وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

بدھ 05 اکتوبر 2016 بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

pakistan-media

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو پشتو زبان پر عبور تھا جب کہ دری اور فارسی انہوں نے اس دوران سیکھ لی تھی۔ لیکن ان سے ملاقات کی صورت اس لیے بنی کہ انہیں کسی نئی نوکری کی تلاش تھی کیوں کہ ان کے آجر اخبار نے امریکیوں کی افغانستان سے با عزت مراجعت کے بعد اپنے سارے دفاتر بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ مسئلہ ان کو ہی نہیں بلکہ وہاں کے بہت سے دیگر عامل صحافیوں کو بھی درپیش تھااور افغان شہریت کے صحافیوں کی حالت ان سے بھی پتلی تھی کیوں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق غیر پختون نسل یعنی ہزارہ، ازبک، جوزجانی قبائل سے تھا اور کابل میں امریکیوں کا سایہ ان کے سروں سے اٹھ جانے کا مطلب تھا کہ اب افغانستان میں ان کی جان و مال کی سلامتی کی ضمانت کوئی نہیں دے سکے گا۔ہم نے عرض کیا کہ آپ اس امریکی اخبار کو کہیں کہ آپ کو پاکستان (اسلام آباد ) میں اپنا نمائندہ رکھ لے توہمارے دوست نے یہ کہہ کر ہمیں حیران کر دیا کہ بین الاقوامی خبروں کے ادارے عرصہ ہوا اسلام آباد سے اپنا بوریا بستر گول کرکے نئی دہلی جا چکے، اس لیے اس کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔مزید برآں وہ جو کابل سے بھاگ رہے ہیں ناں، وہ بھی نئی دہلی ہی جا رہے ہیں۔

اس بات پر ہمارا ماتھا ٹھنکا، یعنی اب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر جو کچھ بھی نشر ہوگا وہ نئی دہلی میں بیٹھ کر ایک مخصوص ذہنیت کے زیر اثر لکھا جائے گا؟ بہت سے امریکی اخبار پہلے ہی اخراجات کم کرنے کے جواز پر اپنے ’’نیوزروم ‘‘ اور ’’آن لائن پروموشن ‘‘ کا کا م پہلے ہی بھارتی اداروں کو منتقل کرچکے ہیں جس کا انکشاف اُس وقت ہوا جب امریکی اخبار کے لیے’ ’لکھنے ‘‘ کی خاطر ہم سے نئی دہلی کے فون نمبر سے ایک خاتون نے رابطہ کیا جو پہلے دو جملوں کے بعد ہندی بولنا شروع ہو گئی۔ مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ بی بی سی، سی این این کی جو نشریات ہم پاکستانی، افغانی، بنگالی و نیپالی حضرات اس خطے میں دیکھ رہے ہیں وہ بھی بھارت سے ہی ہو کر آتی ہیں۔ نیشنل جیوگرافکس، کارٹون نیٹ ورک، موسیقی کے دیگر انٹرٹینمنٹ چینل اس کے علاوہ ہیں جو ضرورت پڑنے پر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی مہم میں شریک ہو جاتے ہیں اور بعض تو سیدھے سیدھے نئی دہلی کا پروپیگنڈا نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں نیشنل جیوگرافکس نے جس طرح بلا روک ٹوک پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز ثابت کرنے کے لیے دستاویزی فلمیں نشر کی ہیں اس پر پیمرا کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ بھارتی میڈیا کو عطا کیا گیا بیانیہ ’پاکستان دہشت گردی کا مرکز ‘ہے اور اس حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ اور ان کے پاکستانی حواری ایک صفحے پر ہیں۔

ایسے میں پاکستان کی طرف سے کوئی جوابی بیانیہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ جارحیت بہترین دفاع کے مصداق ہم نے اس بیانیے کی صرف نفی کرنے پر ہی سارا زور لگایا ہوا ہے جو اس محاذ پر بیٹھے ہمارے لوگوں کی شکست خوردہ ذہنیت کا آئینہ دار ہے۔

تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی خبر بھارتی میڈیا پر ’’پھوڑے ‘‘ جانے سے تین دن پہلے سے ہی بھارتی فوج کی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر پڑی ہوئی تھی۔ جب رپورٹروں نے پاکستانی فوج کے محکمہ اطلاعاتِ عامہ کی توجہ اس طرف مبذو ل کروائی تو انہیں ’نصیحت‘ کی گئی کہ پہلے بھارت کے مین اسٹریم میڈیا کو دیکھ لیا جائے کہ وہ اس خبر پر کیا کہتا ہے۔ کمال کی حکمتِ عملی ہے کہ بغیر تیاری کیے پہلے بھارتی عمل کا انتظار کیا جائے اور رد عمل طے کیا جائے۔ ہو سکتا ہے یہ جنگی محاذ پر بہترین حکمتِ عملی ہو لیکن ’سب سے پہلے‘ کے جنون میں گرفتار ذرائع ابلاغ پر شاید یہ حکمتِ عملی ہی شکست تسلیم کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کوئی بھی ابلاغی حکمتِ عملی نہیں ہے، نہ دفاعی اور نہ ہی جارحانہ۔ ہم رد عمل اور انکار کی کیفیت میں گھری عجیب قوم ہے؟ جب تین دن بعد بھارتی حکومت اور اس کے ذرائع ابلاغ نے مکمل تیاری کر کے ابلاغی حملہ کردیا (کیوں کہ اگر ایک لمحے کے لیے بھارتی دعویٰ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ ایک زمینی حملہ تھا تو وہ بھی کئی دن پہلے ہو چکا ہوگا) اور ہماری طرف سے بیانیہ وہی تھا یعنی مکمل انکار۔ اب ہم انکار کو ثابت کرنے میں کس قدر موثر ہوسکتے ہیں جبکہ دشمن اس کی تین روزہ تیاری کے بعد روبہ عمل آیا تھا۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کا ہر ابلاغی مرکز بھارتی بیانئے سے گونج رہا تھا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پس منظر میں جا چکے تھے۔

ہمارے ملک میں میڈیا مالکان کا مقصد کوئی قومی خدمت تو ہے نہیں وہ تو حکومتوں کو بنانے بگاڑنے اور ریاستی قوانین سے اپنے دیگر کاروباری اور تجارتی مفادات کو بچانے کے علاوہ ملکی خزانے سے زیادہ سے زیادہ مال اینٹھنے پر یقین رکھتے ہیں اور دن رات اسی کے لیے رو بہ عمل رہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں کسی کے ذہن میں یہ بات بالکل نہ آ سکی کہ جب یہ بین الاقوامی نشریاتی ادارے اس خطے سے متعلق خبروں کے لیے ان مقامی ایجنٹوں پر انحصار کریں گے تو پھر ان میں بھارتی نقطہ نظر (بھلے وہ جتنا بھی غلط ہو) کوایک حقیقت کے طور پر پیش ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

یادش بخیر یہ بحث تو ماضی قریب تک بھارت میں چلتی رہی کہ جب تک اسٹار اور زی نے بھارتی ایجنسیوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیک دیے تب تک انہیں نیوز چینل چلانے کے اجازت نامے نہیں ملے۔ اسکے علاوہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں نے عامل صحافیوں کے مختلف گروہوں کو سرمایہ فراہم کیا اور یوں اب پاکستان کے خلاف سب سے زیادہ بھونکنے والوں میں وہ چینل پیش پیش ہیں جوبظاہر عامل صحافیوں کے گروہوں کی ملکیت ہیں لیکن اصلاً انہیں ’’سی بی آئی ‘‘اور ’’را ‘‘سرمایہ کاری فراہم کرتی ہے۔ اس لیے جیسے ہی اپنے فنانسرز کی طرف سے کوئی اشارہ ہوتا ہے تو یہ چینل دم ہلانے، بھونکنے اور کاٹنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اور اب تو اس مصنوعی پیدائش کے بعد یہ ٹی وی چینلز اب مالی لحاظ سے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے ہیں لیکن ان کی پاکستان کے متعلق پالیسی بہرحال اپنے انہی آقاؤں کی ہی مرہونِ منت ہے۔

اس کے برعکس ہمارے دنیا کے نمبر ون حساس ادارے نے توپہلے سے چلنے والے پاکستانی چینلز کو بند کروانے کے لیے کمر کسی ہوئی ہے۔ کمال ہے صاحب ! کیا مستقبل بینی ہے اور کیا حب الوطنی ہے۔ ایک ایس ایم ایس پر ڈھیر ہوجانے والے اور اپنی پالیسی، خبری ترجیحات، اور صحافتی معیار سب پر سمجھوتا کر لینے والے ٹی وی چینل کا جرم محض اس لیے ناقابلِ معافی ہے کہ اس نے ماضی میں ادارے کے ایک شعبے کے سربراہ کے خلاف خبر چلا رکھی ہے۔ قربان جائیے اس عقل کے، کم از کم اس ذہنی ساخت سے بھارتی میڈیاکے مکر کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔

اُدھر سول حکومت کی حالت یہ ہے کہ پی ٹی وی کے ایک سابق سربراہ کمیشن کی دوڑ میں جاتے جاتے پی ٹی وی انگلش بھی لانچ کر گئے تھے۔ پی ٹی وی انگلش سے بری تصویر کشی شاید ہی پاکستان کی ہوسکتی ہو۔ ان پڑھ اور سفارشی اینکرز، بدصورت گرافکس اور فرعون کے دور کا انگریزی پڑھنے کا اسٹائل، ان عقل کے اندھوں اور کنویں کے مینڈکوں کو یہ نہیں پتا کہ روس کا قومی ٹی وی ’’آر ٹی‘‘ (رپٹلائی ٹی وی) اپنی نیوز میں ’’فور۔ ڈی ‘‘ ٹیکنالوجی لے آیا ہے اور انگریزی کے پروگرام کرنے کے لیے لیری کنگ جیسے اینکر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔اپنی کیبل پر جاپانی، چینی، جرمن اور عربی چینل لگا کر دیکھ لیجئے۔ چلیں ان کے پاس فنڈز کی کمی ہوگی، لیکن بھارتی ٹی وی چینلز کا بجٹ تو ہمارے پی ٹی وی سے کئی گنا کم ہے۔ آپ کے اور میرے بجلی کے بلوں میں سے کاٹ کر ساڑھے چھ ارب روپے سالانہ ان کے حوالے کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں صرف الجزیرہ نے کچھ کرنے کی جسارت کی جس کو ایران کے زیر اثر ہمارے پاکستانی بھائی دن رات گالم گلوچ کرتے رہتے ہیں۔ اور تو اور ایرانی حکومت کے انگریزی ٹی وی (پریس ٹی وی) نے بھی اس واقعے کی کوریج اس طرح کی کہ ہمیں آنکھیں مل مل کر دیکھنا پڑا کہ یہ پریس ٹی وی ہے یا ’’زی انگلش‘‘؟

یہاں پی ٹی وی انگلش پروہی شائستہ زیدی والا نیوز سیٹ ہے جس کو نیا رنگ کروا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ ایک دن ایک بچی کو دیکھا جوقومی اسمبلی کے اجلاس پر خبرو ں میں تازہ ترین حالات بتا رہی تھی۔ بے چاری ایک ایک فقرے میں چار چار غلطیاں کررہی تھی اور وہ بھی فحش۔ اب ان اداروں میں میرٹ پر بندے میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں تو بھرتی نہیں ہو سکتے، تو ایسے میں کہاں کا جوابی بیانیہ اور کہاں کی ابلاغی جنگ ؟ اس طرح کی میڈیا وار تو ایسے ہی چلے گی ناں؟

باقی جہاں تک ہمارے نجی اردو ٹی وی چینلز کی بات ہے تو ان کی عقل کا کیا ماتم کہ اڑی قضئیے کے بعد کم از کم تین بلیٹن تک بھارتی فوجیوں کو ’’جاں بحق‘‘ اور پاکستانی فوجیوں کو ’’ہلاک ‘‘ کہتے رہے اور تو اور پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے بھی ایک بلیٹن میں یہی کام دکھا یا۔ پاکستان کو اس وقت اگر اقتصادی راہداری کی تکمیل کرنا ہے تو اُسے مقامی بیانیے کے ساتھ علاقائی بیانیہ بھی گھڑنا ہو گا جو ان مشکل اوقات میں کام آ سکے۔ ورنہ پھر یہی ہو گا کہ ایک سو گھنٹے کی میڈیا چھترول کے بعد جا کر عالمی ذرائع ابلاغ ہماری بات سننے کو تیار ہوں گے جس کے لیے ہمیں انہیں لے کر خطِ متارکہ جنگ پر جانا پڑے گا اور ہر دفعہ ہم شاید ایسا نہ بھی کر سکیں۔


متعلقہ خبریں


انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

اکھیاں دی لالی رضوان رضی - اتوار 18 اکتوبر 2015

سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...

اکھیاں دی لالی

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز رضوان رضی - بدھ 07 اکتوبر 2015

ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام! رضوان رضی - منگل 22 ستمبر 2015

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین د...

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام!

تعلیم اور جعل سازی رضوان رضی - هفته 19 ستمبر 2015

مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد...

تعلیم اور جعل سازی

شکریہ راحیل شریف، کے پردے میں رضوان رضی - هفته 19 ستمبر 2015

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے اسلام آباد میں ایک تقریب سے اپنے خطاب میں یہ کہا کہ ’’کچھ قوتیں ان کو ہٹانا چاہتی ہیں‘‘ تو مملکتِ خداداد پاکستان کے ایک جمہوریت پسند شہری کے طور پر ہمارا ماتھا ٹھنکا، لیکن چوں کہ ہمارے آزاد اور مادر پدر آزاد ’’ معزز‘‘ ...

شکریہ راحیل شریف، کے پردے میں

مرغی کے نرخ اور نقارۂ خدا رضوان رضی - جمعه 18 ستمبر 2015

جناب خلیق ارشد اور ان کے ہونہار صاحبزادے ، گلزار خلیق کا اس قدر محبت بھرا اصرار تھا کہ اپنی نیند قربان کر کے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی سالانہ نمائش کے لئے ناچار پہنچنا ہی پڑا۔ جب سے لاہور کا ایکسپو سینٹر بنا ہے اور جناب ضیاء المصطفیٰ اعوان جیسے لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے اس میں تو...

مرغی کے نرخ اور نقارۂ خدا

سلمان دانش کی نئی ٹوپی رضوان رضی - بدھ 09 ستمبر 2015

چور جب آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو چوری کا مال برآمد ہو ہی جاتا ہے تو کیا پاکستان کے برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی ڈکیتی اور جعل سازی کرنے والے میڈیا اداروں کی باہمی لڑائی کے نتیجے میں اب چوری کا مال برآمد ہونے کو ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جو...

سلمان دانش کی نئی ٹوپی

مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر