وجود

... loading ...

وجود
وجود

مکمل

بدھ 28 فروری 2018 مکمل

پوری پاکستانی قوم کے لیے یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ آن پہنچا ہے کہ ملک کے چاروں طرف اغیار ، مکار ہندو، ٹرمپ اور اس کے بغل بچے اور حواری دیگر سبھی لاد ین ، سیکولر و کمیونسٹ ممالک و یہود و نصاریٰ سمیت سامراجی قوتیں اور ان کے گماشتوںنے مگرمچھوں کے زہریلے جبڑے کھولے ہمیں ہڑپ کرڈالنے کی ناپاک کوششیں تیز تر کرڈالی ہیں۔ پیرس میں منعقدہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں 37ممالک کی موجودگی کے اندر ہمارا ایک ہی وفادار دوست ترکی نکلا ، حتیٰ کہ ہمارا بازوئے شمشیر بنا چین اور اسلامی بھائی چارے کے دعوے دار سعودی عرب نے بھی آخری وقت میں ہمارا ساتھ نہ دیا۔

ایران اور شمالی کوریا کو انہوں نے بلیک لسٹ میں شامل کیا اور عراق شام اور یمن سمیت 9ممالک کو گرے لسٹ میں (یعنی ایسے ممالک جو کہ دہشت گرد تنظیموں کی امداد کو نہیں روکتے) شامل کر ڈالا۔امریکی یہودی اور ہندو لابی کے پریشر پر ہمیں گرے لسٹ میں ہی شامل کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی مگر اس کا باضابطہ اعلان جون میں کیا جائے گا۔ ہم پہلے بھی 2012ء تا2015ء تین سال تک گرے لسٹ میں شامل رہے ہیں مگر اس بار امریکا مودی موذی کی یاری میں ہمیں گرے لسٹ میں شامل کرڈالنا اس کی انا ء کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے امدادی بنے ہمارے 60ہزار افراد کی قربانیوں کی طر ف بھی قطعاً کوئی توجہ نہ دی گئی ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ کی لابئنگ بہت کمزور رہی اور ہوتی بھی کیسے نہ ! کہ کئی سال تک تو ہمارا ملک بغیر وزیر خارجہ کے ہی چلتا رہا ہے۔

9/11 کے واقعہ پر کمانڈو جنرل مشرف نے فوراً بغیر کسی ساتھی جنرل/ یا اسمبلیوں سے مشورہ کیے بغیر ہی امریکیوں کا اتحادی بن جانا گوارا کرلیا ۔ اس وقت تک کم از کم مغربی بارڈر پر موجود افغانی اور پورے فاٹا کے افراد ہماری دفاعی لائن تھے۔ مگر ہم نے اڈے /ائیر پورٹس دے کر اور ہمسایہ ملک افغانستان پر زہریلی گیسیں برسانے میں امداد دے کر افغانستان کے عوام کو خوامخواہ اپنا دشمن بنا لیا ، ان کے ابھی 44لاکھ افغانی ہماری دھرتی پر بطور مہمان موجود ہیں۔ کئی سالوں سے ہم ان کی خدمت کررہے ہیں مگر افغانیوں کے دلوں میں اب ہماری ساری ہمدردیاں بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ نکلی ہیں ۔اب تو ’’تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ کے مصداق ہمیں ملک کے اندرونی خلفشار ،بڑھتی ہوئی فرقہ واریت ، مسلکوں ، علاقائی ولسائی جھگڑوں پر مکمل قابو پانا ہوگا۔

بڑی سیاسی جماعتیں جو کہ ایک دوسرے پر الزامات کی بارشیں برسا رہی ہیں انہیں اس سارے عمل سے باز رہنا ہوگا کہ مکمل قومی اتحاد ہی وقت کا انتہائی ضروری تقاضا ہے۔ ہمارے تمام سابقہ وزرائے خارجہ بمعہ سیکرٹریوں پر مشتمل فوراً ایک کمیٹی بنا کر ان 37ممالک کی طرف روانہ کرنا ہوگی تاکہ ہم پر خوامخواہ دہشت گردوں کی امداد کا لگایا ہوا لیبل جلد اتر سکے ۔ اندرون و بیرون ملک موجود ملک دشمن عناصر اور راء وغیرہ کی پے رول پر افراد کی کڑی نگرانی کرنا ہوگی بلکہ خس پاک جہاں پاک کی طرح ان سے مکمل طور پر جان چھڑانا ہی اولین ترجیح ہونا چاہئے ۔ کٹھ ملائیت کے علمبرداران ودیگر علماء فقہا و مفتیان کرام سے بھی پوری قوم دست بستہ گزارش کرتی ہے کہ وہ کسی صورت مزید فرقہ وارانہ اور مسالک پر مبنی اختلافی تقاریر کرنے اور کتب ورسائل کی اشاعت بند کردیں کہ پورا ملک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ہی عالمِ کفر کا احسن طریقوں سے مقابلہ کرسکے گا۔

واضح رہے کہ ہم دنیا کا واحد اسلامی ایٹمی ملک ہیں اس لیے دیگر سبھی ادیان کے پیروکار وں کے نزدیک ہم ہمہ وقت ان کی آنکھوں میں کھٹکتے رہتے ہیں ۔ اور ان کا یہ مستقل پراپیگنڈہ ہے کہ ہم موجودہ اندرونی خلفشار کی وجہ سے اپنے ایٹمی اثاثوں کا غالباً تحفظ نہیں کرسکتے۔ اس لیے بقول ان کی اندرونی ذہنیت کے ایسے ایٹمی پاکستانی اثاثوں پر دنیا کے دیگرممالک یا اقوام متحدہ کی نگرانی ہونی چاہئے ۔اغیار کی یہ بات ہمارے منہ پر ایک طمانچہ کی حیثیت رکھتی ہے۔’’شرم ہم کو مگر نہیں آتی‘‘ کی طرح ہر صورت ہمیں اپنی صفوں میں انتشار ختم کرنا ہوگا ۔اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہوگا!کہ اغیار تو ہمیں کچا چبا کرکھا ڈالنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں ۔ ہم پہلے بھی اندرونی سیاسی خلفشار ، یحییٰ خاں کے ہر صورت صدر رہنے اور مغربی پاکستانی رہنما کے وزیر اعظم بن جانے کی خواہشات و لالچوں کی وجہ سے اپنا ایک قیمتی بازو(مشرقی پاکستان) تڑوا بیٹھے ہیں ۔ وقت کم اور کام بہت زیادہ ہے۔ نوجوان نسل کو لازماً فوجی تربیت دے کر پورے ملک کو “دفاعی فوج” بنا ڈالنا ہوگا تاکہ سرحدوں پر موجود بزدل ہندو بنیوں کو تو سرحدوں پر ہمہ وقت جاری جنگ و جدل کا موثر جواب دیا جاتا رہے۔

آمدہ انتخابات سے قبل سبھی متحارب سیاسی جماعتوں / گروہوں سے اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس سوموٹو کے ذریعے بلوا کر ایسے حلف نامہ پر دستخط کروائیں تاکہ وہ ذاتی الزام تراشیوں اور آپس کی گالم گلوچ سے باز رہ سکیں ۔ اگر یہ اسی طرح آپس میں چوہے بلیوں کی طرح لڑتے رہے تو پھر خدائی سنت کے مطابق مسلم ملت کے افراد ضرور اللہ اکبر اور یا نبی ؐ یا نبی ؐ کی صدائیں بلند کرتے لازماً نکلیں گے جوپولنگ اسٹیشنوںپر ان کو شکست فاش دے کر ملک میں مکمل اتحاد و اتفاق کا سماں پیدا کرڈالیں گے۔ہمیں ایسی تمام تنظیموں پر بھی مکمل پابندی لگا کر ان کے وسائل اور بینکوں کی رقوم کو منجمد کرنا ہوگا جن پر مختلف ممالک کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا شائبہ تک بھی کرتے ہیں ۔”خود کردہ را علاج نیست مگر پھر بھی ہمیں اپنی پیڑھی نیچے سوٹا پھیرنا ہوگا ” کہ کچھ افراد حکومتی اعلان کے بغیرہی نام نہاد جہاد پر تلے رہتے ہیں ۔علامہ اقبال ؒ کی خواہش پر مرحوم سید کی 17 سال کی عمر میں لکھی گئی کتاب ” الجہاد فی اَلاسلام “ہی نوجوان نسل کے نصاب تعلیم میں ڈال دی گئی ہوتی تو آج دہشتگردانہ سرگرمیوں اور اسلامی جہاد کا فرق واضح ہوچکا ہوتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر