وجود

... loading ...

وجود
وجود

انجام سوچ کرڈرلگتاہے

هفته 07 اکتوبر 2017 انجام سوچ کرڈرلگتاہے

میں نے اپنی بیٹیاں اسکول ،کالج نہیں بھیجیں مگراب جب الیکشن کاوقت آیاتومیں نے اپنی پردہ داربیٹیوں سے کہااب نکلوبیٹااب حضور ﷺ کی عزت کامسئلہ ہے ۔لوگوں کے گھروں میں جاؤاورووٹ مانگوحضور ﷺکی عزت کے لیے سب قربان ،مگرایک بات یادرہے خواتین ،خواتین سے بات کرینگی اورمردمردوں سے یہ بیان علامہ خادم حسین رضوی صاحب کاہے جوانہوں نے لاہورکے ضمنی انتخاب کے موقع پر ایک جلسے کے دوران دیا۔علامہ صاحب بڑے رتبے والے عالم ہیں ۔فارسی ،عربی پرعبورکے علاوہ اقبال کے کلام اور کئی صوفیانہ کلام ان کوحفظ ہیں ۔حضرت اس وقت تحریک لبیک یارسول اللہ کی قیادت کررہے ہیں ۔ یہ تحریک غازی ملک ممتازقادری کی شہادت کے بعداٹھنے والی لہرکے نتیجے میں پیداہوئی ہے ۔ این اے 120 ان کی جماعت کاپہلاالیکشن تھاجس میں ان کے نمائندے کو7ہزارسے زیادہ ووٹ ملے اوران کانمائندہ بیگم کلثوم نوازاوریاسمین راشدکے بعدتیسرے نمبرپرآیا۔ جوکہ بلاشبہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔کیونکہ علامہ صاحب میڈیاکوہمیشہ سخت الفاظ میں یاد کرتے ہیں ا س لیے میڈیا ایک بڑی تعدادنے ان کی جماعت کے ووٹوں کونظراندازکرتے ہوئے ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ نمائندے کو تیسرے نمبرپربتایا جوکہ بددیانتی ہے ۔
آج ہم اس موضوع پربات کریں گے کہ جمہوریت کے میدان میں قدم رکھتے ہی کسی مجاہد اورعالم کی زندگی کس طرح بدل جاتی ہے اس کے اصول قاعدے قوانین ضابطے ،اخلاقی ،روحانی معاملات کس طرح متاثرہوجاتے ہیں ۔ابتدامیں آپ نے جوحضرت کابیان پڑھاہے ۔یہ بیان سوچ کے کئی دروازے کھولنے والاہے ۔حضرت کیونکہ ایک باعمل عالم ہیں ۔ اس سے حضورنے ساری زندگی اپنی بیٹیوں کے پردے کوجدیدتعلیم پرترجیح دی جوکہ ایک قابل قدر،قابل تحسین اورلائق تقلیدبات ہے ،علماء اوربزرگان دین آج بھی الحمداللہ اسلام کواس کی روح کے مطابق زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔مگرجیسے ہی کوئی صاحب ایمان آدمی جمہوریت کے میدان میں قدم رکھتاہے اس کے ساتھ یہ جمہوریت کیاکھیل کھیلتی ہے ۔اس کااندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔
بش نے افغانستان پرحملے کے وقت کہاتھاکہ ہم افغانستان کے ایک ایک غارتک جمہوریت کی روشنی پہنچاکررہیں گے ۔یہ ایسی شمع ہے کہ جب جلتی ہے توپروانے چاہے وہ خانوادے ہوں ۔ یاباعمل عالم دین وہ آآکراس شمع پرقربان ہوتے ہیں ۔وہ نیک بچیاں جنہوں نے آج تک محرم کے بغیرباہرقدم نہ نکالاتھاحتی کہ انہوں نے جدیددورمیں سانس لے کراس دورکی تہذیب ،اقتداراورروایت کے مقابلے میں پردے کی حرمت قربان نہ ہونے دی ان بچیوں پریہ وقت آن پڑاکہ ان کوووٹ مانگنے کے لیے گھرگھرجاناپڑا۔یہ لمحہ فکریہ ہے یانہیں ؟اگرامریکاکی فوجیں آپ کے محلے میں آجائیں اوروہ کہیں کے ہم تمہاری عورتوں کوپردے میں محلے کاچکرلگوائیں گے تومجھے یقین ہے کہ کئی مذہبی لوگ جام شہادت نوش کرلیں گے مگراس عمل کواپنی زندگی میں ہونے نہیں دینگے ۔
لیکن امریکا کوئی احمقوں کاملک نہیں ہے اس نے آپ کوبدلنے کے لیے جمہوریت دی اور اسکول ،کالج کھول دیئے جہاں آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی اقتدارکاقتل کیا،اگرکوئی کہے کہ ہماری بچی توپردے میں کالج بلکہ یونیورسٹی تک گئی مگرالحمداللہ کبھی کوئی مسئلہ نہیں پیش آیا،یہ اپنے اندرہوتاہے کہ انسان کیساراستہ چنے ،توایسے اشخاص کوسوچناچاہے کہ اگرفرض کرلیں کوئی لڑکی پردہ میں یونیورسٹی سے باعزت باہرنکل آئی ہے تویہ دلیل تونہیں ہوسکتی کہ ہرلڑکی جوپردہ کرتی ہے یاپردہ قربان کرتی ہے وہ یونیورسٹی کالج میں اسلام کے اصول پرعمل کرتی ہوگی ؟فرض کریں کہ کسی لڑکی کوکالج یونیورسٹی میں کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔توکم ازکم اس پردہ دارلڑکی کایہ ایمان توبن گیاناکہ کالج یونیورسٹی میں پردے کے ساتھ پڑھاجاسکتاہے ؟اب اگلی نسل میں اس گھرکی لڑکیاں اسکول ،کالج، یونیورسٹی جائیں گی اورتب ان کے ساتھ کچھ ہوگیاتو؟اس کاذمہ داراس پردہ داربی بی کایہ نظریہ ہوگاکہ پردہ میں اسکول کالج پڑھاجاسکتاہے ؟۔تبدیلی رفتہ رفتہ آتی ہے ۔
یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی لڑکیاں اورلڑکے اخلاقی لحاظ سے کہاں تک کاسفرطے کرلیتے ہیں اس کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔یہ گفتگواسی صورت میں سمجھ آسکتی ہے جب آپ کودین کاعلم ہوحضور ﷺکی حدیث کے مطابق عورت اپنے محرم کے بغیرگھرسے باہرنہیں نکل سکتی ۔ اب ساری دنیاکی عورتیں باہرنکل آئیں ‘ کراچی سے انگلینڈکاسفرباحفاظت کرلیں پھربھی حدیث کی حرمت اوراس کے نتیجے میں پیداہونے والاحکم اٹل رہے گا۔دنیابدل چکی ہے تودنیاتباہی کی طرف جارہی ہے دنیاجنت نہیں بن گئی ہے ۔جدیدیت کے تباہ کن اثرات ان ماں باپ سے پوچھیں جن کی جوان بیٹیاں ان کے سامنے آکرکہتی ہیں کہ یہاں شادی کردو ،ورنہ میں خود کرلوں گی ؟اوررشتہ دارمشورہ دیتے ہیں کہ آپ کی بیٹی شریف ہے ورنہ نہ بتاتی توآپ کیاکرلیتے ؟کسی اگلے مضمون میں اس حوالے سچے واقعات آپ سے بانٹوں گا۔
آج ہم اس موضوع پرتھے کہ علامہ خادم رضوی صاحب جیسے جیدعالم نے جمہوریت کی پٹری پراپنی گاڑی ڈال کرظلم کیاہے ۔یہ بازارہے یہاں اقتدارکاقتل ہوتاہے ۔حضرت کوتویہ بھی علم نہ تھاکہ ان کی پارٹی کانام الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺنہیں تحریک لبیک پاکستان رجسٹرڈکیاگیاہے ۔لبیک یارسول اللہ ﷺ نام اندراج کروانے کی اجازت نہیں ملی ۔ تصورکریں لبیک یارسول اللہ ﷺ اورلبیک پاکستان میں کتنافرق ہے ؟ اسلامی پاکستان میں لبیک یارسول اللہ ﷺ نام کااندراج جائز نہیں ہے ۔ مگراس کے باوجودعلامہ صاحب کے رفقاء نے ان سے پوچھے بغیراور علامہ صاحب کے علم میں لائے بغیر اس کا نام تحریک لبیک پاکستان سے پارٹی کااندراج کروالیا۔ یہ سمجھوتے کے دورکاآغازہے جولڑکیاں آج الیکشن مہم میں کسی نامحرم سے بات نہیں کریں گی وہ اس نظام میں رہتے ہوئے انشاء اللہ ضرور نامحرم سے بات کریں گی بلکہ ہوسکتا ہے مزیدپچاس سال بعد وہ مرکزی شوری میں نامحرموں کے ساتھ بیٹھی ہوں ۔
آگے آگے کیاہوگا اگراس کا تصور کرناہے حضرت والا کو ، تووہ حسین احمدمدنی کے وارث مفتی محمودکی پارٹی جمعیت علماء اسلام کاآج حال دیکھ لیں ۔اورمولانامووودی کی پارٹی جماعت اسلامی سمجھوتے کرتے کرتے آج کہاں آگئی ہے وہ بھی دیکھ لیں وہ مولانامودودی جوعورت کے ووٹ ڈالنے اوراس کے الیکشن میں حصہ لینے کے خلاف تھے جنہوں نے ساری عمرپردے کی حرمت پرپہرہ دیا ،آج ان کی پارٹی سمجھوتہ کرتے کرتے کہاں نکل گئی ہے یہ بات کوئی رازنہیں ہے ۔جولوگ الیکشن کے ذریعے نظام بدلنے نکلے تھے سترسالوں میں اس نظام نے ان سے ان کے اکابرین کے اصول ،وراثت اورروایات تک چھین لی ہیں ۔اگلے سترسالوں بعد یہ جماعتیں کہاں ہونگی ،انجام سوچ کرڈرلگتاہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر