وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔پہلی قسط

بدھ 01 فروری 2017 اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔پہلی قسط

یہ سطور جب آپ تک پہنچیں گی تو اُس وقت عدالتِ عظمیٰ میں لاہور کے میو ہسپتال کے ایک چھاپے میں پکڑے جانے والے جعلی اسٹنٹ کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت ہو گی۔ اگرچہ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ اس ضمن میں ہونا کچھ بھی نہیں لیکن پھر بھی خواہش ہے کہ ایک دفعہ زنجیر ہلا دی جائے۔ یہ معاملہ اُس وقت میڈیا پر اُچھلا جب وزارتِ داخلہ کے زیر انتظام کام کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور کے سب سے بڑی سرکاری ’میوہسپتال ‘ میں امراض قلب کے شعبے میں چھاپہ مارکر وہاں سے دل کی شریانوں میں ڈالنے والے غیر رجسٹرڈ شدہ اسٹنٹ کی بھاری تعداد برآمد کی ، جسے میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے پیش کردیا گیا کہ کس طرح کچھ ڈاکٹرز حضرات لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے تھے۔
اس چھاپے کے اگلے دن فارماسسٹ حضرات کی ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے ایک پریس کانفرنس فرمائی اور اس میں الزام لگایا گیا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کے سربراہ نے چین کے بنے ان غیر معیاری اسٹنٹ کی تین اقسام کو بغیر کسی ضروری ٹیسٹ میں ایک ہی دن میں ، ایک ہی خط کے ذریعے رجسٹر کیا ،اور ان کے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ جس کی قانونی طور پر کوئی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ اس طرح کے ایک اسٹنٹ کی مکمل ٹیسٹنگ میں تین سال کا عرصہ لگتا ہے۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ یہ اسٹنٹ غیر رجسٹرڈ تو نہیں تھے ، اب رہی ان کے غیر معیاری ہونے کی بات تو اسے چیک کرنے کے بارے میں پتہ چلا کہ پاکستان میں اداروں کے پاس ان کے غیر معیاری ہونے کے بارے میں چیک کرنے کے کوئی انتظام و آلات موجود نہیں ہیں۔ فارماسسٹ حضرات نے یہ الزام بھی لگایا کہ ڈریپ کے سربراہ ان چینی اسٹنٹ کی فروخت میں حصہ دار ہیں اور انہوں نے اس کام کے لئے ایک آرام دہ جیپ بھی رشوت میں وصو ل کی تھی جس کی ڈریپ کے سربراہ کی طرف سے شدید الفاظ میںتردید کرتے ہوئے وضاحت کی گئی کہ مذکورہ گاڑی گزشتہ ایک دہائی سے ان کے زیراستعمال ہے جو انہوں نے اپنی بچت سے اُس وقت خریدی تھی جب اُن کا ڈریپ میں تقرر بھی نہیں ہوا تھا۔ فارماسسٹ کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ڈریپ کے سربراہ کے پی کے صوبائی ڈگ کورٹ سے سزا یافتہ ہونے کے باعث اس عہدے پر تقرری کے حقدار نہیں تھے۔
دنیا بھر کے اندر جسم کے اندر لگانے والے آلات جنہیں جسم کے اندر ہی رہ جانا ہوتا ہے، ان کے حوالے سے بہت ہی احتیاط برتی جاتی ہے، اس لئے بہت کم ادارے ایسے ہیں جنہیں ان کی تحقیقی سہولیات کی موجودگی اور یہاں کام کرنے والے سائنس دانوں کی مہارت کا جائزہ لینے کے بعد ہی ، ایسے آلات بنانے اور فروخت کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ایسے ہی اداروں میں سب سے اولین اور بہترین ’’بوسٹن سائنٹیفک‘‘ نامی ادارہ ہے جس کی شریانوں میں لگائے جانے والے اسٹنٹ معیار اور اعتباریت کے حوالے سے دنیا بھر میں بہترین مانے جاتے ہیں اور یوں اس ادارے کی اس شعبے پر ایک طرح کی اجارہ داری ہے۔ اس ادارے کی لوٹ مار یا کمائی دیکھتے ہوئے دنیا کے بہت سے دیگر ادارے بھی اس کاروبار میں کودپڑے لیکن ان کو تحقیق و جستجو کا لمبا راستہ طے کرنا تھا ، ظاہر ہے کہ ان کی پراڈکٹ انسانوں پر استعمال کرنے سے پہلے جانوروں پرآزمائی جانی باقی تھی۔ لیکن ان میں سے کچھ کو یہ انتظار بہت بھاری گزرا تو انہوں نے تیسری دنیا کے غریب ممالک میں ڈاکٹروں کو رشوت دے کر اپنے ا سٹنٹ بیچنا شروع کر دیے۔ ایسے ہی اداروں میں ایک ادارہ وہ بھی ہے جو ’’ریزولیوٹ اونیکس ‘‘نامی ا سٹنٹ بناتا ہے۔ اس ادارے کے مقامی نمائندے نے جب درخواست دی تو پہلے تو اس کو پاکستانی حکام کی طرف سے ساڑھے تین سال انتظار کا وقت دیا گیالیکن بعد میں چند ’ناگزیر‘ حالات کے باعث انہیں عجلت میں اس کی منظوری دے دی گئی۔ اور یوں یہ ادارہ بغیر کسی تاخیر کے میدانِ عمل میں کود پڑا۔
دراصل ’’بوسٹن سائنٹیفک‘‘ اسٹنٹ کی کھلی منڈی میں قیمت ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی جب کہ وہ مریض کویہ اسٹنٹ نجی شعبے کے ہسپتالوں میں ڈلواتے تو ان سے ڈاکٹر صاحبان تین سے ساڑھے چار لاکھ روپے کا بل وصول کرتے۔ یہ اسٹنٹ ڈالنے والے ڈاکٹر کوا سٹنٹ بیچنے والے ادارے کی طرف سے ساٹھ ہزار روپے کے قریب کمیشن یا ’’حق خدمت ‘‘ الگ سے ادا کیا جاتا تھا جس کی مریض کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی۔ لیکن جب یہی ادارہ تھوک میں یہی اسٹنٹ ملک میں دل کے سب سے بڑے ہسپتال ’پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ (پِک) کو فراہم کرتے تو اس کی قیمت چوراسی ہزار روپے وصول کی جاتی کیوں کہ یہاں پر ڈاکٹر کو حقِ خدمت ادا نہیں کرنا ہوتا تھا۔ جلبِ زر کے مارے ان ڈاکٹروں نے مفت ا سٹنٹ ڈلوانے والوں کو انکار کرنا شروع کردیا اور بعض کو ڈیڑھ سال تک کی تاریخ دے کر ٹرخایا جانے لگا۔ اس کا مقصد یہی ہوتا کہ زندگی کی چند مزید سانسوں کے متلاشی لوگ جب مفت علاج کی لمبی لائن سے مایوس ہو کر اسی ہسپتال میں شام کے وقت ان سے پرائیوٹ علاج کروانے آئیں تو ان کی کھال اتاری جاسکے۔ کیوں کہ پنجاب کے عقلِ کُل وزیر اعلیٰ نے ان ڈاکٹر صاحبان کو اسی ہسپتال میں شام کے اوقات میں نجی پریکٹس کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی تھی۔
ظاہر ہے کہ جب اسٹنٹ بنانے والے دوسرے ادارے اس کھیل میں کودے توانہوں نے چین سے غیر رجسٹرڈ اور غیر آزمائش شدہ اسٹنٹ درآمد کر لیے جو تیس سے چالیس ڈالر تک مل جاتے تھے۔ لیکن ان سستے اور غیر رجسٹرڈ اسٹنٹ کی قیمتوں میں کمی کا مالی فائدہ مریض کو پہچانے کے بجائے ڈاکٹر صاحبان کا بھتہ بڑھانے پر اکتفا کیا گیاجو ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں چلا گیا۔ اور یوں چار ہزار روپے والے اسٹنٹ چار لاکھ روپے میں مریضوں کے جسموں میں اُتارے جانے لگے ، اور اس لوٹ مار کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ اس دوران میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ دل کے ہسپتال میں ڈاکٹر صاحبان ہر مریض کوا سٹنٹ ڈلوانے کا مشورہ دینے لگے۔ بھلے اس کی ضرورت ہوتی یا نہ ہوتی ، مریض کو زندگی کا واسطہ یا دھمکی دے کرا سٹنٹ ڈلوانے پراصرار کیا جاتا جس پر وہ بہت جلدی راضی بھی ہو جاتا۔ گزشتہ دو سالوں میں ہمارے ارد گرد کے کم از کم آدھ درجن لوگوں کے جسموں میںا سٹنٹ نامی یہ جعل سازی اُتاری گئی۔
یہاں پر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ نجی پریکٹس کے اوقات ، یا پھر مہنگے مہنگے نجی ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو ان ڈاکٹروں کی طرف سے قائل کیا جاتا کہ بوسٹن سائنٹیفک نامی ا سٹنٹ اب پرانی ٹیکنالوجی ہو چکی ہے، جب کہ ہم آپ کو نئی اور جدید ٹیکنالوجی کا اسٹنٹ لگائیں گے۔ یہ نئی ٹیکنالوجی دراصل غیر تصدیق شدہ ، سستی اور گھٹیا ہوتی جو بڑھیا داموں پر مریضوں کے جسموں میں ٹھونسی جاتی۔ اور اگر کوئی مریض یا اس کے لواحقین انٹرنیٹ وغیرہ پر جا کر اس ٹیکنالوجی کے غیر رجسٹرڈ ہونے کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے تو ڈاکٹر ان سے انتہائی بدتمیزی کرنے کے بعد ان کو بعض اوقات اپنے دفتر سے بھی نکال دیا کرتے۔
اس پورے قضیے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنے تئیں بھاری رقوم خرچ کر کے ، ان ڈاکڑوں سے نجی ہسپتالوں میں مہنگے اور معیاری اسٹنٹ ڈلوائے ، انہوں نے دراصل مہنگے داموں موت خرید ی ۔ اب یہ ا سٹنٹ چین کی بنی چیز کی طرح چل گئی تو چل گئی ورنہ ’اللہ کا حکم‘۔ جب کہ وہ غریب جنہوں نے لائنوں میں دھکے کھا کر مفت میں اسٹنٹ ڈلوائے ، ان کے دلوں کو لگائے جانے والے اسٹنٹ ہی صرف جعلی نہیں بلکہ قابلِ اعتماد بھی ہیں۔ اب آیا نہ غریبی کا مزہ؟ (جاری ہے)
٭٭


متعلقہ خبریں


اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔دوسری قسط رضوان رضی - جمعرات 02 فروری 2017

گلشن کا یہ کاروبار بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھا کہ لاہور کے سب سے بڑے سرکاری میو ہسپتال میں ایک کٹا کھل گیا ۔ دراصل اس ہسپتال میں قدرے کم تعداد میں اسٹنٹ استعمال ہوتے تھے ، اس لیے یہاں پر اسٹنٹ کی فراہمی کے کاروبار پر لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے کے ایک چشم و چراغ کی اجارہ داری ...

اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔دوسری قسط

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر