وجود

... loading ...

وجود
وجود

امیتابھ بچن پر مقدمہ اور برہمن نفسیات

پیر 09 نومبر 2020 امیتابھ بچن پر مقدمہ اور برہمن نفسیات

تاریخ پلٹ کر وار کرتی ہے، اور تاریخ کا وار کاری ہوتا ہے۔
بظاہر یہ ایک سادہ سی خبر ہے، بھارت کے نامور اداکار اور’’کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ کے میزبان امیتابھ بچن کے خلاف اپنے شو میں ایک سوال پوچھے جانے پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مگر اس مقدمے کی ہندو نفسیات میں ہزاروں سال کی تاریخ سمٹ آئی ہے۔ پہلے سوال پڑھ لیجیے: ’’ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور ان کے پیروکاروں نے 25 ؍دسمبر 1927 ء کو ان میں سے کس دھرم گرنتھ (صحیفے)کی کاپیاں جلا ئی تھیں‘‘؟
سوال کے ساتھ جواب کے لیے چارانتخاب(آپشنز) دیے گئے تھے جو کچھ یوں تھے:1۔وشنو پرانا، 2۔ بھاگوت گیتا، 3۔رگ وید، 4۔ منوسمرتی۔
امیتابھ بچن کی جانب سے اس سوال کے پوچھے جانے پر بھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے ایک رہنما ابھیمنیو پوار نے امیتابھ بچن کے خلاف ایک مقدمہ درج کرادیا۔ صرف اتنا ہی نہیں، امیتابھ بچن کے خلاف ملک بھر میں ردِ عمل کی ایک منظم لہر اُٹھنے لگی۔ یہاں تک کہ موبائل فون پر انتظار کے دوران میں کورونا پیغام کے حوالے سے چلنے والے امیتابھ بچن کی آواز میں پیغام کو ہٹائے جانے کا مطالبہ مختلف موبائل کمپنیوں سے ہونے لگا۔تاریخ کے مختلف ادوار میں جب بھی ہندو ذہنیت ردِ عمل میں بروئے کار آتی ہے، تو بے رحمی اورسفاکی اس کے اجتماعی مزاج و عمل میں جھلکتی ہے۔ امیتابھ بچن کے معاملے میں بھی یہی نظر آیا۔
امیتابھ بچن نے جو سوال پوچھا تھا، وہ ایک سادہ سوال نہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے 25 ؍دسمبر 1927 ء کو اپنے پیروکاروں کے ساتھ ہندؤں کی مقدس کتاب منوسمرتی کے اوراق کیوں جلائے تھے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے پہلے ڈاکٹر امبیڈ کر کے بارے میں جان لیجیے۔
بھیم راؤ رام جی امبیڈکر (14 ؍اپریل 1891ء تا 6 ؍دسمبر 1956ئ) ایک قانون دان، رہنما، فلسفی،مورخ اور مصلح تھے۔وہ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے وزیرقانون تھے۔ وہ بھارتی دستور کے سب سے اہم مصنف تھے۔اُنہوں نے ممبئی یونیورسٹی،کولمبیا یونیورسٹی اور ایل ایس ای (لندن اسکول آف اکنامکس) سے تعلیم حاصل کی۔ اُن کے پیروکار اُنہیں’’باباصاحب‘‘ کہتے ہیں۔مگر اپنی کسی بھی تعلیمی فضلیت اور حیثیت میں وہ اپنے پیروکاروں کے لیے ’’بابا صاحب‘‘ کا رتبہ نہ پاسکتے تھے، اگر وہ دلت کی حیثیت سے ایک عظیم اور قابل رشک جدوجہد نہ کرتے۔ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا جو اس دلت رہنما کے ساتھ بچپن سے موت تک ہوتا رہا۔ مراٹھی اور گجراتی زبان بولنے والے بابا امبیڈ کر ذات پات میں تقسیم، ہندو معاشرے میں وہ پہلے دلت تھے، جو اسکول میںبرہمن نفرت وحقارت کے آگے ڈٹے رہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اُن سے پہلے اچھوت طلباء برہمن نفرت کا مقابلہ کرنے میں ناکامی پر کبھی ہائی اسکول میں کامیابی حاصل نہ کرپاتے تھے۔ ڈاکٹر امبیڈکر جب کولمبیا یونیورسٹی سے پڑھ کر واپس آئے تو اُنہیں بڑودا ریاست کے شودر مہاراجہ کی جانب سے سیکریٹری دفاع کا عہدہ پیش کیا گیا۔ مگر بروڈا ریاست میں کسی نے بھی اپنے سیکریٹری دفاع کو کرایے کا گھر نہیں دیا، یہاں تک کہ اُنہیں خود اُن کے برہمن ماتحتوں نے پانی نہیں پلایا۔اُن کا برہمن نائب قاصد اُنہیں کوئی بھی فائل ہاتھ سے نہیں دیتا تھا بلکہ اُن کی جانب پھینک دیتا تھا، کیونکہ برہمنوں کا یقین ہے کہ اچھوتوں کو چھونے سے وہ ناپاک ہوجاتے ہیں۔ بابا امبیڈکر اس نوکری کو چھوڑ کرمزید تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ بابا امبیڈ کر نے واپسی پر اچھوتوں کے حقوق کے لیے عظیم جدوجہد کا آغاز کیااور ذات پات کے بھارتی سماج کے خلاف مضبوط آواز اُٹھائی۔ اس سلسلے میں اُن کا ’’گاندھی‘‘ سے ایک معاہدہ بھی ہوا، جسے پونا پیکٹ (1932)کہا جاتا ہے۔ گاندھی بعد میں اس معاہدے سے منحرف ہوگیا تھا۔ جسے بابا امبیڈکر نے ’’عظیم غداری‘‘ کہا تھا۔ تب ڈاکٹر امبیڈکر نے کروڑوں اچھوتوں کے ساتھ مل کر اسلام قبول کرنے کا عندیہ دیا تھا، جس سے گاندھی، کانگریسی رہنماؤں اور انگریزوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے بابا امبیڈکر کو روکے رکھا۔
برہمن ہندؤں نے اچھوتوں کا مقدمہ لڑنے والے ڈاکٹر امبیڈکر کو مختلف طریقوں سے دھوکوں پر دھوکے دیے۔بابا امبیڈکر نے اچھوتوں کے حقوق کی جدوجہد کے مختلف ادوار میں 1927ء میں ایک موقع پر آکر ذات پات کے پورے ہندو نظام کو مستحکم کرنے والی مذہبی کتاب ’’منو سمرتی‘‘ کے اوراق جلادیے۔
اب ذرا ہندؤں کی مقدس کتاب ’’منو سمرتی‘‘کو بھی سمجھ لیجیے۔ ہندو سماج کو جس کتاب کی طاقت سے ذات پات میں تقسیم کیا گیا ہے، وہ یہی منوسمرتی ہے۔ ہندو دھرم ساشتر یہاں واضح طور ہر انسانی آبادیوں کی برابری چھین کر اُنہیں چار ذاتوں میں بانٹتا ہے۔ یعنی برہمن، کشتری، ویش اور شودر۔ ان چار ذاتوں میں سے سب سے نچلی ذات یعنی شودر کا صرف ایک جنم ہوتا ہے جبکہ باقی تین ذاتیں مرنے کے بعد دوبارہ جنم لیتی ہیں۔ ان چار ذاتوں کی تشکیل کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ برہمن برہما کے سر سے پیدا ہونے کے باعث دیوتا کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے حقوق سب سے زیادہ ہیں، وہی علم ودھرم کے محافظ ہیں۔ برہمنوں کے بعد کشتری دراصل برہما کے بازو سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کی خصوصیت شجاعت ہے، وہ حکومت کرنے کا پیدائشی حق رکھتے ہیں۔ اُن کے بعد ویش ہیں۔ جو برہما کے ران سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور اُن کا انتخاب تجارت وصنعت کے لیے کیا گیا ہے۔ اس ذات پات کے نظام میں سب سے آخر ی درجہ شودروں کا آتا ہے۔ جن کی تخلیق برہما کے پیروں سے ہوئی ہیں۔ ان شودروں کی وضاحت منوسمرتی میں کچھ یوں ہوئی ہے۔
٭ شودر (اچھوت) برہمن کے پاؤں سے پیدا ہونے کے باعث ذلیل ترین ذات ہے۔
٭ شودر کتنا ہی ذہین اور باصلاحیت ہو، دولت و جائیداد جمع نہیں کر سکتا۔
٭ شودر پر تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔
٭ برہمن چاہے، تو وہ شودر سے سب کچھ چھین سکتا ہے۔
پچھلے چار ہزار برس سے ہندو معاشرہ اس نظام کے تحت حرکت پزیر ہے۔ شودروں، اچھوتوںاوردلتوں کو انسانیت کے شرف سے گرا کر انتہائی سفاکانہ طور پر غیر انسانی سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر امبیڈ کر نے انسان کے بلاامتیاز شرف کو چھینے جانے کی اس بدترین برہمن تاریخی روش کے خلاف عظیم جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے ایک مرحلے میں انہوں نے منوسمرتی کے صرف اُن اوراق کواپنے پیروکاروں کے ساتھ جلایا جو انسانوں کی اس سفاکانہ تقسیم کی بنیاد ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جسے ایک سوال کی صورت میں پوچھے جانے پر بھارت کے ہندو برہمن امیتابھ بچن پر ناراض ہوگئے۔ بی جے پی اسے ہندو مذہب کی توہین قرار دے رہی ہے۔ بھارت کی ہندو ذہنیت صرف اپنے مذہبی بہاؤ کی اس ایک لہر سے سمجھ میں نہیں آتی۔ جب بھارتی ہندو امیتابھ بچن کو بابا امبیڈ کر کی جانب سے منوسمرتی جلائے جانے کے صرف سوال پوچھے جانے پر نشانا بنارہے تھے، تو وہ ساتھ ساتھ ایک اور کام بھی کررہے تھے، یہی ہندوقوم اور ان کی برہمن ہندو حکومت فرانس میں خاتم النبیﷺ کی توہین کے رکیک واقعے کی آزادیٔ اظہار کے نام پر سرکاری حمایت کررہی تھی۔ بھارتی وزارتِ خارجہ اور پھر براہ راست وزیراعظم نریندر مودی نے میدان میں اُتر کر فرانسیسی وزیراعظم میکرون کی جانب سے توہین ِ رسالت کو آزادیٔ اظہار قرار دینے کے موقف کی حمایت کی۔ تب بھارت میں کوئی نہ تھا جو امیتابھ بچن کے صرف سوال اُٹھانے کی آزادی کی حمایت کرتا۔
بھارت کے برہمن ہندؤں کا یہی وہ بہیمانہ کردار ہے جو قدم قدم پر اچھوت رہنما باباامبیڈکر کے سامنے بے نقاب ہوتا رہا، اور ایک موقع پر آکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہندو برہمن ذہنیت کے ساتھ کسی صورت میں نباہ ممکن نہیں۔ پھر اُنہوں نے ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کے ساتھ ہندو مذہب ترک کردیا۔ بابا امبیڈکر کے یہ الفاظ تاریخ میں جگمگاتے رہیں گے: میرے ہاتھ میں یہ تو نہیں تھا کہ میں کس مذہب پر پیداہوں، مگر یہ ضرور ہے کہ میں کس مذہب پر مروں‘‘۔باباامبیڈکر نے بالاخر ہندو مذہب ترک کیا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی انسانی یامحرف الہامی نظم ہوگا جس میں ایک ساتھ ایک ہی دن امیتابھ بچن کی جانب سے منوسمرتی جلانے کی مخالفت اور توہین رسالت کیے جانے پر میکرون کی حمایت کی یکساں اور متضاد گنجائش نکلتی ہو۔ یہ کثافت، رکاکت اور خباثت صرف برہمن ذہنیت کے تہہ در تہہ تعصب میں ہی نظر آتی ہے اور کہیں نہیں۔ اسی لیے قائد اعظمؒ نے ہندؤں سے ملک الگ کیا اوربابا امبیڈکر نے مذہب الگ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر