وجود

... loading ...

وجود
وجود

نئی کمان پرانے چیلنجز ۔۔۔

بدھ 30 نومبر 2016 نئی کمان پرانے چیلنجز ۔۔۔

ان سطور کی اشاعت تک پاکستان کی نئی عسکری کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کی صورت میںنئی ذمہ داریاں باقاعدہ سنبھال چکی ہوگی ،اس کے ساتھ ہی وطن عزیز میں جاری مختلف قسم کی قیاس آرائیاں تمام ہوئیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا اس حوالے سے ماضی کا کیا ٹریک ریکارڈ ہے، اس موضوع پر تو پاکستان بھر کا میڈیا تبصرے کرتا رہا ہے، اس لیے ہم اس تعیناتی اور عالمی اور خطے کی سطح پر تیزی سے بدلتے حالات کا جائزہ لیں گے۔
داخلی طور پرجنرل قمر جاوید باجوہ کو سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی اور مالیاتی کرپشن کے درمیان ربط کی شکل میںپیدا ہونے والی انارکی کا تارپود بکھیرنے کی صورت میں درپیش ہے کیونکہ پاکستان کے کرپٹ ترین سیاستدان سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اس پالیسی کو ’’سیاسی رنگ‘‘ دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال آصف زرداری کی جانب سے اینٹوں سے اینٹیں بجانے والی ہوائی بڑھک تھی جس کے بعد وہ ملک سے ایسے فرار ہوئے کہ تاحال واپسی کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ نون لیگ کی حکومت خصوصا شریف خاندان نے دہشت گردی اور کرپشن کے اس ناسور کو ختم کرنے کی کوششوں کے راستے میں جو روڑے اٹکائے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ نون لیگ کو عمران خان کے ہر سیاسی احتجاج کی شکل میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آتا رہا اور تاحال یہ صورتحال برقرار ہے۔ پاکستانی سیاست کے ان ’’شاہی سیاسی خانوادوں‘‘ نے دہشت گردی کو ہمیشہ اسی حوالے سے دیکھا جو مغرب دنیا کو دکھاتا رہا ہے ان کے نزدیک دہشت گردی کی تعریف صرف مذہبی عسکریت پسندی کی شکل لیے ہوئے ہے۔ لیکن جیسے ہی ’’معاشی دہشت گردی‘‘ کی بات آتی ہے ان کی اپنی ٹانگیں کانپنے لگتیں ہیں۔ یہی وجہ ہے جب تک فوجی آپریشن جنرل کیانی کے دور میںسوات اور اس کے بعد جنرل راحیل شریف کے دور میں قبائلی علاقوں تک دراز ہوا یہ سیاسی بزرجمہر بغلیں بجاتے رہے لیکن جیسے ہی کراچی آپریشن کی شکل میں عسکری دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردوں پر بھی ہاتھ ڈالاگیا تو کھرا بڑے بڑے سیاستدانوں کے گھروں تک جانکلا ۔ ۔ ۔اس لیے انہوں نے کراچی آپریشن کو متنازع بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔’’ڈان لیکس‘‘ جیسے کارنامے انجام دے کر پاک فوج اور اس کے ذیلی اداروں کو اپنی کارروائیاں عسکریت پسندوں تک محدود رکھنے کے پیغامات دیئے۔ زرداری دور میں پاکستان کے سیاسی مافیا کا خیال تھا کہ فوج اب طویل عرصے تک عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں پھنسی رہے گی اس لیے حکمران سیاسی مافیا چین سے جمہوریت کے نام پر اپنے باقی ’’کارنامے‘‘ جاری رکھے گا۔ سوات میں امن قائم ہونے کے بعد سیاسی مافیا اور اس کے زر خرید میڈیا ہاوسز اور نام نہاد دانشوروں نے قبائلی علاقوں میں آپریشن کی رٹ لگائی کیونکہ ان سب کا پشتی بان امریکا ایسا چاہتا تھا لیکن اس طرح پاکستان کے دفاعی ادارے اپنے ہی ملک میں ایک طویل جنگ میں پھنس جاتے ،اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ قبائلی علاقوں میں جنگ لے جانے سے اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ جنگ ملک کے باقی حصوں تک نہ پھیل جائے اس لیے اس سلسلے میں کافی احتیاط کی ضرورت تھی لیکن جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی مافیا کے گماشتوں نے ان کے خلاف زبانیں دراز کرلیں اور تو اور آئی ایس پی آر کے ایک سابق سربراہ جن کے دو بھائی میدان صحافت میں ’’خاصے کارہائے نمایاں‘‘ انجام دے چکے ہیں جنرل کیانی کو قوت فیصلہ سے عاری شخص قرار دے دیتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف آئے تو انہوں نے نئی حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دائرہ قبائلی علاقوں تک دراز کرکے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا اور کامیابی کے ساتھ ان علاقوں میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن جب یہی آپریشن ضرب عضب کراچی پہنچا اور بڑے بڑے سیاسی نام اس کی زد میں آنا شروع ہوئے تو اسی آپریشن میں کیڑے نکالے جانے لگے۔یہ وطن عزیز کے خلاف ایک بڑی گھنائونی سازش تھی جس میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی مافیا پوری طرح ملوث رہا۔ان حالات میں ’’ڈان لیکس‘‘ کی شکل میں ایک بڑی سازش سامنے آئی جس کے تحت بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ ایک سنگین جرم تھا جس کے تحت ملکی سلامتی سے کھیلنے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد ڈان لیکس پرپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا آئندہ کا رویہ اس بات کا تعین کردے گا کہ مستقبل میں نئے آرمی چیف ایک طرف ملکی سلامتی کے ایشو اور دوسری طرف ملکی سیاسی حلقوں کو کس انداز میں لیتے ہیں۔
اس حوالے سے پہلے بھی کہا جاتا رہا ہے کہ 2005ء کے بعد جس وقت امریکا کو افغانستان میں مار پڑنا شروع ہوئی تو اس نے بھرپور مدد کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اس حوالے سے پاکستان کی اپنی علاقائی اور جغرافیائی مجبوریاں تھیں اس لیے امریکا اور اس کے صہیونی حواریوں نے پاکستان کے عسکری اداروں پر ’’ڈبل گیم‘‘ کا الزام عائد کیا اور اس کے تدارک کے لیے پاکستانی سیاسی مافیا کے بھرپور استعمال کا منصوبہ وضع کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جنرل مشرف کی سیاسی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بدنام زمانہ این آر او کی راہ ہموار کی گئی تھی ۔یہ تمام منصوبہ امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا تھاجس میں مشرف کو مزید طویل عرصے تک کرسی صدارت پر براجمان ہونے کا سبز خواب دکھایا گیا ، دوسری جانب نون لیگ اور پی پی کے درمیان ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کروایا گیا تاکہ یہ دو سیاسی جماعتیں آپس میں لڑ کرپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کام آسان نہ کریں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس نام نہاد چارٹر آف ڈیموکریسی کی سترہویں شق میں لکھا تھا کہ دہلی اور کابل کے ساتھ ہر صورت اچھے تعلقات استوار کئے جائیں گے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ دو علاقائی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ ہو اور اس میں کابل اور دہلی کا ذکر بھی آئے؟ کیا اس ایک شق سے اندازہ نہیں ہوجاتا کہ اس ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کو کہیں اور ڈرافٹ کیا گیا تھا۔۔۔کیا دہلی اور کابل کے ساتھ ہرصورت تعلقات استوار کرنے کا مطلب پاکستان کے دفاعی اداروں کو زچ کرنا نہیں تھا؟
یہ ایک بین الاقوامی ’’بندوبست‘‘ تھا دوسرے الفاظ میں پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف داخلی طور پر ایک مورچہ قائم کیا گیا تھا جسے پوری طرح سمجھ لینے کے جرم میںبے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹاکران کی جگہ زرداری کو تعینات کردیاگیا جبکہ نواز شریف اپنی ’’کمٹمنٹ‘‘ پر قائم رہے اور فائدہ ملک بھر کے سارے معاشی سیاسی دہشت گردوں نے اٹھایا۔ مشرف سے کام نکلوانے کے بعد اسے تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا تھا۔یہی وہ ’’عالمی صہیونی سیاسی بندوبست‘‘ تھا جس کے تحت افغانستان کے وار لارڈز کی طرح پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے پاکستانی صوبوں کو اپنی اپنی عملداری میں تقسیم کرلیا تھا۔ مثلا وفاق میں حکومت ہو یا نہ ہو لیکن سندھ پی پی کے پاس ہی رہنا تھا، اسی طرح وفاق میں بے شک پی پی کی حکومت ہو لیکن پنجاب نے نون لیگ کے پاس رہنا تھا۔ مشرف دور میں کے پی کے میں اے این پی اور ایم ایم اے یہی کردار ادا کرتی رہی تھیں جبکہ بلوچستان کا سیاسی معجون سب کے سامنے ہے۔یہ ان حالات کا ایک سرسری جائزہ ہے جس میں وطن عزیز نے گزشتہ دس برس نام نہاد جمہوریت کے نام پر ایک عذاب جھیلا ہے جس میں ادارے تباہ کردیئے گئے، کرپشن اور قتل و غارت نے ملک کو مفلسی اور انارکی کی دہلیز پر لاکھڑا کیا۔
اب جس بات کا جائزہ لینا مقصود ہے اس کا تعلق بین الاقوامی معاملات کے ساتھ ساتھ اس خطے کی تیزی کی ساتھ بدلتی ہوئی صورتحال ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری رواں دواں ہوچکی ہے۔ سیاسی مافیا اس منصوبے کی کامیابی کا سہرا اپنے سر لینے کے لیے قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ سیاسی مافیا اس منصوبے کا پلان بنانے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتاتھانہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ پاکستان کے اندر بھی ہر کوئی اس حقیقت سے واقف ہے کہ حیران کن منصوبے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔افغانستان میں امریکا اور اس کے صہیونی دجالی اتحاد کے تسلط کے بعدجس تیزی کے ساتھ اس خطے میں بھارت کو قائدانہ کردار دیا جانے والا تھا اس میں پاکستانی اداروں کا یہ شاندار پلان سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس منصوبے کا زیادہ فائدہ چین کو ہوگا لیکن عالمی کشمکش میں یہ اقتصادی راہ داری پاکستان کی ’’لائف انشورنس‘‘ کا کام دے گی ۔ اس حوالے سے پاکستان پر ہاتھ ڈالنا براہ راست چین پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہوجائے گا۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی سمندروں میں بھارتی آبدوز کی دراندازی کی کوشش کے بعد جہاں پاک بحریہ پہلے ہی چوکس تھی وہاں اب چین نے بھی گوادر کی بندرگاہ پر اپنے بحری جنگی جہاز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے بھارت کی چیخیں نکل گئی ہیں اور مودی نے پھر پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ اس صورتحال میں بڑی ڈرامائی تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب روس نے بھی اس راہ داری میں شمولیت کی درخواست کردی۔جس سے یہ بات ثابت ہونا شروع ہوگئی ہے کہ دنیا میں اب طاقت کے مراکز تبدیلی کی جانب گامزن ہیں اور اس صورتحال میں دہلی پر براجمان مودی جیسا مخبوط الحواس شخص بھارت کو کس انجام سے دوچار کرسکتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت نے جو محدود جنگ کی کیفیت پیدا کررکھی ہے وہ خود بھارت کو اس کی اپنی لگائی ہوئی آگ میں جلا دے گی اور اس سلسلے میں خود بھارت کے بعض بیدار حلقے تشویش کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ دوسری جانب امریکا نے مشرق وسطیٰ میں جو آگ بھڑکائی ہے وہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار ہے۔ یہ آگ پہلے پاکستان کے شمالی علاقوں سے لیکر بلوچستان تک پھیلائی گئی تھی تاکہ چین کو سنکیانگ سے آگے جھانکنے کے لیے سر نہ نکالنا پڑے لیکن اس دہشت گردی کے عالم میں اقتصادی راہ داری کا منصوبہ درحقیقت امریکا کے صہیونی منصوبوں پر بری طرح پانی پھیر گیا ہے۔ اب روس اس راہ داری میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہا ہے جس سے پاکستان کی پوزیشن مستقبل قریب میں مزید مضبوط ہوجائے گی جو امریکا، بھارت اور اسرائیل کو کسی صورت منظور نہیں تھی۔
ان حالات میں اب جبکہ طاقت کے بہت سے مراکز مغرب سے کھسک کر ایشیا میں آرہے ہیں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہوجاتا ہے ۔یقینی بات ہے کہ پاکستان کے اہم کردار سے مراد یہاں پاکستان کے دفاعی ادارے ہیں جن کے ذریعے نہ صرف اقتصادی راہ داری کا تحفظ ممکن ہے بلکہ داخلی اور خارجی سطح پر ملک دشمنوں کی ناپاک سازشوں کا مقابلہ بھی ہے۔ آنے والا دور انتہائی سریع الحرکت اور کم وقت میں بڑے فیصلے لینے کا دور ہے۔ ترکی سے لیکر انڈونیشیا تک اور شمالی افریقہ سے لیکر سنکیانگ تک ایک نئی سیاسی اور اقتصادی صف بندی ہورہی ہے پاکستان ان دونوں معاملات میں جغرافیائی طور پر مرکزی حیثیت کا حامل ہے اس لیے عسکری دہشت گردی کے ناسور کے ساتھ ساتھ معاشی دہشت گردی کے خلاف بے رحم آپریشن وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ دنیا تیزی کے ساتھ قوم پرستانہ خیالات کی جانب پلٹ رہی ہے، عالمی اتحادوں کی سیاست دم توڑ رہی ہے، امریکا جو جمہوریت کے نام کا چورن بیچتا تھا اس کی دکان بند ہونے کو ہے۔ ایسے میں پاکستان میں جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کرنے والے سیاسی مافیا سے لوٹی ہوئی دولت نکلوانا اور پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف اندر سے سازش کرنے والے عناصر کا کڑا احتساب وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


قوم کی محبت جنرل راحیل شریف کا اصل ورثہ ہے وجود - منگل 29 نومبر 2016

جنرل راحیل شریف پاکستانی عوام کے دلوں سے محبت سمیٹ کر روانہ تو ہوگئے مگر دلوں میں ہمیشہ موجود رہیں گے قوم ان سے مزید خدمات کی منتظر پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار خان سپہ سالارافواج پاکستان جنرل راحیل شریف۔۔۔۔۔۔ کیا گذشتہ تین سال میں قیادت کا حق ادا کر پائے ہیں؟ کیا ملک پاکستا...

قوم کی محبت جنرل راحیل شریف کا اصل ورثہ ہے

پاک فوج کے سپہ سالاروں کی مختصر کہانی وجود - منگل 29 نومبر 2016

کرنل (ر) اشفاق حسین گزشتہ بیس سالوں میں جنرل راحیل شریف پاک فوج کے پہلے سربراہ ہیں جو اپنے مقررہ وقت پر باعزت طریقے سے رخصت ہو رہے ہیں،یہ عجیب بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد فو ج کے زیادہ تر سپہ سالاروں سے کوئی نہ کوئی روایت منسوب ہوتی رہی ہیں کن میں کچھ سچی تھیں کچھ جھوٹی پاکس...

پاک فوج کے سپہ سالاروں کی مختصر کہانی

نئے فوجی سربراہ  کے لیے چیلنجز وجود - اتوار 27 نومبر 2016

نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ توجہ حاصل کرنے یا خبروں میں رہنے کے شوقین نہیں۔ بلکہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ مگر ایک فوجی سربراہ کے طور پر جنرل کوئی بھی ہو، اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کام کیا کیا سمجھتا ہے؟ ایک پیشہ ور اور غیر سیاسی سمجھے جانے ...

نئے فوجی سربراہ  کے لیے چیلنجز

سنیارٹی فہرست میں آخری جنرل فوجی سربراہی کے لیے پہلے نمبر پر آگئے وجود - اتوار 27 نومبر 2016

         ملک میں جاری افواہوں اور قیاس آرائیوں کے باوجودبالآخر پاک فوج کے نئے سپہ سالار کا تعین انتہائی خوش اسلوبی سے ہوچکا ہے۔ اور پاک  فوج کے نئے سپہ سالا ر جنرل قمر جاوید باجوہ 29  نومبر کو چیف آف آرمی اسٹاف کی وہ جادوئی چھڑی سنبھالیں گے۔ جبکہ جنرل زبیر محمود حیات نئے چیئرمین ...

سنیارٹی فہرست میں آخری جنرل فوجی سربراہی کے لیے پہلے نمبر پر آگئے

وفاقی دارالحکومت میں تبدیلی کی ہوائیں.... آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔۔۔ انوار حسین حقی - اتوار 30 اکتوبر 2016

عمران خان نے پرویز رشید کے استعفے اور خواجہ آصف کی دبئی روانگی کو درباریوں کا فرار قرار دیا ،برطرفی کا معاملہ قومی سلامتی سے متعلق ایک خبر سے جڑا ہوا ہے شیخ رشیدکے کامیاب شو نے حکومت کی جگ ہنسائی کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کو بھی وارم اپ ایکسرسائز کے بغیر ہی دو نومبر کی حکمت علمی کے...

وفاقی دارالحکومت میں تبدیلی کی ہوائیں....  آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔۔۔

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر