وجود

... loading ...

وجود
وجود

عبد المجید خان اچکزئی تعصبات کی زد میں

اتوار 02 جولائی 2017 عبد المجید خان اچکزئی تعصبات کی زد میں

بلوچستان اسمبلی کے رُکن عبدالمجید خان اچکزئی اِن دنوں انتہا پسندانہ اور متعصبانہ رویوں کی زد میں ہیں ۔د ر اصل ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی ہر سطح پر سرایت کر چکی ہے ۔اور اس رُحجان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔معاملات کو اُس کے اصل تناظر میں دیکھنے کے بجائے نفرت اور تعصب کی عینک سے دیکھا جا تا ہے ۔ اورغُلُوسے کام لیا جا تا ہے ۔
عبدالمجید خان اچکزئی ایک بڑے سیاسی گھرانے کا فرد ہے اورپشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہے ۔ اپنے حلقے کے عوام کے ووٹوں سے اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ عوام کا نمائندہ ہے۔ اسمبلی نے اُنہیں قائمہ کمیٹی برائے پبلک اکائونٹس کی چیئرمین شپ دی ہے ۔اِن سے اور ِان کی جماعت سے اختلاف رائے کسی کو بھی ہو سکتا ہے ،مجھے بھی اختلاف ہے ۔بلکہ میرے اور اِس جماعت کی فکر و نظریات میںبعد المشرقین ہے ۔پشتونخوا میپ کے کچھ رہنمائوں سے جان پہچان اور علیک سلیک قائم ہے، بہت ساروں سے نہیں ہے ۔عبدالمجید اچکزئی سے بالمشافہ ملاقات تو چھوڑیئے کبھی فون پر بھی بات نہیں ہوئی ہے ۔گویا میں ان کیلئے ایک اجنبی ہوں۔رہا معاملہ بیس جون کے کار حادثے کا ،جس میں ٹریفک سارجنٹ حاجی عطاء اللہ جاں بحق ہو گئے تھے۔ تو سچ یہ ہے کہ عبدالمجید خان اچکزئی کی غفلت اور غیر محتاط ڈرائیونگ کے سبب ایک قیمتی انسانی جان کا ضیاع ہوا۔ لہذا یہ سراسر ایک روڈ حادثہ ہے اور حادثات غفلت اور غیر محتاط ڈرائیورنگ کے سبب ہی پیش آتے ہیں۔چنانچہ اس معاملے کو فقط ایک حادثے کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ مگر بد قسمتی سے ایسا ہوا نہیں۔بلکہ اس حادثے کو بنیاد بنا کر ، نفرتوں،تعصبات اور غُلوکی انتہائوں کو چُھوا گیا۔ مجید اچکزئی کو ایک قاتل کے طور پر پیش کیا گیا کہ جیسے اُنہوں نے دیدہ و دانستہ طور پر ٹریفک سارجنٹ کو گاڑی کی ٹکر ماری ہو۔تعصبات کا ایک منظم اظہار مختلف حلقوں کی جانب سے ہونے لگا۔ کسی نے سیاسی تو کسی نے نسلی و لسانی تعصبات کو اُبھارنے کی کوشش کی۔
مجید اچکزئی کو اس موقع پر حکمت و دانائی سے کام لیتے ہوئے پہلے ہی دن پولیس تھانہ چلے جانا چاہئے تھا، تاکہ افواہوں ، بہتان طرازیوں اور طرح طرح کی باتوں کا در بند ہو تا۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ عبدالمجید اچکزئی نے خود کو ایک لمحہ کے لیے بھی بر ی الزمہ قرار نہیں دیا ،نہ فرار اور ناہی چھپنے کی کوشش کی ۔اگلے روز اسمبلی اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔وہ برابر کہتا رہا کہ وہ اس حادثے کے ذمہ دار ہیں اور یہ کہ وہ خود کو قبائلی رسم و رواج، شرعی اور مروجہ ملکی قانون کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔افسوس کے اس دوران تخریبی سوچ کا حامل ذہن سر گرم ہو گیا۔مرحوم کے بچوں کی ویڈیو جاری کی گئی۔ حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اسلام آباد سے چلوائی گئی ۔چوبیس جون کی درمیانی رات گرفتاری کے لیے پولیس مجید اچکزئی کے گھر میں داخل ہوئی۔ کمروں کے اندر ایک پولیس اہلکار کو موبائل فون سے ویڈیو بنانے پر مامور کیا گیا تھا ۔ جونہی عبدالمجید اچکزئی کمرے سے نکالے گئے تو ایک اہلکار نے مامور اہلکار کوآنکھوں سے ویڈیو بنانے کا اشارہ کیا۔اس طرح ایک قبائلی و سیاسی شخصیت اور ایک پارلیمنٹرین کی چار دیواری کے احترام کی پامالی کی گئی۔کیا پولیس کا یہ طرز عمل روا قرار دیا جا سکتا ہے ؟یقینا اس سراسر توہین اور ہتک کے خلاف عبدالمجید اچکزئی قانونی چارہ جوئی کا حق ر کھتے ہیں ۔
ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ گمراہ کن اور مکروہ تاثر چھوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ عبدالمجید خان اچکزئی کا خاندان زبردستی راضی نامے کی کوشش کر رہا ہے ۔نیز ایسا ماحول بنانے کی سعی ہو رہی ہے کہ مرحوم ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ کے اہل خانہ بھی غیر محفوظ ہیں۔یوں خاندان کے افراد نے حکومت سے سیکورٹی طلب کر لی۔حقیقت میں اس نوعیت کی جسارت اول روز ہوئی ہی نہیں ۔ہاں ٹریفک سارجنٹ کے لواحقین و پسماندگان سے عفو و درگزر کی درخواست ضرور کی گئی ہے ،جو اِن کا شرعی اور قانونی حق ہے ۔در اصل اس معاملے کو اُلجھانے اور ابہامات پولیس کی جانب سے پیدا کیے گئے ہیں۔پولیس نے پہلے پرچہ نا معلوم شخص کے خلاف کاٹا ، بعد ازاں عبدالمجید اچکزئی کا نام شامل کیا گیا ۔اگر کوئی کہتا ہے کہ پولیس پر دبائو ڈالا گیا تو اولاً پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے وضاحت کرے کہ کن کی جانب سے اُنہیں قانونی چارہ جوئی سے روکا گیا ۔دوئم کیا پولیس کا محکمہ اتنا کمزور،تحت الاثر اور بے وقعت ہو چکا ہے کہ وہ اپنے ہی ایک پولیس آفیسر کے کار حادثہ میں وفات کا مقدمہ درج نہ کر سکی ۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عبدالمجید خان اچکزئی نے پولیس کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی ۔حیف کہ پولیس نے مجید اچکزئی کی نیم شب میں گرفتار ی کو عمل میں لا کر اُنہیں ایک عادی مجرم اور مفرور کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔مزید تجاوز یہ کیا کہ اُن پراقدام قتل اور انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کر دیے ۔گویا پولیس اور نادیدہ ذہن نے ایک حادثہ کو قتل’’ عمد‘‘ کے طور پر پیش کیا ۔میرے خیال سے پولیس نے نہ صرف عبدالمجید اچکزئی بلکہ بلوچستان اسمبلی کاوقار و استحقاق بھی مجروح کیا ہے ۔عبدالمجید اچکزئی کا ذرائع ابلاغ کوئٹہ کے نمائندوں سے رویہ قابل مذمت ہے۔ مگر میڈیا کے دوستوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اس صوبے کی روایات اور دستور کا لحاظ رکھیں۔ پیش ازیں میر خالد لانگو اور میر مقبول لہڑی بھی ہمارے اس طرز عمل پر خفگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ہمارے دوستوں کی غیر ذمہ داری و غیر سنجیدگی قابل افسوس ہے ۔
چند سال قبل جب صوبے میں نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کا مرحلہ طے ہو رہا تھا تو نواب اسلم رئیسانی اور نواب ثناء اللہ زہری نے اس موقع پر پریس کانفرنس کے بعد نجی گفتگو شروع کی ، وہاں موجود میڈیا کے نمائند وں کو بھی شریک گفتگو کر لیا۔ میڈیا سے ریکارڈنگ نہ کرنے کا کہا گیا۔ ہنسی مذاق کا ماحول بن گیا تھا ۔ نواب زہری نے ایک قصہ سنایا ۔ افسوس کہ ہمارے دوستوں نے نہ صرف ریکارڈنگ کی بلکہ وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی پھیلا دی ۔وہ ویڈیو کلپ حسبِ موقع آج تک نواب ثناء اللہ زہری کی کردار کشی کے طور پر استعمال ہو رہا ہے ۔غرض عبدالمجید خان اچکزئی کافیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ چنا نچہ اب مزید توہین وکردار کشی کا سلسلہ رُک جانا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کہتا ہے کہ ’’جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو ۔‘‘ (سورۃ الحج)صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرتا ہے ۔مرحوم حاجی عطاء اللہ کے لواحقین کو بھی چاہئے کہ وہ کسی کی باتوں اور بہکاوے میں نہ آئیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر