وجود

... loading ...

وجود
وجود

چینی کی بے چینی کیوں اور کیسے؟

هفته 12 اگست 2017 چینی کی بے چینی کیوں اور کیسے؟

چینی  کی بے چینی شیطان کی آنت کی طرح مسلسل پھیلتی جارہی ہے اور عوام کواب 65 روپے فی کلو سے بھی زائد قیمت پر مہیا ہے ۔سود خور نودولتیے صنعتکاروں نے شوگر ملوں میں لاکھوں ٹن چینی کا ا سٹاک کر لیا ہے چونکہ سارا صنعتی کاروبار سود پر لی گئی ادھار رقوم سے ہی چلتا ہے اور کارخانہ دار پرانی رقوم اور سود ادا نہ کرنے کی وجہ سے مزید سود در سود یعنی سود مرکب پر رقوم حاصل کرتے ہیں جس کی شرح انتہائی زیادہو تی ہے اور اس کی وجہ سے بینکر گھر بیٹھے کروڑوں کماتے ہیں ،اسی کو سرمایہ کا سرکل (Capital Circle)کہا جاتا ہے اس لیے کارخانوں میںبننے والی اشیاء چینی وغیرہ انتہائی مہنگے داموں پر بکتی ہیں، یہی حالت دیگر سبھی کارخانوں میں بھی جاری رہتی ہے آپ جب تک دنیا کے غلیظ ترین اور غیر اسلامی سودی نظام کو جاری رکھیں گے عوام الناس کومل پراڈکٹس مہنگے داموں ہی پہنچ سکے گیں اور دن رات مہنگائی سانپ کی لکیر کی طرح بڑھتی ہی رہے گی کہ صنعتوں کے مالک ڈھیروں منافع کمانے والے سرمایہ داروں کی طرف سے رائی برابر بھی رعایت کسی صورت ہی ممکن نہیں ہوتی سبھی صنعتکاروں کا آپس میں ایکا ہوتا ہے کوئی دوسرا مل والا ریٹ کم کر ہی نہیں سکتا بلکہ میل ملاپ کے ذریعے جو بھی ریٹ چاہیں اس کا ہی اعلان ہوتا ہے ان کی نام نہاد یونین بھی ہوتی ہے تاکہ عوام کو لوٹنے کے غلیظ ترین عمل میں سبھی ایک دوسرے کا بازو تھام کر رکھیں چینی کی قیمتوں میں بڑھوتری اور اس کے مارکیٹ میں سے غائب کر ڈالنے میں حکومت کا برابر کا حصہ ہوتا ہے امسال کی طرح پہلے چینی کی بہتات دکھا کرہزاروں لاکھوں ٹن چینی برآمد کردی جاتی ہے اور یہ عمل بھی حکومت سے سبسڈی لے کر کیا جاتا ہے یعنی” چوپڑی ہوئی اور وہ بھی دو دو”کے مصداق یہ سارا برآمدی عمل مکمل ہوتا ہے ایسے کاروباروں میں وزارت تجارت،دیگر حکومتی کارپردازوں،بنکرز کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں متعلقہ شوگر مل مالکان کے ساتھ مل کر اربوں روپوں کا خزانوں کو نقصان پہنچا ڈالنا صرف ان کے ایک قلم (پین) کے ا سٹروک کا ہی کمال ہوتا ہے پھر چینی کی کمی کا رونا ہوتے ہوئے اور چینی کی روزانہ مقرر کردہ قیمتوں پر نہ بیچنے کے لیے مل مالکان اس کا اسٹاک کر لیتے ہیںاور ملک میں عارضی طور پر چینی کا قحط محسوس ہونے لگتا ہے ملوں سے چینی نکلے گی ہی نہیں تو آگے دوکانداروں کے پاس کہاں سے آئے گی یہ دنیا کا غلیظ ترین حربہ غالباً پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں رائج نہ ہے کہ لاکھوں ٹنوں کے حساب سے چینی ملوں میں ا سٹاک شدہ موجود ہوتی ہے مگر عوم تک نہیں پہنچ پاتی اس لیے ریٹ میں کئی روپوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور کمر ٹوٹتی ہے تو صارفین کی کہ وہ مقدس گائے کی طرح سر جھکائے سب کچھ ظالمانہ طور طریقے پر برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں ان حالات پر ہی حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا نے فرمایا کہ جو بھوکوں مرتے ہیں وہ غلہ گوداموں پر پل کیوں نہیں پڑتے ؟
کیا حکمران ا سٹاک کردہ چینی کے انباروں کوملوں سے باہر نکلوا کر مارکیٹ میں لاسکتے ہیں ہر گز نہیں کیونکہ اس اقدام میں تو اُن کابرابر کا حصہ ہوتا ہے یعنی چور اور کُتی ملے ہوئے ہوتے ہیںتبھی چوری کرنے میں آسانی ہوتی ہے، پولیس کو بھی حصہ بقدر جثہ ملتا رہتا ہے۔ وہ بھی صابن کے جھاگ کی طر ح خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، کوئی پوچھے تو جواب دیتے ہیں کہ ہمارا اس معاملہ میں کیا لینا دینا ہے۔ یہ تو اوپر والی سطح کی ہی پالیسی ہے پورے ملک کی شوگر ملوں کے سبھی مالکان ہی حکمران طبقات سے تعلق رکھتے ہیں سندھ کی تمام ملیں زرداری نے زبردستی اور دھونس سے مالکان سے اونے وپنے داموں خرید رکھی ہیں اور اب وہ گنے کے مالکان کسانوں سے زبردستی کرتے ہیں کئی کئی سال تک کسان شوگر ملوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں مگر پیسے نہ ملنے ہوتے ہیں اور نہ ہی ملتے ہیں اس لیے ملک بھر میں اور سندھ میں تو بالخصوص سخت غنڈہ راج قائم ہے۔پنجاب کی زیادہ ملیں شریفوں اور گجراتی چوہدریوں کی ہیں جن کے نزدیک بھی غریب گنا بیچنے والے کسان پھٹک بھی نہیں سکتے اب چینی کی کمی قرار دیکر دوبارہ باہر سے چینی درآمد کی جائے گی مل مالکا ن پھر حکومت سے سبسڈی لیں گے اور اس طرح بہر حال مہنگے داموں ہی سہی چینی عوام تک پہنچتی رہے گی سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی حکمرانیوں میں عوام سخت استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ہر چیز کے داموں کا تعین کرنا ان ظالم طبقات کی صوابدید پر ہی ہوتا ہے اس طرح وہ اربوں کماتے ہیں یہ رقوم مفلوک الحال عوام کی ہی جیب سے نکلتی ہیں۔در اصل اس کا صرف اور صرف حل یہی ہے کہ تمام شوگر ملوں کا انتظام ظالم سود خور صنعتکاروں سے واپس لے کر انہی کی ملوں کی منتخب مزدور یونینز کے حوالے کیا جائے مالکان کو اس میں سے وافر منافع ملے اور مزدوروں کو بھی منافع میں حصہ دار بنایا جائے اس طرح مزدور زیادہ محنت کریں گے کسان بھی خوشحال ہوگا کہ اسے بروقت گنے کی رقوم ملیںگی اور پھر چینی کی قیمت بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر