وجود

... loading ...

وجود
وجود

پہلا قطرہ

اتوار 30 جولائی 2017 پہلا قطرہ

ایک طویل قانونی جدوجہد کے بعد ملک سے کرپشن کے خاتمہ کی امید پیدا ہوئی ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوسیوں کی اتھا ہ گہرائیوں میں گھری ہوئی قوم کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے اگرچہ اس میں چند افراد کو نااہل قرار دیا گیا ہے لیکن یہ چند افراد نہیں اپنی اپنی حیثیت میں ایک انجمن کا درجہ رکھتے تھے کسی کو بھی امید نہیں تھی بلکہ نوازلیگ اور اس کے اتحادی یہ تاثر دے رہے تھے کہ عمران خان اور سراج الحق کی پٹیشن پر کیا ہونا ہے خصوصاً پیپلزپارٹی نے اس جدوجہد کو کارلاحاصل اور طویل قانونی عمل کے ذریعہ نوازشریف کو 2018 ہی نہیں 2023 میں بھی کامیابی کا راستہ دینے کی کوشش قرار دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کے مطابق یہ جماعت اسلامی اور عمران خان کی پٹیشن نہیں یہودوں نصاری کی سازش ہے اور جب سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اپنا پہلا فیصلہ سنایا تھا جس میں شیخ رشید کے مطابق پپو دو پرچوں میں فیل اور تین میں سپلیمینٹری لایا تھا اور خواجہ سعد رفیق ،خواجہ آصف سمیت تمام وزراء نے خوشی کے شادیانے بجائے تھے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل ان کی کامیابی ہے ان کا گمان تھا کہ سکہ رائج الوقت میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور جب لوٹ کا مال بے حساب جمع ہو تو اس کو خرچ کرنے اور اس کے ذریعہ گردن چھڑانے میں کیا نقصان ہے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ ،پلے سے کچھ گیا نہیں اور نانا جی کو ثواب بھی مل گیا لیکن دنیا میں ناتو ہر شخص بکاؤ مال ہے نا بے ضمیر ،جے آئی ٹی کے ان ممبران کو پہلے خریدنے پھر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بولی ناکام رہی اور ہر دھمکی نے ان کا حوصلہ مزید مضبوط کیا کرپشن کے خاتمہ کا عزم مزید مستحکم ہوا یوں اس چھ رکنی جے آئی ٹی نے وہ کام کر دکھایا جو کسی نے سوچا بھی نہ تھا جن ثبوتوں سے نوازشریف ،اسحاق ڈار،مریم صفدر ،چھوٹے اور بڑے گونگلو اور فوجی زبان میں ڈفر کیپٹن (ر) صفدر تو آگاہ تھے لیکن انہوں نے خواب وخیال میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اس بابت کوئی اور بھی آگاہی حاصل کر سکتا ہے ان سب کا خیال تھا کہ قطری شہزادے کا خط ان کی نجات کا پروانہ ہے سپریم کورٹ اس خط کو محبوبہ کا پریم پتر سمجھ کر پہلے سینے سے لگائے گی پھر اس کی نقلیںکرا کر ہر جج اپنے گلے کا تعویز اور بازو پر امام ضامن کے طور پر باندھے گا کہ یہ قطری شہزادے کا خط ہے جو اگرچہ انگریزی زبان میں ہے لیکن لکھانے والا تو عربی دان ہے اور عربی بہت مقدس زبان ہے اس کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی کس کی مجال ہو سکتی ہے لیکن یہ خط تو ٹوائلٹ پیپر سے بھی کم تر ثابت ہوا ججوں نے اس کو ٹشو پیپر کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا ۔
جب پت جھڑ کا موسم آتا ہے تو درختوں سے پتے گرنے لگتے ہیں نادان سمجھتے ہیں کہ یہ خزاں کا موسم ہی اب ہمیشہ برقرار رہے گا درخت یوں ہی ٹنڈ منڈ کھڑے رہے گے لیکن دراصل یہ بہار کے آغاز کا اعلان ہوتا ہے کہ اب پرانے پتے اپنی عمر پوری کر چکے یہ گریں گے تو نئے پتے آئیںگے درخت مزید سرسبزاورشاداب ہونگے پھول کھلیں گے اور فضائیں خوشبووں سے مہک اُٹھیں گی ۔
جے آئی ٹی بنی تو پیپلزپارٹی ہو یا فضل الرحمن سب ہی توپوں کے دھانے عمران خان اور سراج الحق کی جانب تھے کہ انہوں نے سپریم کورٹ جا کر غلط فیصلہ کیا ہے پیپلزپارٹی میں تو بیرسٹر اعتزاز احسن سمیت بڑے قابل اور نامور قانون دان موجود ہیں جنہیں آیات ربانی تو یاد ہویا نہ ہو لیکن آئین اور قانون کی ایک ایک شق ازبر ہے لیکن ہرپارٹی کا ایک المیہ ہے کہ اس کا لیڈر اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے اور جو اس کی بولی بولے وہی اس کے نزدیک پارٹی کا سچا وفادار ہوتا ہے کہ ان لیڈروں میں ایک ہی صفت پائی جاتی ہے کہ ان سے وفاداری اور ان کی چاپلوسی ہی پارٹی سے وفاداری کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اس میدان میں سید خورشید شاہ نے تو ساری حدیں عبور کر لی تھیں اور پٹیشن دائر ہونے کے ساتھ ہی سراج الحق اور عمران خان کے بابت وہ وہ باتیں کہیں تھیں کہ جن کو ضبط تحریر میں لانا ایک امتحان کا درجہ رکھتا ہے لیکن جب دو ججز نے نوازشریف کو بدیانت اور نااہل قرار دیا اور تین ججز نے مزید تحقیق وتفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو بھی خورشید شاہ اپنے موقف پر سختی سے کھڑے ہوئے تھے کہ عمران خان اور سراج الحق نے نوازشریف کو کلین چٹ دلانے کا اہتمام کر دیا ہے لیکن جب ہواؤں کا رخ بدلا اور جے آئی ٹی نے ایسے زایوں سے تحقیق وتفتیش کی اور وہ وہ ثبوت اکھٹے کئے کہ جن کو جھٹلانا کسی کے بس میں نہ تھا تو یہ خورشید شاہ ہی تھے جو کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ بول رہے تھے اس وقت ناتو مفاہمت کی سیاست موجود تھی نا میثاق جمہوریت کا انہیں کوئی پاس تھا کہ جس میں طے تھا کہ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کرینگے اب حالات بدل چکے تھے اور سپریم کورٹ کے ججز کے تبصروں نے واضح کر دیا تھا کہ نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا کہ شام گیا والا معاملہ ہے تو فتح کا سہرا اپنے سر سجانے میں کیا مضائقہ ہے لیکن وہ بھول گئے ہیں کہ یہ تو بارش کا پہلا قطرہ ہے ابھی تک کرپشن کے خلاف موسلادھار بارش ہونی ہے اور ہر کرپٹ سیاستدان اور فرد نے اس میں بہہ جاناہے میراسید خورشید شاہ کو مشورہ ہے کہ وہ اگست1980 کے روزنامہ عبرت حیدرآباد کی فائل کا مطالعہ کر لیں ان پر بہت کچھ واضح ہو جائے گا کہ کرپشن میں صرف نوازشریف ملوث نہیں بلکہ لاڑکانہ اور نواب شاہ بھی اس بہتی گنگا میں کسی سے کم نہیں میں مختصراً یہاں بتاتا چلوں کہ اس دورانیہ میں نواب شاہ کی چند دکانوں کے مالک کے نادہندہ ہونے پر ان دکانوں کی بینکنگ کورٹ سے نیلام کا اشتہار چھپا تھا ان دکانوں کا مالک کو ن تھا یہ جاننا شاید خورشید شاہ کے لیے تکلیف ہی نہیں شرمندگی کا باعث بھی ہویوں بھی قوم کا حافظہ کمزور نہیں 2010 میں آنے والے سیلاب کا رخ کس کی زمینوں کو محفوظ کرنے اور کس کے گوداموں کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے موڑا گیا تھا ورنہ ماضی میں کبھی بھی شکارپور سیلاب میں نہیں ڈوبا تھا ۔
یوں تو پیپلزپارٹی میں قانونی ذہنوں کی کمی نہیں لیکن جب اپنے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہو تو قانونی موشگافیاں کرنا ضروری ہو جاتا ہے سراج الحق نے آئین کے آرٹیکل 183 کے تحت جو پٹیشن داخل کی تھی یوں انہوں نے بھی ایک طرح کا خطرہ مول لیا تھا کہ اس آرٹیکل کے تحت داخل پٹیشن کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست آسان نہیں ہوتی اگر فیصلہ نواز کے بجائے سراج الحق کے خلاف آ جاتا تو ناصرف سراج الحق کی سیاست کا سورج غروب ہوجاتا بلکہ جماعت اسلامی کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا یہ سراج الحق اور جماعت اسلامی ہی ہیں جو تقریباً دو دھائی سے کرپشن کے خلاف برسرپیکار ہیں 1993-96 کی بے نظیر حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک بھی کرپشن کے خاتمہ کی تحریک تھی اسی تحریک کے نتیجہ میں بے نظیر کی حکومت انکل فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرف ہوئی فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کی برطرفی کے لیے جو جواز پیش کئے تھے ان میں کرپشن بھی ایک جواز تھا اسی طرح 1990 میں غلام اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کرتے وقت جو چارج شیٹ جاری کی تھی اس میں سرفہرست الزام کرپشن تھا اس دور میں آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا تھا اور یہ لقب کسی پاکستانی نے نہیں ابلاغ عامہ کی د نیا کے ایک معتبر ادارے نے دیا تھا لیکن بے نظیر بھٹو نے نا تو 1990 میں اور نا ہی 1996 میں اپنی حکومت کی برطرفی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا گویا انہوں نے چارج شیٹ میں عائد الزامات کو قبول کر لیا تھا اور اس کے بعد 1997 کے انتخابات میں شکست کے ساتھ ہی بے نظیر بھٹو نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی تھی جو اکتوبر2007 میں ختم ہوئی تھی اور پھر 27 دسمبر2007 کے سانحہ میں بے نظیر کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا ۔
بات کسی اور طرف چلی گئی لیکن رہی کرپشن کے دائرہ میں ہی اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے بھونپو کی آواز تو بہت دھیمی دھیمی تھی لیکن درویش صفت مفتی محمود کے فرزند جو مفتی محمود کی درویشی کا ضد ہے ان کا ردعمل پہلے بھی لطیفوں سے کم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کرپشن کے اس معاملہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ڈھونڈ لاتے تھے اور اب فیصلے کے بعد بھی ان کا ردعمل ویسا ہی ہے کہ یہ فیصلہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے جس سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو سکتی ہیں گویا کرپشن ملک کی ترقی کی ضمانت ہے ان کے خیال میں اس فیصلے سے سی پیک بھی متاثر ہو گا لیکن شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ سی پیک کے بابت ابتدائی بات چیت ضیاء الحق کے دور میںشروع ہوئی تھی پھر تقریباً 16 سال بعد مشرف کے دور میں اس کا بلیو پرنٹ تیار ہوا آصف علی زرداری نے منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا اور نواز شریف نے حسب روایت نامکمل منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے نام کی تختی آویزاں کر ادی سی پیک حکمرانوں نہیں حکومتوں کے درمیان ہونے والا ایک معاہدہ ہے حکمران تبدیل ہوتے رہے لیکن یہ معاہدہ قابل عمل ہے اور قابل ہی عمل رہے گا بلکہ کرپشن کے خاتمے سے ملک اور قوم اس منصوبے سے زیادہ بہتر انداز میں فیض یاب ہو سکے گی لیکن اس فیض میں شاید زرداروں اور فضل الرحمان کا کوئی حصہ نا ہو اگرپاکستان کرپشن فری ہو جاتا ہے تو نہ صرف 7 سے 10 سال کے عرصہ میں واجب قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کر لے گا بلکہ آئندہ مزید تین چار سال بعد قرضہ لینے نہیں دینے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائے گا ۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی حوالوں سے تاریخی اور یادگار ہے نظریہ ضرورت کو دفن کیا گیا ہے اور حکمران وقت کو قانون کے دائرہ میں لا کر نا صرف حق حکومت سے محروم کیا ہے بلکہ تاحیات نااہل قرار دے کر نشان عبرت بھی بنایا ہے مزید یہ کہ عدالت نے اس فیصلے کو قانون کی کتابوں میں شائع کرنے کی اجازت دے کر ایک ایسی نظیر قائم کر دی ہے کہ جو مستقبل میں کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کارروائی کے لیے بنیادی اساس ثابت ہو گی ۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر