وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔دوسری قسط

جمعرات 02 فروری 2017 اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔دوسری قسط

گلشن کا یہ کاروبار بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھا کہ لاہور کے سب سے بڑے سرکاری میو ہسپتال میں ایک کٹا کھل گیا ۔ دراصل اس ہسپتال میں قدرے کم تعداد میں اسٹنٹ استعمال ہوتے تھے ، اس لیے یہاں پر اسٹنٹ کی فراہمی کے کاروبار پر لاہور کے ایک معروف اشاعتی ادارے کے ایک چشم و چراغ کی اجارہ داری تھی۔ جب وہاں پر چین سے منگوائے جانے والے اسٹنٹ ڈریپ کی کرم نوازی سے ضروری ٹیسٹنگ کے بغیر ہی فروخت کیے جانے لگے تو ان چینی اسٹنٹ بیچنے والوں نے ڈاکٹر صاحبان کا حصہ لاکھوں میں کیا اور ڈاکٹروں نے دھڑادھڑ یہ اسٹنٹ لگانا شروع کیے تو مہنگے اسٹنٹ بیچنے والوں کو اپنا کاروبار ڈوبتا محسوس ہوا۔ اس پر مذکورہ اشاعتی ادارے کے چشم و چراغ نے جو ایک بہت ہی طاقتور وفاقی وزیر کے قریبی عزیز بھی ہیں ، انہوں نے اپنے رشتہ دار سے مدد طلب کی جس کے تحت ایف آئی اے کو ان چینی اسٹنٹ کے فراہم کنندہ اور اس کے استعمال کروانے والے ڈاکٹر صاحبان کو ’’ہلکا سا ‘‘ سبق سکھانے کی ہدایت کر دی گئی۔ وزیر صاحب کی ہدایت پر ایف آئی اے نے میو ہسپتال پر چھاپہ مارا او ر غیر رجسٹرڈ شدہ اسٹنٹ میڈیا کے سامنے پیش کر کے اپنی نوکری پکی کر لی ، لیکن اس سے ایک اور پنڈورہ بکس کھل گیا۔
اب میڈیا ایف آئی کے افسران سے کہہ رہا ہے کہ میو ہسپتال کو تو چھوڑیں ، یہاں پر تو استعمال کیے جانے والے اسٹنٹوں کی تعداد بہت ہی کم ہے ، آپ پی آئی سی میں تو جھانکیں جہاں پر یہ تھوک کے حساب سے استعمال ہو رہے ہیں ، لیکن اب ایف آئی کو احساس ہوا کہ وہ افسران ِ بالا کی فرمائش پر بہت بڑی حماقت کر کے بم کو لات مار بیٹھے ہیں کیوں کہ انہیں تو ہدایت صرف میو ہسپتال کے لیے تھی۔ جب کہ میڈیا چیخ چیخ کر باقی جگہوں کی نشاندہی کر رہا تھا ، ابھی تو عسکری ادارہ قلب، راولپنڈی ، ملتان اور کراچی کے ہسپتال ہائے قلب اور ڈاکٹروں کی خبر لینا باقی تھی۔ اب میڈیا ہے کہ ایف آئی اے کے افسران کو کھینچ کر ان ہسپتالوں تک لے جانا چاہتا ہے اور ایف آئی اے کے افسران ہیں کہ کسی سہمے جانور کی طرح اپنی بل کے کہیں اندر چھپے میڈیا نمائندگان کو ٹکر ٹکر دیکھے جا رہے ہیں۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک انتہائی واہیات اور بے ہودہ ویڈیو سامنے آئی یا لائی گئی جس میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر صاحب ایک خاتون کے ساتھ وہ اٹھکیلیاں کرتے پائے جا رہے ہیں جس سے دل کے ڈاکٹر اپنے مریضوں کو ہمیشہ منع کرتے نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ سب سے بڑے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹرہیں ، ان کو پتہ ہوگا کہ سگریٹ ، شراب اور خواتین سے کھلے عام چہل بازی کا ان کی صحت پر اثر نہیں پڑتا خاص طور پر جب محفل میں کلاسیکل میوزک بھی چل رہا ہو اور کوئی چپکے سے اس کی ویڈیو بھی بنا رہا ہو۔
اس میں زیادہ ستم کی بات نہیں کہ مذکورہ خاتون جو اس ویڈیو میں ڈاکٹر صاحب کے پہلو میں نظر آتی ہیں وہ ’ریزولیوٹ اونیکس‘ اسٹنٹ درآمد کرکے بیچنے والے ادارے کی ریجنل سیلز منیجر ہیں۔ لیکن بات یہاں تک نہیں رکتی ، اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ ویڈیو دو سال پرانی ہے اور یہ ویڈیو اُس وقت پنجاب کے خفیہ اداروں کی طرف سے خادمِ اعلیٰ کو پیش کی تھی جب خادمِ اعلیٰ نے مذکورہ ڈاکٹر صاحب کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا سربراہ لگانے کا فیصلہ کرناتھا۔ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ بات مکمل طور پر ناقابلِ فہم تھی کہ ویڈیو میں نظر آنے والے کرداروں کے مکمل تعارف اور ’’کارکردگی ‘‘پر یہ برہنہ رپورٹ دیکھنے کے باوجود بھی جناب خادمِ اعلیٰ نے دیگر قابل اور قدرے اجلے کردار کے حامل ڈاکٹروں کے مقابلے میں انہی صاحب کی منظوری کیوں دی؟
پتہ نہیں وہ کون سی دیدہ اور نادیدہ مجبوریاں تھیں لیکن موقع پر موجود کرداروں نے خاکسار کو بتایا کہ اس تقرری کی منظوری کے احکامات صادر کرتے وقت خادمِ اعلیٰ کے لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ مذکورہ ڈاکٹر صاحب تادمِ تحریر اپنے عہدے پر براجمان ہیں اور پنجاب میں تقرری کے میرٹ کے پیشِ نظر امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ ان کو کچھ نہیں ہوگا اور وہ اسی طرح اس عہدے پر قوم کی خدمت فرماتے رہیں گے۔
یہاں اس بات کی نشاندہی کرنا ضروری ہے کہ جب خادمِ اعلیٰ کوئی ساڑھے آٹھ سال قبل اقتدار میں آئے تھے تو اُس وقت پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا سالانہ بجٹ تیس کروڑ روپے تھا جسے وہ آٹھ سال میں بڑھا کر سوا ارب روپے تک لے گئے ہیں۔ لیکن مذکورہ ویڈیو والے ڈاکٹر صاحب کی موجودگی کی برکت دیکھیں کہ مفت علاج کے حاجت مند افراد کے لیے انتظار کا وقت ہفتوں سے بڑھ کر مہینوں میں چلا گیا ہے بھلے وہ اوپن ہارٹ سرجری کی بات ہو یا پھر اسٹنٹ ڈالنے کی ۔ہمارا خیال ہے کہ اگر اسی طریقے سے اس ہسپتال کو چلایا جاتا رہا تو اس بجٹ کوسوا سو ارب روپے تک بھی بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
ہمارا ہمیشہ سے ہی یہ خیال رہا ہے کہ پاکستان میں صحت کی سہولیات کی اتنی ناگفتہ بہ حالت نہیں ہے جتنی ہمارے ہاں اس شعبے پر قابض ہوجانے والے ڈاکٹرز اور خصوصاً پروفیسر مافیا ہمیں اور ہمارے نمائندہ حکمرانوں کو دکھاتا رہتا ہے۔ یہی مافیا ایک طرف حکمرانوں کو انگریزی میں بنی پریزنٹیشن دیتا ہے، اور مزید بجٹ کا متقاضی ہوتا ہے جب کہ دوسری طرف وہ شعبے کے لیے مخصوص فنڈز کی لوٹ مار کرنے کے ساتھ ساتھ دواساز اداروں سے رقوم اینٹھنے سے باز نہیں آتا ۔ اگر ان کو اپنے مفادات میں کوئی خلل ہونے کا خدشہ ہو یا حکومت کسی آڈٹ یا چیک کی بات کر لے تو پھر ’ینگ ڈاکٹر‘ نامی مخلوق پر مرچیں چھڑک دی جاتی ہیں اور وہ بے حال ہو کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ہسپتالوں میں علاج کا عمل رُک جاتا ہے، حکومت کو اپنی پڑ جاتی ہے ، اور وہ ہاتھ پاوں جوڑ کر تمام طرح کا چیک اور بیلنس واپس لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اس کے نتیجے میں یہ پروفیسر صاحبان اس قدر دھن اکٹھا کر چکے ہیں کہ یہ ایک مثال جب اپنی آنکھوں سے دیکھی تو دانتوں میں زبان دبا کر زخمی کر بیٹھے۔ گزشتہ سال جب بین الاقوامی منڈی میں سونے کی قیمتیں کریش ہوئیں تو شیخ زائد ہسپتال کے ایک پروفیسر ڈاکٹر صاحب کو مجموعی طور پر ایک دن میں چوبیس کروڑ کا گھاٹا پڑا لیکن مجال ہے کہ ان کے ماتھے پر شکن تک آئی ہو؟
تا ہم ہمارے ایک صحافی دوست کی جب اعلیٰ ترین اسٹنٹ بنانے والے ادارے سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے جو اسٹنٹ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو چوراسی ہزار میں فراہم کیا تھا اس سال وہ ساٹھ ہزار روپے میں فراہم کریں گے۔ اس پر صحافی دوست نے کہا کچھ اور کم نہیں ہو سکتا تو ان صاحب نے کہا کہ اگر صرف پنجاب حکومت اپنے تمام ہسپتالوں کے لیے اسٹنٹ اجتماعی طور پر خریدے تو یہی اسٹنٹ چالیس ہزار روپے فی کس پر بھی فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے اس دوست کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چالیس ہزار کا اسٹنٹ خرید کر مریض کو قیمتِ خرید پر ہی فراہم کردے اور اس کی باقی چھوٹی موٹی سپورٹنگ آلات مفت کے کھاتے میں سے دیدے تو مہینوں پر مشتمل انتظار اور مفت علاج کے طلب گاروں کی لمبی قطار کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح کے آدھے سے زائد مریض ایسے ہوں گے جو اتنی رقم با آسانی افورڈ کر سکیں گے۔
لیکن وہ دوسری سانس میں ہی یہ کہتے ہیں کہ ملک میں صحت کے شعبے پرقابض پروفیسر مافیا کبھی ایسا ہونے نہیں دے گا۔ اسی لیے تو یہ ٹیچنگ ہسپتالوں میں مریضوں کی براہِ راست ایمرجنسی میں لینے پر اصرار کرتے ہیں اور ہر ہسپتال میں اوپی ڈی کا خاتمہ نہیں ہونے دیتے کیوں کہ اگر مریض سیٹلائیٹ کلینک سے ریفر ہو کر ٹیچنگ ہسپتال میں لایا جائے گا تو پھر یہ پروفیسر صاحبان اپنے نجی ہسپتالوں کے لیے مریضوں کو ’’شکار ‘‘کیسے کریں گے؟تف ہے ۔
٭٭


متعلقہ خبریں


اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔پہلی قسط رضوان رضی - بدھ 01 فروری 2017

یہ سطور جب آپ تک پہنچیں گی تو اُس وقت عدالتِ عظمیٰ میں لاہور کے میو ہسپتال کے ایک چھاپے میں پکڑے جانے والے جعلی اسٹنٹ کے حوالے سے از خود نوٹس کی سماعت ہو گی۔ اگرچہ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ اس ضمن میں ہونا کچھ بھی نہیں لیکن پھر بھی خواہش ہے کہ ایک دفعہ زنجیر ہلا دی جائے۔ یہ معا...

اسٹنٹ اسکینڈل۔۔۔۔۔پہلی قسط

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر