وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور، سہرا - قسط 1

جمعه 09 ستمبر 2016 دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور، سہرا - قسط 1

tulip glass for white wine

برطانوی راج سے ورثے میں ملی بیوروکریسی اپنی بناوٹ اور لالن پالن (ہندی میں پرورش اور نشو نما) کے حساب سے صلاحیت پسند Merit based غیر جانبدار Impartial اور لازماً انصاف پسند Fair ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے پچیس تیس برس تک تو اس کا بھی یہی عالم رہا جیسا کہ اُن کے پیش رو انگریز دور کے افسروں کا ہوتا تھا۔ لیکن 1973 کی انتظامی اصلاحات سے بات بگڑ گئی اور اب آپ کو اس میں سیاسی جاگیرداروں کے کم دار (زمینوں کے منشی) زیادہ اور افسر کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ صلاحیت پسندی، غیر جانبداری اور انصاف پسندی یہی وہ تین اوصاف حمیدہ ہیں جن کی وجہ سے بیوروکریسی بڑی حد تک ایک Formal Organization بن کر اپنے فرائض منصبی نبھانے کا وسیلہ بنتی ہے۔

کہنے کو تو کیا ہوا نہیں ہے۔ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ قواعد و ضوابط کے اس تنگ پوشی کے عالم بے لطف میں گھٹ کے رہ جاتی ہوگی جوئے تند و تیز۔ ایسا ہرگز نہیں کہ طاقت کے اس ٹیولپ جام(جس میں سفید شراب پی جاتی ہے ) میں بھی اختر حمید خان جیسے عوام دوست ( اورنگی پائلٹ پراجیکٹ) مسعود کھدر پوش جیسے کسان دوست اور ایماندار قدرت اللہ شہاب جیسے اہل سلوک، ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے باصلاحیت، دلیر اور غریب پرور مصطفے زیدی جیسے رنگ رنگیلے اور اوریا مقبول جان جیسے صاحب الرائے اور ایمان دار افسران اپنے ضمیر، مزاج کے حساب سے من مانیاں کرتے رہے اور مناصب کی مناسبت سے ڈٹ کر بہار جانفزا دکھاتے رہے۔

Akhtar Hameed Khan

اختر حمید خان


1973 ء کی اصلاحات کے بعد کیک کا بڑا حصہ فوجی ڈکٹیٹروں سے وابستہ اور اہل سیاست کے دامن عصیاں میں پناہ گیر افراد کو منتقل ہوا تو بیوروکریسی نے بھی اپنے بتدریج کم ہوتے معیار افسری عصبیت، سیاسی وابستگیوں اور لالچ کی لال چنریا پہنادی۔ ہم میمن گجراتی تو پاکستان کی بیوروکریسی میں ہندو اور عیسائیوں سے بھی کم تھے، لہذا تماشائے اہل کرم دیکھنے کا خوب موقع ملا۔

MASOOD_KHADAR_POSH

مسعود کھدر پوش


ہمیں گمان ہے کہ عبید اللہ علیم کا شعر ہے مگر غلطی کا احتمال ہوسکتا ہے ع

کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اک شخص

سو اس آئینہ خانے میں ہم نے دیکھا کہ مہاجر افسر کسی کا کام نہیں کرتے تھے۔ ننانوے قوانین آپ کے حق میں اور ایک مخالفت میں ہو تو وہ آپ کا کام نہ کرنے کے لیے اس ایک قانون کا سہارا لیں گے۔ اس کے برعکس اگر ان کا کام کہیں پڑ جائے توننانوے قوانین اس کام کی مخالفت میں ہوں اور ایک حق میں تو وہ آپ کو سجھاؤنی دیں گے کہ ا ن کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اس کا سہارا لیا جائے۔ پنجابی افسران عددی اکثریت کی باوجود جہاں تک ممکن ہوتا ہے سرکاری کاموں میں ضابطے کا اہتمام کرتے ہیں۔ معاشقہ کتنا ہی طویل اور بے تکلفانہ کیوں نہ ہو آخر میں نکاح کا اہتمام ضروری ہوگا۔ پٹھان افسر ہر کام بہت تکلف اور لحاظ سے کرتے ہیں۔ سرکاری کام سرانجام دیتے وقت بڑی سے بڑی قانون شکنی کرتے ہوئے بھی انہیں رازادری کا بہت خیال رہتا ہے۔ بلوچستان کے افسران کا ہم کیا کہیں۔۔ آتے آتے آئے گا تم کو خیال، جاتے جاتے بے خیالی جائے گی۔ دورافتادہ ہونے کا مطلب قانون کی پاسداری سے بھی مناسب فاصلہ ہے۔ وہاں کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی صاحب کے ہاں سے کوئین آف شیبا کے محلات کے خزانے نکلے۔ سندھ کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں دو طرح کے افسر ہیں سرکاری اور رواجی۔ رواجی افسر وہ ہوتے ہیں جو راجونی (عزیز و اقرباء کے درمیان غیر رسمی فیصلے جو جرگے کی نسبت کم Formal ہوتے ہیں) انداز میں علاقے، شخصیت، ماحول کو قواعد و ضوابط پر ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چیف منسٹر ہاؤس میں ایک طویل عرصے تک پنجابی یا مہاجر افسر کو اس لیے نہیں تعینات کیا جاتا کہ یہ اے ٹی ایم سے نکالی ہوئی رقم بھی گننے کے عادی ہوتے ہیں۔

mustafa zaidi

مصطفیٰ زیدی


تین قومیتوں سے متعلق افسران کا فرق آپ کو ان تین واقعات سے سمجھ میں آجائے گا۔

پہلا واقعہ سندھی افسر کا ہے۔

خاتون ڈیفنس کراچی میں اپنے بنگلے سے کار ریورس کرتی ہوئی نکال رہی تھیں کہ محلے کا کوئی مالی اس کی زد میں آگیا۔ پچھلا پہیہ پیر کی انگلیوں پر اس طرح گھوما کہ ایک آدھ انگلی ٹوٹ گئی۔ انہوں نے فوری طور پر پیسے دے کر دفتر کے کسی فرد کے ساتھ بہترین علاج کرایا۔ اس کی روپے پیسے سے مدد بھی کی۔ یہ سارا منظر کسی سپاہی اللہ دتہ نے دیکھا۔ وہ اپنے عزیز سے ملنے قرب و جوار میں کہیں موجود تھا۔ اُسی کم بخت نے تھانے جا کر سناؤنی دی ہوگی۔ اسی لیے چوری چھپے مقدمہ قائم ہوا۔ مالی سے شکایت پر چپ چاپ دستخط کرالیے گئے۔ وہ مجبور و لاچار کارندہ شرمندگی، احسان فراموشی اور ڈر کے مارے علاقہ ہی چھوڑ گیا۔ ضرب خفیف چالان میں ملزمہ کو بیرون ملک مفرور دکھایا گیا۔ عدالت سے سمن جاری ہوئے جو ان پر Serve نہ کیے گئے۔ قابل ضمانت وارنٹ عدالت سے آئے تو عین تاریخ والے دن سپاہی بنگلے پر آیا۔ دو سو روپے اس بھلے زمانے میں اس لیے لے کر ٹلا کہ تاریخ پر وہ آج ہی عدالت آئیں۔ خاتون ہمارے دوست کی عزیزہ تھیں انہیں کے ساتھ شفون کی دھانی ساڑھی میں عدالت آئیں تو سٹی کورٹ میں کیا وکیل، کیا پیش کار، کیا ملزمان۔ ۔ سب کے دلوں میں ایمان لرزہ بر اندام ہوگیا اور ایک پیر کے ہاتھ سے تو تسبیح ہی گر پڑی۔ وہ دونوں سیدھے ہمارے پاس آئے۔

قدرت اللہ شہاب

قدرت اللہ شہاب


انہیں عبدالغفور صاحب کی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ وہ علاقہ مجسٹریٹ تھے۔ تپے دار (پٹواری) سے شروع ہوئی ملازمت کا آخری برس تھا۔ دو سال پہلے ہی اسسٹنٹ کمشنر بنے تھے۔ مجسٹریٹ ہونے کے ناطے ضابطہ ٔ فوجداری کے فرسٹ کلاس اختیارات ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ہم نے ہی جاری کرائے تھے۔ سیکشن افسر دوست تھے۔ ہمارا نام بھی مستحقین اور حقداران اختیار کی فہرست میں تھا۔ اس احسانِ گمنام کی انہیں خبر نہ تھی۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چونکہ ہمارے مداح اور مشفق تھے لہذا ان کی لاء اینڈ آرڈر کی وقت بے وقت ڈیوٹیاں ہمارے کہنے پر، ان کے بڑھاپے اور سادگی اور ہر ڈیوٹی کے عوض پانچ سو روپے کی مالی خدمت کے عوض بہت نرم لگاتے تھے۔ عبدالغفور صاحب کو اپنے پانچ سو روپے جو اس جاں بخشی کے عوض اپنے بدین کے رواجی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دیتے تھے اتنا

موثر نہ جانتے تھے جتنی ہماری محکمانہ سرپرستی کو سمجھتے تھے۔ یوں وہ ہمیں محسنین کا درجہ دیتے تھے۔

ڈاکٹر ظفر الطاف

ڈاکٹر ظفر الطاف


تھرپارکر کے علاقے ڈیپلو سے تعلق تھا۔ ہم تینوں پہنچے تو عبدالغفور صاحب عدالت لگائے بیٹھے تھے۔ چونکہ ہم سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھے۔ انتظامی طور پر ان سے ذرا بلند سطح پر تھے لہذا ان کے نائیک (عدالت کا نائب قاصد جو آواز لگا تا ہے) کیا سپاہی سبھی ہی آگے پیچھے ہوئے۔ عبدالغفور صاحب کے ایما پر ان کا پیش کار کود کر نیچے آیا۔ چیمبر میں ہمیں بٹھایا اور منٹوں میں عدالت کے اطراف میں برف کی بالٹی لے کر منڈلاتے ہوئے پھیری والے سے تین بوتلیں پکڑ کرہمیں ملزمہ اور اس کے ساتھی کو پیش کردیں۔ عبدالغفور نے فی الفور عدالت برخواست کی چیمبر میں آئے اور کہنے لگے ہم نے بڑا ظلم کیا کہ ایس ڈی ایم ہونے کے باوجود اس طرف آئے بہتر ہوتا ہم انہیں کسی کو بھیج کر اپنے ہاں بلوالیتے۔ ماجرا سنا تو فائل منگوائی ایک نظر ڈالی اور کہنے لگے فائل آپ پھاڑیں گے یا ہم۔ ہم نے کہا ارے ارے سائیں یہ کورٹ فائل ہے۔ تو کہنے لگے’’ سائیں کار ایکسیڈنٹ کا معمولی کیس ہے کونسا بڑا کیس ہے ادھر مجیب الرحمن حرامی کو ملک توڑنے پر معاف کردیا تو بے چاری ادّی کو کیوں تکلیف دیں۔ ہماری عورتیں گھر چلالیتی ہیں یہ بھی کیا کم ہے کہ ابھی کار بھی ٹھیک سے چلائیں۔

فائل کا توجانے کیا انجام ہوا۔ مگر خاتون باعزت بری ہوکر، دوسری دفعہ بیاہ کر انگلستان منتقل ہوگئیں۔

عبدالغفور جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم میں آخری دفعہ ایک پولنگ اسٹیشن پر ملے تھے۔ رات کے وقت تک علاقے میں بجلی نہ ہونے پر پولنگ کے عملے سمیت تھانے جانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ عملہ تھانے جانے پر احتجاج کررہا تھا۔ ہم نے پوچھا تھانے کیوں جاتے ہیں؟ کہنے لگے فوجی صدر کا انتخاب ہے سائیں اس کا نتیجہ بھی تھانے میں ہی ٹھیک ہوگا۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر