وجود

... loading ...

وجود
وجود

سفریاد۔۔۔۔۔۔قسط18

اتوار 27 نومبر 2016 سفریاد۔۔۔۔۔۔قسط18

جلال صاحب سے بات چیت کرکے دل کافی ہلکا ہو چکا تھا، ہم اپنے دفتر میں جا کر کام کاج میں لگ گئے، لیکن سچی بات ہے کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ ہماری نیم دلی کو ہمارے دفتر کے انچارج سیمی نے بھی محسوس کر لیا۔ سیمی نے پوچھا کیا مسئلہ ہے، کیوں اداس دکھائی دے رہے ہو؟ ہم نے رونی صورت کے ساتھ اپنی اداسی اور بے کلی کی کہانی بیان کردی۔ سیمی نے ہماری بات اطمینان سے سنی اور پھر ہنسنے لگا۔ سیمی کی ہنسی نے ہمارا موڈ اور خراب کردیا، ہم نے پوچھا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ۔ سیمی نے کہا اس میں رونے والی کیا بات ہے۔ کیا تم پہلے آدمی ہو جو گھر سے دور کسی دوسرے ملک میں نوکری کرنے آیا ہے۔ کیا تم واحد آدمی ہو جس کو گھر کی اور اپنے پیاروں کی یاد آتی ہے۔ کیا تم اکیلے ایسے آدمی ہو جو یہاں رہائش کے حوالے سے مشکل صورتحال کا شکار ہے۔ مسٹر خان تم اس سسٹم کا شکار ہونے والے نہ پہلے شخص ہو ، نا ہی آخری۔ اس لیے جو ہے اس میں خوش رہو اور برے کو اچھا کرنے کی کوشش کرو۔ سیمی اوساریو کا تعلق فلپائن سے تھا، انجینئر تھا اور اس کی طبیعت میں خوشی بسی ہوئی تھی، کسی بات کو سر پر سوار نہیں کرتا تھا، کسی مشکل سے نہیں گھبراتا تھا ، سیمی کے لیے زندگی زندہ دلی سے جینے کا نام تھی۔ اس لیے ہمارے بگڑے موڈ اور شکوے شکایتوں کا اس نے کوئی اثر نہیں لیا تھا بلکہ ہنسنا شروع کردیا تھا۔ سیمی نے جب دیکھا کہ ہم واقعی اداس ہیں تو ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا، سیمی نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے ایک تصویر نکال کر ہماری طرف بڑھا دی، پھر بولا دیکھو یہ میری بیوی اور دونوں بچوں کی تصویر ہے۔ دیکھو کتنے پیارے بچے ہیں۔ تصویر میں ایک خاتون دوپیارے سے بچوں کے ساتھ پارک کی بینچ کر بیٹھی دکھائی دے رہی تھی۔ لڑکا اور لڑکی دونوں چھوٹے تھے اور اپنی ماں کے دامن سے لگے بیٹھے تھے۔ سیمی نے کہا میرا بیٹا چھ سال کا اور بیٹی چار سال کی ہے۔ تم نہیں جانتے مجھے ان سے کتنی محبت ہے ،میری فیملی ہی میری زندگی ہے، اب سنو میں نے دو سال سے اپنے بچوں کی صورت نہیں دیکھی، میں آخری بار دو سال پہلے چھٹی پر اپنے گھر فلپائن گیا تھا، میری بیٹی سونیا اس وقت دو سال کی تھی، بیٹا جارج چار سال کا تھا، میں صرف ایک ماہ ان کے ساتھ رہ سکا کیونکہ کمپنی نے دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹی دی تھی۔ واپسی کے وقت جارج میری ٹانگوں سے لپٹ گیا، وہ رو رہا تھا اور میرے ساتھ آنے کی ضد کر رہ تھا، لیکن میرے پیروں کی زنجیر تو سونیا بنی ہوئی تھی ، وہ میری گود سے اترنے کا نام نہیں لے رہی تھی حالانکہ اس کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ میں جدا ہو رہا ہوں او ر نوکری اور اس کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے ملک سے دور جا رہا ہوں لیکن وہ میری گود سے اترنے کے لیے تیار نہیں ہورہی تھی۔ میری بیوی کی آنکھوں میں جدائی کا دکھ آنسو بن کر بہہ رہا تھا۔ لیکن یہاں واپس آنا مجبوری تھی میرے دوست !نوکری کیلیے بچوں کیلیے واپس آنا پڑا۔
ہم اپنا غم بھول کر سیمی کے غم میں شریک ہوچکے تھے ، ہم نے تسلی دینے کے لیے سیمی سے کہا اب تو دوسال پورے ہوگئے ہیں ،آپ چھٹی پر چلے جائیں، اپنے پیاروں سے مل آئیں انہیں سامنے دیکھ کر نظروں کی ٹھنڈک بنا لیں۔ زیادہ نہیں تو ایک ماہ کے لیے آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہوں گے اور آپ سے مل کر وہ سب کتنا خوش ہوں گے۔ ہماری بات سن کر سیمی کو خوش ہونا چاہیے تھا لیکن اس کی آنکھوں میں اداسی تیر گئی۔ سیمی نے کہا مسٹر خان !کمپنی نے پالیسی تبدیل کر دی ہے اب چھٹی دو سال بعد نہیں تین سال بعد ملے گی۔ میں ابھی چھٹی پر نہیں جا سکتا، مجھے مزید ایک سال یہاں گزارنا ہے۔ پھر کمپنی چھٹی اور ٹکٹ دے گی۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا یہ کیا بات ہوئی ،ایسے کیسے تین سال بعد چھٹی ملے گی ،کنٹریکٹ میں تو دو سا ل بعد چھٹی کا لکھا ہے۔ سیمی نے ایک گہری آہ بھری، پھر کہا پہلے ایک سال بعد ایک مہینے کی چھٹی ملا کرتی تھی، پھر کمپنی نے دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹی کا طریقہ بنا لیا اور اب اس سال سے پیسے بچانے کے لیے تین سال کا کنٹریکٹ اور تین سال بعد ہی ایک ماہ کی چھٹی کا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے۔ تم کو بھی تین سال بعد ایک ماہ کی چھٹی ملے گی، اس لیے دل مضبوط کرلو ،یہ کڑوا گھونٹ تو اب پینا ہی پڑے گا، ہم نے کہا یہ تو کمپنی نے ٹکٹ کے پیسے اور دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹیوں کے دوران تنخواہ کے پیسے بچا لیے؟ سیمی بولا، تین سال بعد بھی یہ اپنی جیب سے ایک ماہ کی تنخواہ نہیں دیں گے، یہاں اسلامی کیلنڈر رائج ہے ،کمپنی کو ادائیگی اسلامی مہینے کے حساب سے کی جاتی ہے، جبکہ کمپنیاں ہم لوگوں کوجنوری ، فروری یعنی انگریزی مہینے کے حساب سے تنخواہ دیتے ہیں، اسلامی سال اور عیسوی سال میں دس دن کا فرق ہے،اسلامی سال عیسوی سال سے دس دن کم کا ہوتا ہے اس طرح تین سال میں پورے تیس دن بنتے ہیں، یہی تیس دن کے پیسے اور چھٹیاں یہ ہمیں دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا یہ تو زیادتی ہے، سیمی مسکرادیا ،اس نے ہلکے سے کہا: یہ سعودی عرب ہے ۔۔۔ جا ری ہے


متعلقہ خبریں


سفر یاد۔۔۔ آخری قسط شاہد اے خان - منگل 31 جنوری 2017

سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...

سفر یاد۔۔۔ 		آخری قسط

سفر یاد۔۔۔ قسط49 شاہد اے خان - پیر 30 جنوری 2017

سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط49

سفر یاد۔۔۔ قسط47 شاہد اے خان - هفته 28 جنوری 2017

اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط47

سفر یاد۔۔۔ قسط46 شاہد اے خان - جمعرات 26 جنوری 2017

ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط46

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔ شاہد اے خان - اتوار 22 جنوری 2017

مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔

سفر یاد۔۔۔ قسط44 شاہد اے خان - جمعه 20 جنوری 2017

صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط44

سفر یاد۔۔۔ قسط43 شاہد اے خان - جمعرات 19 جنوری 2017

نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط43

سفر یاد۔۔۔ قسط42 شاہد اے خان - بدھ 11 جنوری 2017

نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط42

سفر یاد۔۔۔ قسط41 شاہد اے خان - هفته 07 جنوری 2017

رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط41

سفر یاد۔۔۔ قسط40 شاہد اے خان - جمعه 06 جنوری 2017

ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط40

سفر یاد۔۔۔ قسط39 شاہد اے خان - جمعرات 05 جنوری 2017

ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط39

سفر یاد۔۔۔ قسط36 شاہد اے خان - اتوار 01 جنوری 2017

ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...

سفر یاد۔۔۔ قسط36

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر