وجود

... loading ...

وجود
وجود

مرغی کے نرخ اور نقارۂ خدا

جمعه 18 ستمبر 2015 مرغی کے نرخ اور نقارۂ خدا

chickens

جناب خلیق ارشد اور ان کے ہونہار صاحبزادے ، گلزار خلیق کا اس قدر محبت بھرا اصرار تھا کہ اپنی نیند قربان کر کے پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کی سالانہ نمائش کے لئے ناچار پہنچنا ہی پڑا۔ جب سے لاہور کا ایکسپو سینٹر بنا ہے اور جناب ضیاء المصطفیٰ اعوان جیسے لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے اس میں توجیسے رونق سی لگ گئی ہے اور انہی رونقوں میں سے ایک رونق سالانہ پولٹری میلہ بھی ہے۔ ایک سے ایک بڑا اور نامور صحافی اور ٹی وی اینکر ان باپ بیٹوں نے اس دن ایکسپو سینٹر کے ہال میں جمع کر رکھا تھا۔

پنجاب حکومت کے وزیرِ سرمایہ کاری اور ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق صدر جناب عبدالباسط جو آج کل ہم جیسے دوستوں سے ’’پردہ‘‘ فرما گئے ہیں، ان کے حصے دار، ڈاکٹر مصطفی کما ل جن کو کسی بھی مرغی کے ساتھ ، اس کے مرغے کے مقابلے میں زیادہ لگاؤ اور محبت ہے، وہ آج کل پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے صدرہوتے ہیں۔ انہیں مرغیوں سے محبت کا یہ وائرس جناب باسط صاحب سے منتقل ہوا ہے۔ ڈاکٹر مصطفیٰ کمال نے اپنے شعبے کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ مرغی کا استعمال کسی بھی معاشرے کی ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں بھی ترقی ہو رہی ہے، وہاں لحمیات کے حصول کے لئے افراد میں پولٹری گوشت کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے یعنی ہم مرغی کے گوشت کے استعمال کو اس معاشرے میں انفرادی ترقی کا ایک اشاریہ کہہ سکتے ہیں۔

اس وقت بھارت میں فی کس مرغی کے گوشت کا استعمال اڑھائی کلو گرام ہے جس کے مقابلے میں پاکستان میں ساڑھے چھ کلو گرام فی کس ہے جو امریکا یا ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے ۔کیونکہ امریکہ میں سالانہ فی کس مرغی کا استعمال 75 کلوگرام ہے۔ سال 2020 تک پاکستان میں صرف مرغی کے گوشت کا استعمال پورے ملک کے گوشت کے استعمال کے برابر ہو جائے گا یعنی پاکستانی جتنا گوشت بکرے، دنبے، گائے اور اونٹ کا کھا رہے ہوں گے، اتنا ہی گوشت مرغی کا استعمال کر رہے ہوں گے، اور یہ گوشت مزید سستا ہوتا جائے گا کیوں کہ اگر ایک گائے میں ایک کلو گرام گوشت پیدا کرنے کے لئے آٹھ کلوگرام خوراک کی ضرورت ہو گی تو اتنا ہی گوشت مرغی میں پیدا کرنے کے لئے صرف ایک کلوگرام اناج درکار ہو گا۔ ایسی صورت میں انسانی بقاء کے لئے بھی ضروری ہو گا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مرغی کے گوشت پر انحصار کرے تا کہ کم سے کم اناج سے زیادہ سے زیادہ لحمیات پیدا کی جا سکیں۔

پاکستان میں پچیس فی صد طبقے کو لحمیات کی صحیح مقدارگوشت سے مل رہی ہے باقی 75 فی صد آبادی کو خوراک میں لحمیات کی پوری مقدار دستیاب نہیں ہے

انہوں نے فرمایا کہ اس وقت پاکستان میں کل آبادی کا صرف پچیس فی صد طبقہ ایسا ہے جسے لحمیات کی صحیح مقدار گوشت سے مل رہی ہے باقی 75 فی صد آبادی کو خوراک میں لحمیات کی پوری مقدار دستیاب نہیں ہے۔ اس پر ہال میں بیٹھے ایک ظالم نے آوازلگائی کہ ان افراد کے لئے لحمیات میں کمی کی وجہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے وال ’’بٹ‘‘ حضرات ہیں ، جو باقی 75 فی صد کے حصے کا گوشت کھا جاتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال صاحب نے کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے پولٹری کی صنعت کے لئے کسی بھی قسم کی سبسڈی (زرِ تلافی) کے مخالف ہیں لیکن پاکستان میں پولٹری مصنوعات کے لئے جو رعایتیں چین اور ملائیشیا کی پولٹری پراڈکٹ کو دستیاب ہیں ، کم از کم وہ پاکستانی پولٹری کو بھی دینا ہوں گی۔ انہوں نے بتایا کہ ان دونوں مذکورہ ممالک کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدوں کے تحت پولٹری مصنوعات بڑے دھڑلے سے پاکستان کی مارکیٹ میں آ کر فروخت ہورہی ہیں جب کہ پاکستان میں پولٹری مصنوعات کے خام مال جیسے سویا بین میل پر ہمیں تیس فی صد تک درآمدی ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے، جو کسی ظلم سے کم نہیں۔ چین سے آنے والی پولٹری مصنوعات کی انڈر انوائسنگ اور حلال نہ ہونا ایک دوسرا عامل ہے جو مقامی صنعت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

پولٹری سیکٹر پر ’’حمزہ ‘‘ وائرس کے حملے کے بارے میں صفائی پیش کرتے ہوئے جناب خلیل ستار صاحب نے کہا کہ حمزہ شہباز شریف کا محض ایک فارم ہے جس کی صلاحیت تیس ہزار چوزروں کے برابر تھی جب کہ انہوں نے اتنی ہی صلاحیت کے دو فارم ٹھیکے پر حاصل کر رکھے تھے۔ لیکن اب انہوں نے اپنا فارم بیچ دیا ہے اور ٹھیکے پر حاصل کئے گئے ان کے فارم بند پڑے ہیں ۔ایسی صورت میں حمزہ شہباز شریف پر پولٹری کی قیمتوں میں سٹے بازی کرنے اور اس کی قیمتوں کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق مقرر کرنے کے الزام محض سیاسی مخالفین کابے بنیاد پروپیگنڈہ ہو سکتا ہے۔ ان کا سوال تھا کہ سوا کروڑ سالانہ مرغیاں پیدا کرنے والے شعبے کو محض ایک لاکھ سالانہ کی صلاحیت کا حامل فارمر کیسے اپنی مرضی سے بڑھا اور گھٹا سکتا ہے۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق صدر، جناب خلیل ستار کراچی کے عقل مند تاجروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جنہوں نے ایک غیر ملکی ادارے کا پولٹری پروسیسنگ کا یونٹ کوڑیوں کے بھاؤ خریدا ہوا ہے۔جناب خلیل ستار ایک ترقی پسند تاجر ہیں اور جس وقت پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کے لئے اپنے فوجی بھیجنے سے انکار کیا تھا ،وہ اپنی مرغیاں بھیج کر یہ کسر پوری کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ آج کل ان کی پولٹری مصنوعات اور مرغیاں سعودی عرب کی مارکیٹ میں اِٹھلاتی نظر آتی ہیں۔ وہ بار بار حاضرین کے سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ایسے مائیک پر جھپٹتے کہ موجودہ صدر مصطفیٰ کمال کو اپنی عزت بچانے کے لئے خاموش ہونا پڑتا۔

واپسی پر ہم نے اپنی گھریلو ضروریات کے لئے مرغی کا گوشت خریدنے کے لئے اپنے محلے کے قصائی یٰسین کے ہاں گاڑی روکی تو اس نے دور سے ہیں ہمیں خوش آمدید کہا، اور اپنی گندے ترین کپڑے اور مکھیوں سے بھن بھن کرتے ڈرم کے ساتھ کھڑے ہو کر آوازلگائی کہ چھوٹے ، صاحب کی تین مرغیاں، اور ان کو ڈرم میں پھینکنا نہیں بلکہ ٹانگ سے پکڑ کر لٹکانا ہے۔ یہ یٰسین کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے کہ مرغیوں کا خون بہانے کے لئے وہ مرغیاں ڈرم میں پھینکے گا نہیں بلکہ لٹکائے گا۔ دراصل اس کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ شہر کے بہت سے قصائی مرغی کو ذبح کر کے ڈرم میں پھینک دیتے ہیں اور مرغی کے دارفانی کو کوچ کر جانے کے بعد جب وہ ڈرم میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو ان کے مشاق ہاتھ ان مرغیوں پر جا کر پڑتے ہیں جو فارم سے بازار تک آتے آتے فوت ہو چکی ہوتی ہیں ، لیکن یہ قصائی حضرات ان کو ضائع کرنا ضروری خیال نہیں کرتے۔ یہ مردہ مرغیاں پہلے سے ڈرم میں رکھ دی جاتی ہیں اور یوں گاہک یہ سمجھتا ہے کہ اس نے مرغی اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح کروائی ہے جب کہ وہ اصل میں مردہ مرغی کا گوشت خرید رہا ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں 95% مرغی کا گوشت اسی طرح بیچا اور خریدا جاتا ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ برصغیر کے علاوہ دنیا کے تمام کونوں میں مرغی کھال سمیت کھائی جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کی کھال اتار کر اس کا گوشت کھایا جاتا ہے، اور خلیق ارشد ، اور خلیل ستار صاحب سمیت کسی کے پولٹری پلانٹ میں مرغی کی کھال اتارنے کی صلاحیت ایسی نہیں ہے۔یٰسین قصائی کی ہر بات کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ ’’ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ کروا رہا ہے‘‘ وہ اپنے شعبے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’جو کچھ کروا رہا ہے حمزہ شہباز کروا رہا ہے‘‘۔ اس نے درجنوں فارم ٹھیکے پر لے رکھے ہیں اور مرغی کے نرخ وہی طے کرتا اور کرواتا ہے۔

اب سمجھ نہیں آتا کہ ہم خلیل ستار کی بات مانیں کہ جو آج تک ہماری ضرورت کے مطابق مرغی کا گوشت تیار نہیں کر سکے یا پھر یٰسین قصائی کی، جو عوام کی زبان ہے، اور زبانِ خلق تو ویسے بھی نقارہ خدا ہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں


مرغی، پیاز، لیموں کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں، صارفین پریشان وجود - پیر 09 مئی 2022

عیدالفطر کے بعد مرغی، پیاز اور لیموں کی قیمتوں میں بلند ترین اضافے نے صارفین کیلئے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق متعلقہ اداروں کی جانب سے کوئی نگرانی نہ ہونے کہ وجہ سے مرغی کے گوشت کی قیمت 620 سے 670 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے جو رمضان کے آخری ہفتے میں 600 سے 64...

مرغی، پیاز، لیموں کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں، صارفین پریشان

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

اپنی مرغیاں اپنے پاس رکھیں، بولیویا کا بل گیٹس کو جواب وجود - بدھ 22 جون 2016

مائیکروسافٹ کے ارب پتی مالک بل گیٹس نے حال ہی میں دنیا بھر کے غریب افراد کے لیے خوراک کے مناسب انتظام کے لیے تجویز دی تھی اور کہا تھا کہ وہ انہیں مرغیاں بھیجیں گے کیونکہ ان کی کم خوراکی کا خاتمہ پولٹری مصنوعات سے ہی ہو سکتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص کی بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤ...

اپنی مرغیاں اپنے پاس رکھیں، بولیویا کا بل گیٹس کو جواب

اکھیاں دی لالی رضوان رضی - اتوار 18 اکتوبر 2015

سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...

اکھیاں دی لالی

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز رضوان رضی - بدھ 07 اکتوبر 2015

ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام! رضوان رضی - منگل 22 ستمبر 2015

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین د...

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام!

تعلیم اور جعل سازی رضوان رضی - هفته 19 ستمبر 2015

مملکتِ خداداد پاکستان میں وارد ہونے والے ہرمارشل لاء نے جہاں اس معاشرے کے اخلاقی و معاشرتی خدو خال کو مسخ کیا وہاں ہر آمریت جاتے ہوئے اس معاشرے کے معاشی و اقتصادی پہلووں کو بھی کچھ یوں نیست و نابود کر گئی کہ ملکی حالات اس کے بعد آنے والی کسی بھی حکومت کے قابو میں نہیں آئے اور بعد...

تعلیم اور جعل سازی

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر