وجود

... loading ...

وجود
وجود

اکھیاں دی لالی

اتوار 18 اکتوبر 2015 اکھیاں دی لالی

pakistan and russia flag

سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈی سازش کیس سے ہمیں پتہ چلا کہ روس پاکستان کو اپنا انقلاب برآمد کرنا چاہتا تھا۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ایران ہمیں اپنا انقلاب برآمد کر رہا ہے اور ہر سال اس کی ٹیسٹنگ بھی کرتا رہتا ہے۔ روسی انقلاب کے معاملات بہت آگے بڑھ چکے تھے کہ کچھ انقلابیوں کا پیر بم پر آ گیا اور یوں معاملہ درمیان میں ہی رہ گیا۔پھر روس ہمیں یہ انقلاب عطا کرنے آمو پار کرکے طورخم تک آیا لیکن ہم نے برفانی ریچھ کے ساتھ جو کیا، اُسے انسانی تاریخ کا ایک موڑ ہی کہا جا سکتا ہے۔

دو ملکوں کے درمیان تعلقات ، دوافراد کے تعلقات سے مختلف ہوتے ہیں لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ان پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت استاد دامن کے اس شعر میں سمیٹی جا سکتی ہے کہ

اے اکھیاں دی لالی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او تے روئے اسی وی آں

(آپ کی آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ اگر ہم روئے ہیں تو روئے آپ بھی ہیں)
ہماری تو حالت یہ ہے کہ قتیل شفائی مرحوم کے

ہم جل تو گئے لیکن چنگاری اُٹھی ایسی
اٹھتا ہوا ظالم کے گھرسے بھی دھواں دیکھا

روس نے ہمیں نام نہاد امریکی اتحادی ہونے کی سزا کچھ یوں دی کہ مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کے لئے کی گئی ننگی فوجی جارحیت میں بھارت کی مکمل پشتیبانی کی۔ اس کے دس سال بعد جب ہمیں جب موقع ملا تو ہم نے بھی اپنا تن من دھن جھونک کر افغانستان میں اُس کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ ’روس‘ نام کی وہ ریاست جس کی بنا پر وہ ریاست ہائے متحدہ روس کہلاتا تھا، اب وہ ریاست بھی بیلاروس کی صورت میں جغرافیائی لحاظ سے اس سے الگ تھلگ کھڑی ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک کے علاوہ پانچ وسط ایشیائی ریاستیں بھی اب ایک حقیقت کے طور پر عالمی نقشے پر عیاں ہیں۔

روس میں اس کا اپنا سرخ انقلاب ایک قصہ پارینہ ہو چکا ہے اور وہ انقلاب جو روس دنیا بھر کو برآمد کرتا پھر رہا تھا ، اس کو ماسکو میں بھی پناہ میسر نہیں۔ کیوبا کے امریکاکے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد پاکستان کے بے چارے سرخوں کی آخری امید اب ’’ہیوگو شاویز‘‘ ہی رہ گیا ہے۔

پاکستان اور روس کے درمیان کئی دفعہ تعلقات بحال ہوتے ہوتے رہ جاتے تھے۔ آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ جے ایف تھنڈر کے لئے چین نے جب روسی انجن خریدنے کی بات کی تو روسی قیادت پہلے تو اکڑی ، لیکن چین کے دونوں ممالک کوسمجھانے بجھانے کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات نے یوں جوش مارا کہ پہلے پاکستان میں مارے جانے والے ہر تخریب کار کو ازبک اور تاجک قرار دینا شروع کر دیا اور بعد ازاں روسی تیور دیکھتے ہوئے اسے داعش کا مقامی عہدیدار کہنا شروع کردیا۔

اس خیر سگالی کے جواب میں روسی صدر نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو دورے کی دعوت دے ڈالی۔ لیکن پاکستان کے صدر زرداری نے جس روز روس کے دورے پر جانا تھا ، اُسی دن گیلانی صاحب کی وزارتِ عظمیٰ ، عدالت عظمیٰ کے ہاتھوں قصۂ ماضی ہو گئی اور یوں انہیں یہ دورہ ملتوی کر نا پڑا۔ ہمارے پیپلز پارٹی برانڈ دانشور یہ دور کی کوڑی لائے کہ امریکا ان تعلقات کی بحالی نہیں چاہتا اس لئے جسٹس افتخار چوہدری نے امریکیوں کے کہنے پر یہ سب کیا ہے۔ لیکن نواز شریف صاحب کے آتے ہی روسی ہیلی کاپٹروں کی دھمیال (اسلام آباد)کے مقام پر ایک عدد فیکٹری کا تحفہ مل چکا ہے اور اب دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پائپ لائن کے معاہدے پر دستخط ہو گیے ہیں جو ۲۰۱۷ ء تک مکمل ہو گا۔

روس اور پاکستان کے درمیان لاہور سے کراچی تک دو ارب ڈالر مالیت کی گیس پائپ لائن بچھانے کے معاہدے کی تزویراتی اہمیت کچھ یوں بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ اس پر دستخط وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورہ امریکا پر روانہ ہونے سے کچھ دن پہلے کیے گیے۔ پاکستان اسٹیل مل ، اور دھمیال (اسلام آباد) میں ہیلی کاپٹروں کی ایک فیکٹری لگا کر دینے کے بعد روس کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی یہ تیسری بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اس کی سب سے اہم بات شعبے میں پاکستان کو ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے۔ یہ دو ریاستوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس کی حامی وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے شنگھائی تعاون کونسل کے اوفا اجلاس کے دوران ، ایک غیر رسمی ملاقات میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ان سے بھری تھی۔

اسلام آباد میں دستخط ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں اس منصوبے کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا جب کہ اس منصوبے کے لئے چونکہ فنانشل کلوز اور اس طرح کی دیگر قباحتوں کا تکلف نہیں کرنا پڑے گا اور سارا سرمایہ روسی حکومت فراہم کرے گی ، جسے اپنے گیس اور تیل سے کمائے گئے ڈالر خرچنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی ، اس لئے اس کے پہلے مرحلے کی تکمیل کی تاریخ دسمبر۲۰۱۷ء طے کی گئی ہے جو یقیناً اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گی۔

لیکن اس معاہدے کا ایک سادہ ساپیغام واشنگٹن میں بھی وصول ہو گیا ہے اور یہ کہ پاکستان کا ازلی دوست امریکا اب ہمیں ایران، پاکستان(آئی پی آئی) گیس پائپ لائن یا پھر ترکمانستان ،افغانستان ،پاکستان، بھارت (تاپی) اور وسط ایشیائی ممالک سے بجلی درآمد کے کاسال ۲۰۰۰جیسے منصوبوں کے بہلاؤں سے مطمئن نہیں کر سکتاکیوں کہ ایندھن کے بحران کا شکار پاکستان کے پاس اب مزید متبادل ذرائع بھی دستیاب ہو گیے ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست بن گیے ہیں۔

لیکن یہ بات طے ہے کہ ہم اسے کراچی لاہور پائپ لائن قرار دے کر دراصل دنیا کی آنکھوں سے بچانا چاہ رہے ہیں ، اصل میں یہ ایران ۔پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا ایک حصہ ہے ، جس کا گوادر سے نوابشاہ تک کے حصے کے لئے ٹھیکہ اسی طرح کے ایک معاہدے کے تحت پہلے ہی چینی کمپنیوں کو دیا جا چکا ہے۔ یوں گوادر سے ایرانی سرحد تک کا چند کلومیٹر کا ’ٹوٹا‘ کسی بھی وقت مکمل کیا جا سکتا ہے اور وہ ہم خود بھی کر سکتے ہیں ۔اس طریقے سے ہم دراصل ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں سے بچ بچا کر اس منصوبے پر عمل شروع کر رہے ہیں تا کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو ہم کہہ سکیں کہ یہ تو قطر سے درآمدی ایل این جی کی ترسیل کے لیے ہے۔ اور جیسے ہی موقع آئے ، جو کہ شیطانِ بزرگ کے مہربانِ بزرگ ہوجانے کے بعد آیا ہی چاہتا ہے، ہم لیور نیچے کریں اور گیس پاکستان میں آنا شروع ہو جائے۔

وزیر اعظم کے دورۂ امریکا سے ذرا قبل روس اور پاکستان کے درمیان لاہور تا کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ ایک خاص پیغام رکھتا ہے۔

لیکن روس اس منصوبے کے لئے دو ارب ڈالر ہماری محبت میں نہیں لگا رہا بلکہ وہ اس وقت یورپ کو گیس کی فراہمی پر اپنی اجاری داری ہونے کے باعث یورپی ممالک کے اوپر اپنی جو تزویراتی بڑھوتری ہے اس کو برقرا ر رکھنے کی قیمت ادا کر رہا ہے جس کو گزشتہ کچھ برسوں سے ایران کے پاس زیرِ سمندر موجود گیس سے خطرہ ہے۔ ایران ابھی تک اپنے اوپر لگنے والی اقتصادی پابندیوں کے باعث پارس گیس فیلڈ کی گیس کو برآمد نہیں کر پا رہا۔ یہاں سے اس وقت خلیج کی دوسری طرف بیٹھا قطر ،گیس نکال نکال کر اسے ٹھنڈا کر کے ایل این جی بنا کر پوری دنیا کو بیچتا ہے، اور دنیا میں ایل این جی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ کہلاتا ہے ۔ ایران کی جانب سے خلیج کے مخالف کنارے سے اسی زیر آب گیس فیلڈ سے گیس نکال کر یورپ کو برآمد کرنا چاہتا ہے جس کے لئے اس نے ترکی تک پائپ لائن بچھابھی لی ہے۔ آگے یہ گیس ترکی کو پائپ لائن کا کرایہ ادا کر کے اس کی ایستادہ پائپ لائنز کے ذریعے یورپ تک پہنچائی جا سکتی ہے ۔

حالیہ دنوں میں شام میں ایرانی مخالفین کو نیست و نابود کرنے اور بعثی درندہ حکومت بچانے کے لئے فوجیں اتارنے کے بدلے روس نے ایران سے ایک وعدہ یہ بھی کیا ہے کہ وہ اس کی گیس یورپ تک پہنچا کر وہاں روس کی منڈی ’خراب ‘ نہ کرے اس کے بدلے وہ (روس) ایران کو متبادل منڈی فراہم کرے گا، ظاہر ہے کہ روس کی طرف سے ایران کی (متوقع ) گیس کومتبادل منڈی مہیا کی گئی ہے۔ یوں جب یہ گیس پاکستان اور اس سے آگے چین کو فراہم ہو نا شروع ہوجائے گی تو ایران یورپ کو منہ نہیں کرے گا۔ اور یوں روس جب جب چاہے گا یورپ کا ٹینٹوا دبانے کا حق اپنے پاس محفوظ رکھے گا۔

بھارت اس سے پہلے ہی امریکا سے چھ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ کرکے ایران کی گیس پر سے اپنے انحصار کو ختم کر چکا ہے۔ ایسی صورت میں بارہ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر خریدی جانے والی یہ ایرانی گیس ، پائپ لائن کے ذریعے پاکستان کے راستے چین تو جا سکتی ہے بھارت نہیں۔

دیکھنایہ ہے ہمارے وزیر اعظم اپنے متوقع دورہ امریکامیں یہ منصوبہ دکھا کر اپنے دورہ امریکہ میں صدر اوباما سے کیا کچھ رعایتیں لینے میں کامیاب ہوتے ہیں؟


متعلقہ خبریں


یوکرینی حکومت کی شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل وجود - جمعه 04 مارچ 2022

یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کردی۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یوکرینی حکومت نے شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل کر دی ۔یوکرینی صدر کے مشیر نے لوگوں کو کہا ہے کہ روس کے پچھلے دستے کمزور ہیں، اگر ہم ان کو بلاک کر دیں تو یہ جنگ جیت سکتے ہیں...

یوکرینی حکومت کی شہریوں سے گوریلا جنگ کا آغاز کرنے کی اپیل

مذاکرات کے ساتھ یوکرین کی فوجی طاقت کو ہر حال میں تباہ کریں گے،روس وجود - جمعه 04 مارچ 2022

روس نے کہا ہے کہ ماسکو یوکرین میں لڑائی کے خاتمے کے لیے بات چیت کررہا ہے تاہم یوکرین کے فوجی ڈھانچے کو مکمل تباہ کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔ عالمی میڈیا کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روسی وفد نے اس ہفتے کے شروع میں یوکرینی مذاکرات کاروں کو اپنے مطالبات پیش کیے ہیں...

مذاکرات کے ساتھ یوکرین کی فوجی طاقت کو ہر حال میں تباہ کریں گے،روس

تخفیف اسلحہ معاہدوں سے الگ ہوسکتے ہیں، روس وجود - اتوار 27 فروری 2022

روس نے کہا ہے کہ یورپ کی جانب سے پابندیوں کے جواب میں وہ تخفیف اسلحہ معاہدوں سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔اپنے بیان میں ڈپٹی ہیڈ روسی سکیورٹی کونسل نے کہا ہے کہ مغرب سے تعلقات مکمل ختم کرسکتے ہیں، ممکن ہے کہ پھر روس اور مغرب ایک دوسرے کو دوربین سے دیکھیں۔واضح رہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد...

تخفیف اسلحہ معاہدوں سے الگ ہوسکتے ہیں، روس

آذربائیجان اور آرمینیا میں دوبارہ مسلح جھڑپیں، آرمینیا نے روس سے مدد طلب کرلی وجود - بدھ 17 نومبر 2021

آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ایک مرتبہ پھر مسلح جھڑپوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ آرمینیا نے روس سے مدد طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پندرہ فوجی مارے گئے ہیں جبکہ آذربائیجان نے بارہ فوجیوں کو پکڑ لیا ہے۔جرمن ٹی وی رپورٹ کے مطابق آرمینیا کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطا...

آذربائیجان اور آرمینیا میں دوبارہ مسلح جھڑپیں، آرمینیا نے روس سے مدد طلب کرلی

افغانستان کی صورتحال پر ٹرائیکا پلس اجلاس آج اسلام آباد میں ہوگا وجود - جمعرات 11 نومبر 2021

افغانستا ن کی صورتحال پر ٹرائیکا پلس اجلاس آج جمعرات کو اسلام آباد میں ہوگا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اجلاس کا افتتاح کریں گے،اجلا س میں افغانستان کے لیے چین،روس،امریکا اور پاکستان کے خصوصی نمائندگان و سفیر شرکت کریں گے، جبکہ افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی شریک ہونگے...

افغانستان کی صورتحال پر ٹرائیکا پلس اجلاس آج اسلام آباد میں ہوگا

روس کا 20 اکتوبر کو شیڈول مذاکرات میں طالبان کو دعوت دینے کا اعلان وجود - جمعه 08 اکتوبر 2021

افغانستان کے لیے روسی نمائندہ ضمیر کابولوف نے کہا ہے کہ ماسکو میں افغانستان سے متعلق 20 اکتوبر کو شیڈول مذاکرات میں طالبان کو دعوت دی جائے گی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق ضمیر کابولوف نے چین، بھارت، ایران اور پاکستان پر مشتمل مذاکرات میں طالبان کو نمائندگی کے لیے دعوت دینے کے حوالے سے ر...

روس کا 20 اکتوبر کو شیڈول مذاکرات میں طالبان کو دعوت دینے کا اعلان

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر