریں عوام کے تئیں جواب دہ ہوتی ہیں۔ عوامی احتجاج اور جمہوری آوازوں کوکچلنا کسی بھی طور جائز نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری حکومت جمہوریت کا لباس پہن کر غیرجمہوری راستوں پر چل رہی ہے۔ غیرجمہوری اور غیرانسانی طریقوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ملک دشمنی اورغداری سے تعبیر کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا ہم ایک اندھی سرنگ میں داخل ہوگئے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر