وجود

... loading ...

وجود
وجود

سلمان دانش کی نئی ٹوپی

بدھ 09 ستمبر 2015 سلمان دانش کی نئی ٹوپی

salman-danish

چور جب آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو چوری کا مال برآمد ہو ہی جاتا ہے تو کیا پاکستان کے برقی ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کی تاریخ میں ہونے والی سب سے بڑی ڈکیتی اور جعل سازی کرنے والے میڈیا اداروں کی باہمی لڑائی کے نتیجے میں اب چوری کا مال برآمد ہونے کو ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جو اب بیشتر اذہان میں کلبلا رہا ہے جونو گیارہ کے بعد پاکستان کے ابلاغی منظرنامے پرکُھمبیوں کی طرح ابھرنے والے ٹی وی چینلز کی تعداد، مقدار اور معیار پر انگشت بدنداں رہے ہیں۔

امریکی صدر بش کی نو گیارہ کے بعد امریکی کانگریس کے سامنے کی جانے وا لی تاریخی تقریر توآپ کو یاد ہی ہو گی جس میں ان کے دہن سے ’’کروسیڈ‘‘ کا لفظ پھسلا تھا۔ ہم اس لفظ ’’کروسیڈ‘‘ (عیسائی جہاد ) میں ہی پھنس کر رہ گئے حالاں کہ موصوف نے اس تقریر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ اتنے کھرب ہا ڈالر مسلم معاشروں پر خرچ کرنے کے باوجود ان معاشروں میں ہم اپنے لئے قبولیت کیوں پیدا نہیں کر سکے؟ یہ پتہ چلانے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں ہمارے خلاف نفرت کیوں موجود ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان معاشروں کو براہِ راست بتائیں کہ امریکہ نے ان کے لئے کیا کچھ کیا ہے۔ اس کے لئے مسلم معاشروں میں نجی میڈیا کی سرپرستی اور مدد فراہم کرنے کے لئے ایک بلین ارب ڈالر کا ریوالونگ فنڈ قائم کیا جا رہا ہے‘‘۔ ریوالونگ فنڈ کا مطلب تھا کہ جیسے ہی پہلا ارب ڈالر ختم ہو گا اس میں نیا ارب ڈالر ڈال دیا جائے گااور پھر پوری مسلم دنیا میں ٹی وی چینلز کھمبیوں کے طرح اُگے ۔بس الجزیرہ سے لے کر پاکستان میں آنے والے ہر ٹی چینل تک، سب کو یاد کیجیے ، سوچیے اور سر دھنیے۔

ایکسپریس ٹی وی کے مالک جناب سلطان لاکھانی کی طرف سے اس وقت اپنے اخبار اور ٹی وی پر ایک ہی گردان جاری ہے کہ انھیں ’’میڈیا لاجک‘‘ نامی ادارے کے مالک جناب سلمان دانش کی جانب سے بلیک میلنگ کا سامنا ہے۔کیونکہ ایکسپریس گروپ جنابِ دانش کو پینتالیس کروڑ روپے کی رقم ناجائز طور پرادا کرنے سے انکاری ہیں۔ جناب سلمان دانش اس بات سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے ملازمین کو رشوت دے کر ایکسپریس نے جعلی ریٹنگ حاصل کیں جس کے نتیجے میں ایکسپریس نے اربوں روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اب ہو سکتا ہے کہ دانش صاحب نے انہی اربوں روپوں میں سے اپنا حصہ بھی مانگ لیا ہو جو ایکپریس نے جعلی ریٹنگ سے کمائے تھے۔

ٹی وی ریٹنگ کیا ہے؟ ریٹنگ سے مراد یہ ہے کہ ایک وقت میں پورے ملک میں کسی بھی ٹی وی کو کتنے افراد دیکھ رہے ہیں؟ اس کا مبینہ طریقہ کار یہ ہے کہ پورے پاکستان میں سے چند مختلف اور منتخب گھروں میں لگائے گئے ٹی وی چینلز پر ایک آلہ نصب کیا جاتا ہے جسے پیپلز میٹر کہا جاتا ہے اور جو یہ حساب کتاب رکھتا ہے کہ صاحب ِ خانہ اور ان کے پورے خاندان نے پورے دن کے دوران کب اور کون سا ٹی وی دیکھا۔ یہ آلہ ہر ہر لمحے کی خبر ایک مرکزی نظام کو دیتا ہے جو ہر چوبیس گھنٹے میں ہرچینل کے بارے میں ریٹنگ جاری کرتا ہے کہ کون سا ٹی وی کتنا دیکھا گیاہے۔ اسی بنیاد پر اشتہار دینے والے ادارے کسی بھی ٹی وی کو اشتہار دیتے اور ان اشتہارات کے نرخ طے کرتے ہیں۔

اس میں سب سے پہلی غلطی اُس وقت پکڑی گئی ، جب الطاف بھائی یا ان کی پارٹی کے افراد ٹی وی پر آ کر کوئی بات یا تقریر کرتے اور جو ٹی وی اس کو دکھاتے ان کی ریٹنگ آسمان سے باتیں کرنے لگتیں۔ اب حیرت کی بات یہ تھی کہ پاکستانیوں کی حسِ لطیف اس قدر بھی نہیں بگڑی تھی کہ الطاف بھائی کی تقاریر پر لوگ جوق در جوق ٹوٹ پڑیں اور اگر لسانی عصبیت اور گروہی تعصب میں ایسا تھا بھی تو دس کروڑ آبادی سے زائد کے صوبہ پنجاب میں الطاف بھائی کے اس قدر چاہنے والے کہاں سے پیدا ہو گئے؟

تحقیق سے پتہ چلا کہ شہرِکراچی میں لگائے گئے پیپلز میٹر جن گھروں میں لگائے گئے تھے، یا تو وہ متحدہ کے عہدیداروں کے تھے یا پھر ان کی ’’دسترس ‘‘ میں تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ابتدا میں ان پیپلز میٹر کا اسّی فی صدصرف کراچی میں ہی لگایا گیا تھا۔ اس کا میڈیا لاجک کی انتظامیہ کے پاس یہ جواز تھا کہ ملک کی سب سے بڑی شہری آبادی کے مرکز میں پائے جانے والے رحجانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب اس پر تنقید بڑھی تو پھر پورے پاکستان کے بائیس شہروں میں پیپلز میٹر لگانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن آج تک یہ بات کسی کو معلوم نہ ہو سکی کہ کس شہر میں کتنے پیپلز میٹر ہیں ؟ یقینناً یہ اس ادارے کا فرض بھی تھا اور حق بھی کہ وہ کسی کو پتہ نہ چلنے دے کہ یہ میٹر کہاں کہاں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی تعداد کے بارے میں جس مبالغے سے کام لیا جاتا رہا اس کا بھانڈاخود میڈیا لاجک کی ایک سابق ملازمہ نے ایکسپریس ٹی وی پر آ کر کچھ یوں پھوڑ ا کہ لاہور اور اسلام آباد میں کسی طور پر تین تین سو سے زائد میٹر نہیں لگے ہوئے۔ جبکہ میڈیا لاجک پورے ملک کے ان بائیس شہروں میں ہزاروں میٹر لگانے کا دعویدار رہا ہے۔

سگریٹ فروش، تعلیم فروش ، گھی فروش، وطن فروش سمیت تمام قسم کے میڈیا مالکان ان کی بنائی اور گھمائی ہوئی ٹوپیاں خوشی خوشی پہنتے رہے

ریٹنگ ناظرین کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ ہوا کرتی ہے ،اور دنیا بھر میں تحقیق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کے نتائج دینے سے پہلے محقق اپنی تحقیق کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیلی طور پر واضح کرے۔ جدید طریقہ ہائے ریسرچ کے ایک طالب علم کے طور پر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی ریسرچ کی بنیاد کے بارے میں محقق یہ نہ بتا سکے کہ اس تحقیق کے لئے اس نے کون سا طریقہ تحقیق اپنایا ہے ، تو ایسی ریسرچ کو اٹھا کر تاریخ کے نہیں بلکہ لائبریری کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ترقی پسند جاہلوں کے علاوہ ڈارون کی تحقیق کو کوئی بھی محقق ایک ثقہ تحقیق ماننے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ موصوف اپنی زندگی میں کبھی اپنی تحقیق کا طریقہ کار واضح نہیں کر پائے۔

لیکن اس سے بڑھ کر ایک اور انکشاف بھی ہمارا منتظر ہے۔ جناب سلمان دانش صاحب نے مختلف اینکرز حضرات کے ساتھ بلیک ملینگ اور سودے بازی کر نے کے مجرمانہ کام میں ملوث رہے ہیں۔اُنہوں نے اُن اینکرزکی ریٹنگ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور اگلے اداروں میں کروڑوں میں تنخواہوں پر جانے کی راہ ہموار کرنے کے عوض کتنا اور کیا کیا کچھ لاہور کے جم خانہ میں بیٹھ کر وصول کیا ، اس سودے بازی کے دلال اور گواہ دونوں ہمارے پاس موجود ہیں اور بوقت ضرورت ان کو حلف دے کر سب کچھ اُگلوایا بھی جا سکتا ہے۔ بس اتنا جان لیجیے ! کچھ مرد نما خواتین اینکرز اور کچھ خواتین نما مرد اینکرز ، پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور میڈیا لاجک والے ایک دوسرے کے ساتھ آنکھ مچولی کاہی نہیں چولی کے پیچھے کیا ہے ؟ کا کھیل بھی کھیلتے آیے ہیں۔ یہ سب ٹی وی کی دنیا پر بس سلمان دانش کی وجہ سے ہی اب تک مسلط رہ پائے ہیں۔

یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سلمان دانش صاحب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جناب عمران خان صاحب سے قرابت دار ی بھی رکھتے ہیں۔ یہ بات ہمارے علم میں آنے سے پہلے ہمیں ایک سوال پریشان کیے رکھتا تھا کہ ستر لاکھ ووٹ لینے والے عمران خان کی ٹی وی ریٹنگ ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹر لینے والے میاں نواز شریف سے دگنی تگنی کیسے ہو جاتی ہے؟ عمرا ن خان تو ایک طرف ان کی پارٹی کا دوسرے اور تیسرے درجے کا رہنمابھی جو مرضی ہو بولے ، اس کی ریٹنگ شہباز شریف اور نواز شریف یا کسی بھی قومی سطح کے رہنما سے زیادہ کیسے ہو جاتی ہیں؟ لیکن اگر سلمان دانش صاحب جیمخانہ کلب میں بنائے گئے اینکرز سے چند مفادات کے لئے ان کی ریٹنگ کو چار چاند لگا سکتے ہیں توپھر اپنے قرابت داروں کے لئے پورے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو’’ ماموں ‘‘کیوں نہیں بنا سکتے؟

ا ب آئیے ! موجودہ قضیے کی بنیاد کی طرف!

جناب سلطان لاکھانی نے اس ریٹنگ کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے ’’ڈی جی میڈیا ‘‘کے نام سے ایک اور ادارہ کھڑا کیا ہے ۔جس میں اپنے ایک ملازم جناب نعیم الدین کو حصے دار اور سربراہ کے طور پر متعارف کروایاہے ۔ لاکھانی صاحب نے اس ادارے کے لئے ابتدائی طور پر تین ارب روپے کا سرمایہ فراہم کیا تاہم وہ سامنے نہیں آئے۔ اس ادارے کو دانش صاحب نے تمام تر پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان تمام گھروں اور ان کے مالکان اور سربراہان کی فہرست فراہم کی جہاں پیپلز میٹر لگے ہوئے تھے۔ لہٰذا نعیم الدین صاحب نے پورے پاکستان کے ان بیس شہروں میں جہاں پیپلز میٹر نصب تھے ۔وہاں انہوں نے ایسے تمام گھروں کے مالکان تک رسائی حاصل کی۔ اور ان میں سے جو راضی ہوا ،اس کو پانچ سے پندرہ ہزار روپے کا ماہانہ لگایا کہ ہر وقت اپنے گھر میں ایکسپریس ٹی وی ہی دیکھا کریں ۔ ان میں سے کئی لوگ تو وعدے کے اس قدر پکے نکلے کہ وہ سوتے وقت بھی ایکسپریس ہی لگا کر سو جایا کرتے۔ بس یہیں پر غلطی ہو گئی۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے ایکسپریس کے تمام چینل میڈیا لاجک کی ریٹنگ کے مطابق پورے پاکستان کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی چینلز بن گئے۔ لیکن دوسرے میڈیا مالکان جب یہ دیکھتے کہ ایکسپریس کی ریٹنگ پورے چوبیس گھنٹوں میں کسی ایک لمحے بھی کم نہیں ہوتی ،تو وہ بھی سوال اٹھاتے کہ کیا ان گھروں میں لوگ سوتے نہیں ہیں؟ اس پرجناب سلمان دانش صاحب کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔

جناب سلمان دانش صاحب سے ذاتی طور پر خود میرے کوئی تین ٹاکرے مختلف سیمینارز اور کانفرنسوں میں ہوئے اور ان تینوں ٹاکروں میں یہ سیمینار چھوڑ کر بھاگ جاتے۔ کیونکہ ان کے پاس ہمارے اُٹھائے گئے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ ویسے بھی ان کا مکروہ دھنداچل رہا تھا۔ سگریٹ فروش، تعلیم فروش ، گھی فروش، وطن فروش ، تمام قسم کے میڈیا مالکان ان کی بنائی اور گھمائی ہوئی ٹوپیاں خوشی خوشی پہنتے رہے، اور عمران خان کا یہ بھانجا سب کو ماموں بناتا رہا۔ یہ گندادھنداجاری رہتا اگر دوسرے میڈیا مالکان اس ریٹنگ کے بارے میں شوروغوغا بلند نہ کرتے۔ آخر کار اس کھلی بد دیانتی کی براہِ راست ذمہ داری سے بچنے کے لئے موصوف نے اپنے کچھ ملازمین پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے ڈی جی میڈیا کو اس حساس معلومات تک رسائی دی ہے اور انہوں نے اشک شوئی کے لئے ان ملازمین کو نوکری سے نکال کر ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کروا دیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ملازمین سے تحقیق کرنے کے لئے عمران خان نیازی کے بھانجے نے جس پولیس والے کو ڈھونڈا، وہ بھی ایک نیازی ہی تھا، سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔

اس دوران میں جیو گروپ کی فوج کے ساتھ لڑائی ہو گئی ۔ اس سے قبل جیو جناب عمران خان صاحب کے زیرِ عتاب بھی رہ چکا تھا۔ ادھر ہمارے اداروں نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنے زیر انتظام رہائشی علاقوں میں جیو کا داخلہ بند کر دیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس صورت میں میڈیا لاجک کے مطابق سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ایکسپریس ٹی وی پاکستان کا نمبر ایک چینل بن جاتا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یہ اعزاز جیو کی غیر موجودگی میں سماء کے حصے میں آ گیا۔ جعل سازی تو بہرحال جعل سازی ہی ہوتی ہے ناں!

اُدھر جناب نعیم الدین صاحب نے جو ڈی جی میڈیا کی سربراہی کے ساتھ ساتھ ایکسپریس گروپ کے ڈسٹری بیوشن( یعنی اسکے چینلز کو مقامی کیبلز پر چلوانے کے ذمہ دار ملازم بھی تھے) کے طور پر ایک بھاری تنخواہ بھی اینٹھا کرتے تھے، ان کو بول ٹی وی نے اپنے ہاں ملازمت کی پیش کش کر دی اور وہ اپنے ساتھ اپنے تمام مکر و فریب کی پٹاری لے کر بول سدھار گئے۔ بول ٹی وی بوجوہ ابھی تک نہیں آ سکا، اس دوران اس ملک کے سب سے بڑے ’’جوہری‘‘ کی نظر اس ہیرے پر پڑ گئی اور یوں میر شکیل الرحمن صاحب ان کو منہ بولے داموں پر اپنے ہاں لے آئے اور’’ کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے ‘‘کے مصداق جناب سلمان دانش بھی جا کر جیو کی گود میں بیٹھ گئے۔ اور اب ہو رہی ہے ایکسپریس گروپ پرایسی چاند ماری کہ اﷲ تیری یاری۔

ایکسپریس گروپ کے اندرونی ذرائع کی اطلاعات کے مطابق جناب نعیم الدین صاحب بول جانے کے بعد نہ صرف ڈی جی میڈیا کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے بلکہ ان کو ایکسپریس گروپ کے پے رول سے بھی نہیں ہٹایا گیا اور ان کو ادارے کی طرف سے دی جانے والی وہ تمام مراعات جاری رہیں جو ان کو وہاں پر فرائض کی انجام دہی کے دوران حاصل تھیں اور شائد یہ ابھی تک جاری ہیں۔ ان اطلاعات کو ماننے کو دل نہیں چاہتا کیونکہ میر شکیل الرحمن کبھی بھی مشکوک وفاداری کے حامل گھوڑوں کی پشت پر ہاتھ نہیں رکھتے۔ پورے قضیے کی بس یہی ایک کڑی ہے جس کا پتہ نہیں چلتا۔

یہی اسباب ہیں کہ پاکستان میں جدید سائنسی طریقہ کار کی ماتحتی میں شروع کئے جانے والے تمام ٹی وی چینلز اس لئے ناکامی سے دوچار ہوتے رہے کہ ان کو جانچنے کے معیارات میں کجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور جو ان چینلز کے لئے ایمپائر بنے ہوئے تھے وہ کسی اور طرف دیکھ کر انگلی کھڑی کر رہے تھے۔ اب جعل سازی کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے۔ اب آپ ایسے تمام اینکرز پر نظر رکھیں جو سلمان دانش صاحب کی حمایت میں اپنے اپنے گلے پھاڑیں گے۔ یہ بھی وہی دھوکے باز ہوں گے جو سلمان دانش کی جعل سازی سے کسی نہ کسی سطح پر مستفید ہوتے رہے ہیں یا ہو رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟ رضوان رضی - جمعه 16 ستمبر 2016

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’...

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

بول ٹی کے حق میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی قرارداد منظور وجود - جمعرات 26 مئی 2016

سندھ اسمبلی کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی نے بھی بول میڈیا گروپ کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ بدھ کے روز ڈپٹی اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی ڈاکٹر مہر تاج روغانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صوبائی اسمبلی نے بول میڈیا گروپ کو غیر قانونی ہتھکنڈوں اور متنازع طریقوں سے جبراً بن...

بول ٹی کے حق میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی قرارداد منظور

پاکستانی میڈيا، سیاست دانوں کو لتاڑنے میں ایشیا میں سب سے آزاد وجود - جمعرات 21 اپریل 2016

پاکستان کو صحافیوں کے لیے ہمیشہ دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں ایک سے سمجھا جاتا ہے لیکن ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود جب معاملہ سیاسی معاملات کی کوریج کا ہو تو جتنی آزادی پاکستانی میڈیا کو حاصل ہے، اتنی ایشیا میں بہت کم ممالک کے پاس ہے۔ عالمی ادارے "رپو...

پاکستانی میڈيا، سیاست دانوں کو لتاڑنے میں ایشیا میں سب سے آزاد

ایگزیکٹ ایک ارب کا ٹیکس ہڑپ گیا: بول کے مخالف جیو اور ایکسپریس نے اس خبر کو کیوں دبایا؟ باسط علی - پیر 28 دسمبر 2015

سندھ ریونیو بورڈ کی انتظامیہ کی صریح غفلت کی وجہ سے صوبائی خزانے کو تقریباً ایک ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اس نے ایگزیکٹ سے 'سیلز ٹیکس آن سروسز' وصول نہیں کیا۔ مگر یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے، اصل کہانی اس سے کہیں زیادہ پُرپیچ ہے اور یہ ایگزیکٹ سے کہیں زیادہ سندھ...

ایگزیکٹ ایک ارب کا ٹیکس ہڑپ گیا: بول کے مخالف جیو اور ایکسپریس نے اس خبر کو کیوں دبایا؟

اکھیاں دی لالی رضوان رضی - اتوار 18 اکتوبر 2015

سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...

اکھیاں دی لالی

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز رضوان رضی - بدھ 07 اکتوبر 2015

ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام! رضوان رضی - منگل 22 ستمبر 2015

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے بنے بنائے دوستوں سے تعلقات خراب کرنے کی جس اعلیٰ صلاحیت سے نوازا ہے۔ اس کے بعد ہمیں وہ ’’بھلی لوگ ‘‘ جنتی معلوم ہوتی ہے ،جو گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں برداشت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس لئے آئندہ سطور اگر کچھ بزرگ دوستوں کو گراں گزریں تو ان سے پیشگی معذرت۔اس یقین د...

ایم آئی ٹی اور اس کا اعلیٰ مقام!

مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر