وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا میں نئی وزیر خزانہ کا انتخاب

جمعه 04 دسمبر 2020 امریکا میں نئی وزیر خزانہ کا انتخاب

(مہمان کالم)

پال کر گ مین

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر خزانہ کے لیے جینیٹ ییلن کا انتخاب کیا ہے‘ جس پر معیشت دانوں میں زبر دست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ اس جوش و خروش کو دیکھ کر ان کی تقرری کی غیر معمولی نوعیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی شخصیت ہی نہیں ہوں گی بلکہ وہ امریکا کی معیشت کے تین اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہونے والی پہلی شخصیت بھی ہوں گی؛ یعنی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز کی سربراہ، فیڈرل ریزروز کی سربراہ رہنے کے بعد اب وہ امریکی وزیر خزانہ بن رہی ہیں۔ان کی تقرری ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ پر زبردست طمانچہ ہوگی جنہوں نے فیڈرل ریزروز کے لیے ان کی دوسری مرتبہ تقرری کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق وہ انہیں اس کے اہل نہیں سمجھتے تھے؛ تاہم جینیٹ ییلن اپنے پبلک سروس کیریئر سے ہٹ کر بھی ایک نمایاں شہرت رکھتی ہیں۔ اپنے منصب پر فائز ہونے سے پہلے وہ ایک سنجیدہ مزاج ریسرچر تھیں۔ وہ اس تحریک کی ایک نمایاں شخصیت تھیں جنہوں نے امریکا کی میکرو اکنامکس کو اس وقت ایک مفید ڈسپلن کے طور پر بچانے میں مدد کی تھی جب یہ افادیت اندرونی اور بیرونی‘ دونوں محاذوں پر شدید حملوں کی زد میں تھی۔

مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں ان دنوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا جب جینیٹ ییلن فیڈرل ریزروز میں تھیں‘ خاص طور پر چیئر پرسن بننے سے قبل جب 2010ء میں وہ فیڈرل ریزروز کے بورڈ کی رکن تھیں‘ ان دنوں امریکی معیشت شدید کساد بازاری کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کے راستے میں کانگرس کے ریپبلکنز ارکان نے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس مخالفت کی بظاہر وہ یہ دکھا رہے تھے کہ وہ قومی قرضوں کے حوالے سے گہری تشویش اور فکر میں مبتلا ہیں اس لیے انہوں نے اخراجات میں کٹوتی کر دی جس سے امریکی معیشت کی افزائش کو زبردست نقصان پہنچا لیکن محض اخراجات ہی موضوع بحث نہیں تھے‘ بلکہ وہاں مانیٹری پالیسی پر بھی زبردست بحث ہو رہی تھی۔خاص طور پر دائیں بازو کے ایسے کئی ارکان تھے جنہوں نے فیڈرل ریزروز کی ان کوششوں کی شدید مخالفت کی جو وہ معیشت کو 2008ء کے مالی بحران سے نکالنے کے لیے کر رہا تھا۔ ان میں سے جوڈی شیلٹن کو‘ جس نے 2009ء میں یہ وارننگ دی تھی کہ فیڈرل ریزروز کے اقدامات تباہ کن افراطِ زر پیدا کرنے کا باعث بنیں گے‘ صدرٹرمپ ابھی تک فیڈرل ریزروز میں تعینات کرانے پر زور لگا رہے ہیں۔

فیڈرل ریزروز میں بھی دو طرح کی تقسیم تھی؛ عقابی گروپ میں وہ لوگ شامل تھے جو افراطِ زر کی وجہ سے پریشان تھے جبکہ فاختائیں دبائو والی معیشت کے حق میں تھیں۔ ییلن فاختائوں کی معروف اور نمایاں آواز تھیں اور وال سٹریٹ جرنل نے اپنے 2013ء کے تجزیے میں بتایا تھا کہ فیڈرل پالیسی میکرز میں وہ سب سے درست اور کامیاب تجزیہ کار تھیں جن کی پیش گوئیاں اکثر درست ثابت ہوتی تھیں۔ان کے تجزیے کیوں درست تھے؟ اس سوال کا ایک جواب ان کا وہ اکیڈیمک کام ہے جو انہوں نے 1980ء کے عشرے میں کیا تھا۔ اس وقت مفید میکرو اکنامکس پر تنقیدی حملے جاری تھے۔ میرے خیال میں مفید میکرو اکنامکس کا مطلب وہ فہم اور ادراک ہے جو جان مینرڈ کینز سے لے کر ملٹن فریڈ مین تک ماہرین معیشت نے شیئر کیا تھا کہ مالیاتی پالیسی کو افراطِ زر سے لڑنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ انڈر اسٹینڈنگ حقیقت پسندی کے ٹیسٹ میں ناکام نہیں ہوئی جبکہ ا س کے برعکس 1980ء کے تجربے نے بنیادی میکرو اکنامکس کی پیشگوئیوں کی تصدیق کر دی تھی مگر مفید اکنامکس ابھی خطرے سے دوچار تھی۔

ایک طرف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اکانومسٹ حقیقت پر مبنی اکنامکس سے کرینک ڈاکٹرائنز (Crank Doctrines) کی طرف جھک گئے خاص طور پر اس دعوے کی طرف کہ حکومتیں امرا پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی کرکے اپنی شرح نمو کو بڑھا سکتی ہیں۔ دوسری جانب ایسے اکانومسٹ تھے جنہوں نے افراطِ زر کے خاتمے میں پالیسی کے کردار کو بالکل مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ اگر عوام اپنے مفاد کے لئے دانشمندی سے اپنا کام کر رہے ہوں اور معاشی تجزیوں میں ہمیشہ عوام کو دانشمند ہی سمجھا جا تا ہے تو پالیسی کے کسی کردار کی ضرورت نہیں رہتی۔اسی ا سٹیج پر جینیٹ ییلن نے مداخلت کی۔ وہ نیو کینینزین اکنامکس کے فروغ کے دور کی ایک معروف شخصیت بن کر ابھریں‘ جنہیں کامل یقین تھا کہ عوام کبھی بھی بیوقوف اور احمق نہیں ہوتے مگر وہ مکمل طور پر سمجھدار بھی نہیں ہوتے اور اپنے آپ میں زیادہ دلچسپی بھی نہیں رکھتے۔ اگر انسانی رویوں کے بارے میں حقیقت پسندی کا معمولی سا بھی مظاہرہ کیا جائے تو کساد بازاری سے لڑنے کے لیے جارحانہ پالیسیوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔اپنے بعد کے کام میں جینیٹ ییلن نے یہ ثابت کیا کہ لیبر مارکیٹ کے نتائج کا دار و مدار زیادہ تر ڈالر اور سینٹ کے تخمینوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ مساوات اور انصاف پسندی کے تاثر پر بھی ہوتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈسپلنڈ حقیقت پسندی سے شروع ہو کر ییلن کی اکیڈیمک ریسرچ تک ایک ڈائریکٹ لائن جاتی ہے جو ایک پالیسی میکر کے طور پر ان کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔ان کاتعلق ہمیشہ اس گروہ سے رہا ہے جس نے ڈیٹا اور ماڈلز کی اہمیت کا ادراک کر رکھا تھا۔ بلاشبہ اس طرح کے جذباتی دور میں بھرپور اور گہرا غور و فکر زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ماضی کے تجربات ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے مگر ییلن نے کبھی یہ بات فراموش نہیں کی کہ اکنامکس ہمیشہ عوام کے لیے ہوتی ہے یہ محض جذبات سے عاری اعداد و شمار بتانے والی مشینیں نہیں ہوتیں۔ان میں سے کسی کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ حالات ہمیشہ اچھے ہی ثابت ہوں گے۔

اگست 2018ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے صدر بننے کے بعد پانچ لاکھ پیداواری اداروں میں ملازمتوں پر لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کی بعض تجارتی ڈیلز اور جارحانہ پالیسیاں اپنا کر معیشت کو محفوظ بنانے کا نتیجہ تھا۔جبکہ ان کے بقول چین امریکا تجارتی جنگ کی پالیسی سے بھی امریکی عوام کو فائدہ ملا پہنچا مگر ان کا یہ دعویٰ درست نہیں تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم اکنامک پالیسی انسٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے دعووں سے اتفاق نہیں کیا تھا اور ایک مختلف معاشی جائزہ پیش کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی دو سالوں میں پیداواری شعبوں سے زیادہ افراد ملازمتیں چھوڑ گئے تھے۔ اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ صدر ٹرمپ کے بیانیے کے برعکس ان کی غلط، انا پرستانہ اور ناہموار پالیسیوں کی وجہ سے معنی خیز ترقی ممکن نہیں ہو سکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے میں عدم کامیابی نے سابقہ دہائی کی تمام ترقی کو لپیٹ کر رکھ دیا گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ بازارِ حصص میں مسلسل تیزی اور ڈائوجونز ا سٹاک مارکیٹ کے پوائنٹس میں چالیس فیصد اضافے کا بھی کریڈٹ لینے کی کوشش میں مشغول نظر آئے مگر ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ اس تیزی کا کریڈٹ اوباما دور میں امریکی سینٹرل بینک کی جانب سے دی جانے والی مراعات تھیں۔ ٹیکس میں کمی کرنے پر بھی صدر ٹرمپ بہت فخر محسوس کرتے رہے مگر اس کمی نے امریکا کے بیس فیصد بڑے امرا کو ہی سب سے زیادہ فائدہ دیا۔ ان پالیسیوں کے پیچھے ٹرمپ کی کچن کیبنٹ تھی۔ ٹرمپ کی تو پوری کابینہ مسخروں کا مجموعہ تھی جو شاید امریکی تاریخ کی بدترین کابینہ قرار دی جا سکتی ہے مگر اس کابینہ کی نااہلی کے نتائج 2020ء سے پہلے منظر عام پر آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں فوری طور پر اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہماری معاشی پالیسیاں وہی شخص تشکیل دے سکتا ہے جسے اس بات کا بھرپور ادراک ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر