وجود

... loading ...

وجود
وجود

عبرت ناک انجام کے لیے تیار رہیں

منگل 18 اپریل 2017 عبرت ناک انجام کے لیے تیار رہیں

ہم اپنے ملک میں ہرکام کرنے سے پہلے اس کی مثال ان ممالک سے لیتے ہیں جہاں ترقی ہوچکی ہے۔ہمارے ملک میں تعلیم ،صحت ،ٹرانسپورٹ سے لے کرہربڑے منصوبے میں امریکا کایاچین کاہاتھ ہوتاہے۔ہم دنیابھرمیں کشکول اٹھاکربھیک مانگتے ہیں اوراس بھیک سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں ۔ بھیک سب مانگتے ہیں ،جنہوں نے آج تک حکومت کرلی وہ بھی بھیک کے بغیرنہیں چل سکے اور جو کل آکرپاکستان بدلنے کادعویٰ کرتے ہیں وہ بھی بھیک کے بغیرترقی نہیں کرسکیں گے، یہ ایک آفاقی حقیقت ہے۔ دنیاکاہرترقی یافتہ ملک مقروض ہے، دنیاکے ملکوں کوچھوڑیں ، اپنے گریبان میں منہ ڈالتے ہیں ۔ہروہ آدمی جوترقی کرناچاہتاہے ،وہ مقروض ہوجاتاہے جس دن کسی انسان نے اپنا معیار زندگی بلندکرنے کافیصلہ کیااسی روزوہ مقروض ہوجائے گا۔ اسلام نے قرض دینے کی حوصلہ افزائی کی ہے لیکن قرض نہ واپس کرنے والے کو جنت سے محروم ہونے کاخطرہ بتایا ہے۔ اسلامی معاشرے میں کوئی فردقرض اس وقت لیتا تھاجب قرض لیے بغیرزندگی گزارناممکن نہیں رہتا اور حدیث شریف میں آتاہے جس کامفہوم ہے کہ قرض معاف کردینااجرعظیم ہے ۔مگرقرض واپس نہ کرنابھی بہت بری بات سمجھاجاتا ہے اور شہید کو بھی قرض میں کوئی رعایت نہیں دی گئی۔ اگرشہیدبھی قرض واپس نہ کرے گاتواس کوقرض واپس کرنے کے لیے اپنی نیکیاں دیناہوں گی۔یہ ایک سچ ہے کہ آج ترقی بھیک اورقرض کے بغیرممکن نہیں ہے۔ ہم ہرچیزمیں امریکا اورچین کی نقل کرتے ہیں ۔ دونوں ترقی یافتہ ملک ہیں ۔ دونوں بہت بڑی فوج کے حامل ملک ہیں ۔دونوں مقروض ہیں ،ٹرمپ کواپنے امریکی سرمایہ داروں پرایک غصہ یہ بھی ہے کہ وہ اپناپیسہ چین جاکرلگاتے ہیں ۔وہ امریکی ہوکرچین کومضبوط کیوں کرتے ہیں ؟اس نے سرمایہ داروں پراس حوالے سے مختلف پابندیاں لگانے کافیصلہ کیاتواسے سرمایہ داروں نے دھمکی دی کہ اگرٹرمپ نے سرمایہ داروں پرٹیکس عائد کیا تو سرمایہ دارامریکی شہریت سے دستبردارہوجائیں گے۔ ٹرمپ کاکہناہے کہ امریکی سرمائے کی وجہ سے چین کی معیشت مضبوط ہورہی ہے چین کے لوگوں کوامریکی سرمائے کی وجہ سے نوکریاں اور روزگار میسرآتاہے ۔جبکہ امریکی سرمایہ داروں کے اپنے ہم وطن مالی ابتری کاشکار رہتے ہیں ۔ اس لیے امریکی سرمایہ داروں کواپناسرمایہ امریکا میں خرچ کرناچاہے تاکہ امریکی لوگوں کو روزگار ملے۔ مگر سرمایہ داربھی اس کے جواب میں کمال کی دلیل رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم کاروبار سرمائے کو بڑھانے کے لیے کرتے ہیں ۔ اور ہمیں چین میں امریکی مزدورسے سستا مزدورملتاہے ۔اس لیے ہم چین میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ کسی بھی چیزپرکم لاگت آئے اوراس کی فروخت سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ میسرآسکے۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ پاکستانی صنعت کاروں نے بنگلا دیش میں جاکرسرمایہ کاری کی ہوئی ہے ۔سرمایہ دارکاکوئی ملک نہیں ہوتا۔فرانس نے اپنے سرمایہ داروں پر بھاری ٹیکس عاید کیے تو ایک ہی ساتھ 5 ہزار سرمایہ داروں نے فرانس کی شہریت کو چھوڑ دیا ان سرمایہ داروں میں سے ایک کوروس نے یہ پیشکش کی کہ اگروہ روس کی شہریت اختیارکرلے تو روس اسے اپنا وزیر سیاحت بنادے گا۔سرمایہ دار کا کوئی ملک ،کوئی مذہب نہیں ہوتا،یہ بات آج بھی ہمارے ہاں سمجھ نہیں آسکی۔لوگ سمجھتے ہیں کہ امیر لوگ کم قرض لیتے ہیں ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قرض دارامیرہوتے ہیں کیونکہ ان کواپنامعیارزندگی برقراررکھنے کے لیے ہروقت محنت کرناپڑتی ہے۔ اور اس کے لیے انہیں مسلسل سرمائے کو بڑھاتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلسل سرمایہ بڑھے اس کے لیے مزیدسرمائے کی ضرورت پیش آتی ہے جس کے لیے بینک قرض دیتے ہیں ۔جتنی ترقی ہوتی جاتی ہے اتنا امیر آدمی اپنے غریب رشتہ داروں کی مددکرنے سے معذور ہوتا جاتا ہے۔ اوراس کے پاس بڑی مضبوط دلیل ہوتی ہے کہ پیسے تو ہیں مگر اپنی ضرورت کے لیے ہیں ۔ اور معیار زندگی میں کمی امیرآدمی کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔یہی حال کسی بھی ملک کاہوتاہے ،ہرقومی ریاست کے لیے سب سے پہلے قومی مفاد ہوتا ہے۔ اورقومی مفاد بدلتا رہتا ہے، کبھی افغانی مسلمان بھائی ہوتے ہیں مگر قومی مفاد بدلتے ہی وہ بوجھ بن جاتے ہیں ۔ایسااس لیے ہوتا ہے کیونکہ قومی مفاد نام ہی صرف ترقی کرنے کا ہے۔ اورمسلسل ترقی کرنے کا ،جوملک جتنی ترقی کرتاہے اس کی عوام پرزندگی گزارنے کے طریقے اتنے پیچیدہ اورمشکل بنادیے جاتے ہیں ۔امریکا میں مفت کچھ نہیں ملتاجولوگ امریکا میں علاج معالجے کی سہولیات کے گن گاتے ہیں وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ یہ علاج انشورنس کروانے کے بعد میسرآتاہے۔ اور انشورنس اسلام میں حرام ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ انشورنس توآج کل عام ہوگئی ہے تویہ کیسے حرام ہے ؟عام ہوگئی ہے تو ہوتی رہے یہاں کون سااسلامی حکومت ہے کہ ملک میں حلال اورحرام کی تمیز کی جائے گی؟اس لیے انشورنس کروانا لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ ریاست نے آزادی دی ہے کہ انشورنس کروا کر مرنے کی بھی آزادی ہے اوربغیرانشورنس کے مرنے کی بھی آزادی ہے ۔ اب توہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے علاج کی غرض سے قرض دینا شروع کردیا ہے۔ جب لوگ ڈاکٹر پر مکمل ایمان لے آئیں گے تب حکومت درمیان سے ہٹ جائے گی تب انشورنس والے سامنے آجائینگے ۔ جب پاکستان امریکا،برطانیہ ،فرانس جیسی ترقی کریگاتب انشورنس کروانے کی پابندی ہوگی۔ امریکا میں جوغریب ہے اس کی زندگی پاکستان کے غریب کے مقابلے میں ہزارگناہ زیادہ بری ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگ خودکشی کرتے ہیں ۔پہلے لوگ ترقی کابھرپورمزہ لیتے ہیں اور پھر اس ترقی کے ہاتھوں اتنے تنگ آجاتے ہیں کہ ایک دن اپنے ہاتھوں سے خوداپناخون کرلیتے ہیں ۔ پاکستان میں ہردوسراحکمران ترقی ترقی کاترانہ گا رہا ہے یہ ترقی لوگوں کی زندگیاں جہنم بنادے گی۔ دنیامیں سب سے زیادہ پاگل ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں ۔ دنیا میں سب سے زیادہ مجرم ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں ۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہوس کے پجاری ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں ۔دنیامیں سب سے زیادہ نشے کے عادی ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں ۔ دنیا میں سب سے زیادہ غیرمحفوظ عورت ترقی یافتہ ملکوں کی ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ خودکشیاں ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی ہیں ۔دنیامیں سب سے زیادہ مریض ترقی یافتہ ملکوں میں ہیں اگریقین نہیں تو یورپ اور امریکا کی سروے رپورٹس کوپڑھ لیں ۔ جوجولوگ ترقی کے لیے جی رہے ہیں اورترقی کو اپنا خدا بنا چکے ہیں وہ یادرکھیں کہ یہ ایک پیکیج ہے ۔ترقی کے ساتھ ساتھ یہ سب بھی ملے گا۔ اور ایساترقی یافتہ ملکوں میں ہورہاہے اس لیے کریں ترقی ضرور کریں مگرعبرتناک انجام کے لیے بھی تیارہیں ۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر