وجود

... loading ...

وجود
وجود

یورپی یونین سے علیحدگی کے مسئلے پر برطانیہ میں خانہ جنگی کا خطرہ

جمعرات 05 جنوری 2017 یورپی یونین سے علیحدگی کے مسئلے پر برطانیہ میں خانہ جنگی کا خطرہ

برطانوی حکومت ان دنوں معیشت کی ترقی کی رفتار میں سست روی اور بیروزگاری میں اضافے کے مسائل کے علاوہ یورپی یونین سے علیحدگی کاعمل مکمل کرنے کے حوالے سے شدید دبائوا ور تذبذب کاشکار ہے۔ ایک طرف خود حکمران پارٹی کے بعض اہم رہنما اور کابینہ میں شامل بعض وزرا یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے بجائے یورپی یونین سے علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہونے والے منفی اثرات سے بچنے کیلیے کوئی درمیانی راہ نکالنے کامشورہ دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب برطانیہ کے شہری یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے کے بعد اب بے چینی سے اپنے اس فیصلے پر پوری طرح عمل ہوتادیکھنے کے منتظر ہیں، اور انھوںنے حکومت کو متنبہ کردیاہے کہ اگر وعدے کے مطابق 31 مارچ تک برطانیہ نے خود کو یورپی یونین سے مکمل طورپر علیحدہ نہ کیاتو برطانیہ میں فسادات شروع ہوسکتے ہیں اور اس سے ملک بھر میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیداہوسکتی ہے جس پر کنٹرول کرنا حکومت کیلیے آسان نہیں ہوگا۔جبکہ دوسری جانب یورپی یونین سے مکمل طورپر علیحدگی اختیار کرنے کے حوالے سے حکومت کو بعض ایسی دشواریاں پیش آرہی ہیں جن کی وجہ سے حکومت عوام کی اکثریت کی جانب سے دئے گئے اس فیصلے پر پوری طرح عملدرآمد سے گریزاں نظر آتی ہے اور ارباب اختیار اس عوامی فیصلے پر عملدرآمد کو موخر کرکے اس مسئلے کے حوالے سے کوئی ایسی راہ نکالنے کے متمنی نظر آتے ہیں جس کے تحت عوام کے اس فیصلے کو نظر انداز کرکے معاملات کو جوں کاتوں چلنے دیاجاسکے۔
حکومت کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پر پوری طرح عملدرآمد سے گریز کا بنیادی سبب برطانیہ میں موجود غیر برطانوی تجارتی اور صنعتی اداروں کی جانب سے دی گئی وہ دھمکی ہے جس میں انھوںنے واضح طورپر متنبہ کردیاہے کہ اگر برطانوی حکومت بریگزٹ پر پوری طرح عملدرآمد کرتی ہے تو وہ کاروباری اور صنعتی ادارے کسی دوسرے یورپی ملک میں منتقل کرنے پر مجبورہوں گے ۔اب حکومت کیلیے مشکل یہ ہے کہ اگر تمام یورپی تاجر اور صنعتکار برطانیہ سے اپنا کاروبار ختم کرکے کسی اور ملک منتقل ہونے کی دھمکی پر عملدرآمد کرتے ہیںتو برطانیہ میں بڑی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوجائیں گے ، بیروزگار ہونے والے ان لوگوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگ بھی شامل ہوں گے اور نیم ہنر مند اورنیم خواندہ لوگ بھی اور برطانوی حکومت کیلیے اتنی بڑی تعداد میں بیروزگار لوگوں کومناسب روزگار کی فراہمی ایک مشکل کام ثابت ہوگی ،یہاں تک کہ ان سب کو سوشل سیکورٹی کے تحت بیروزگاری الائونس کی فراہمی سے بھی خزانہ بری طرح زیر بار ہوگا اور اس کے منفی اثرات ،صحت ، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے اداروں پر پڑیں گے اور ترقیاتی کاموں کو زبردست دھچکا لگے گا۔ اس کے علاوہ اس سے برطانیہ کی پہلے سے ڈانواںڈول معیشت کو زبردست دھچکا لگے گا جس سے معاشی ترقی کی راہ نہ صرف رک جائے گی بلکہ معاشی سطح پر ترقی معکوس شروع ہوجائے گی ،پاؤنڈ کی قیمت جو یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد سے ابھی تک مستحکم نہیں ہوسکی ہے ڈالر کے مقابلے میںمزید گراوٹ کاشکار ہوجائے گی،اس طرح عالمی منڈی میں اس کی اشیا سے ہونے والی آمدنی میں بھی مزید کمی ہوگی۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کی بھرپور حمایت کرنے والے علاقوںیعنی یورپی یونین سے علیحدگی کے حامیوں کے مضبوط گڑھ تصور کئے جانے والے علاقوں کے لوگو ں میں اس فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیر کے سبب بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور اگر یورپی یونین سے علیحدگی کیلیے مقرر کردہ تاریخ 31 مارچ تک اس فیصلے پر پوری طرح عملدرآمد نہ کیاگیا تو وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کیلیے تیار بیٹھے ہیں،جبکہ بعض حکومت مخالف حلقے جن میں دائیں بازو کی انتہا پسند قوم پرست پارٹیوں کے رہنما بھی شامل ہیں ان کو اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے پر حکومت کو مجبور کرنے کیلیے انھیں سڑکوں پر آنے کی ترغیب دے رہے اور اس اہم مسئلے کی بنیاد پر حکومت کے خلاف سیاسی کھیل کھیلنے کی تیار ی کررہے ہیں۔
انفو وارز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق اسکائی نیوز کی ٹیم نے گزشتہ روز یورپی یونین سے علیحدگی کے حامیوں کے مضبوط گڑھ تصور کئے جانے والے علاقوں کا دورہ کیاتھا اور وہاں یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے لوگوں کی رائے معلوم کی تھی اور لوگوں سے معلوم کیاتھا کہ اگر حکومت نے یورپی یونین سے پوری طرح ناتا توڑنے کا جلد ہی اعلان نہ کیا اور یورپی یونین سے علیحدگی کیلیے مقررہ تاریخ کے اندر یہ عمل مکمل نہ کیاجاسکا تو ان کاردعمل کیاہوگا۔اسکائی نیوز کی ٹیم کے اس سوال پر ایک خاتون نے براڈکاسٹرکو جواب دیا کہ ’’ پھر بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہوجائیں گے،لوگوں میں ایک جنون ہوگا جو ابل کر سامنے آجائے گا، اور اس کے نتیجے میں خانہ جنگی بھی شروع ہوسکتی ہے۔اس ملک کی حکومت نے ان کی آواز کو استعمال کیاہے اور اب اگر حکومت عوام کی رائے کونظر انداز کرنے کی کوشش کرے گی توملک خانہ جنگی کی طرف چلاجائے گا۔ایسا ہونا ہے اور ایسا ہی ہوگا‘‘۔
خاتون نے کہا کہ اس معاملے میں تاخیر پر لوگ بہت برہم ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ان کی رائے کااحترام نہیں کیاجارہاہے، ’’اگر حکومت نے بریگزٹ کے معاملے کودبانے کی کوشش کی تو دوسرے یورپی ممالک سے تارکین کا ایک سیلاب برطانیہ میں داخل ہونا شروع ہوجائے گا۔‘‘ اور یہ ہمیں قبول نہیں ہے۔
اسکائی نیوز کی اس رپورٹ سے برطانیہ کے بعض علاقوں کے لوگوں کی سوچ کا اندازہ اچھی طرح لگایاجاسکتاہے ، اور حکومت یقینا عوام کے ان جذبات سے لاعلم اور ناواقف نہیں ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس صورتحال پر کنٹرول اور عوامی رائے کااحترام کرتے ہوئے ملکی مفادات کاتحفظ کس طرح کرتی ہے،اور بریگزٹ پر پوری طرح عملدرآمد کے نتیجے میں معیشت کو پہنچنے والے نقصان پر کنٹرول کیلیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر