وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری

هفته 03 ستمبر 2016 افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری

afghan-refugees

دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ جزیرہ العرب کے جنوب میں یمن کے مقام پر قائم قوم سبا کی تہذیب معلوم تاریخ میں دنیا کی چار بڑی اور طاقتور تہذیبوں میں شمار ہوتی تھی ان کی مضبوط معیشت کا دارومدار قوم سبا کے قدیم دارالحکومت مارب میں قائم پانی کا ایک ڈیم تھا جس میں سے قوم سبا نے بہت سی نہریں نکال کر اس تمام خطے کو آبپاشی کے ذریعے جنت کے باغات میں تبدیل کیا ہوا تھا۔ مضبوط معیشت کا انحصار اسی آبپاشی کے نظام سے منسلک تھا۔ اس قوم کے تجارتی قافلے بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ جزیرہ العرب میں شمال کی جانب سفر کرکے فلسطین اور شام تک جایا کرتے تھے۔ بے پناہ خوشحالی نے اس قوم میں نافرمانی اور اللہ سے بغاوت کی روش پیدا کردی۔ انہوں نے اللہ کی رحمت کی بجائے اپنے معاشی وسائل پر انحصار شروع کردیا جس کی پاداش میں ان کو سزا دینے کے لئے قدرت نے ان کی معاشیات پر اس طرح ضرب لگائی کہ مارب میں موجود عجوبہ روزگار پانی کا ڈیم منہدم ہوگیا۔ڈیم کی تباہی نے اس خطے کو آہستہ آہستہ سرسبز خطے سے ایک بے آب وگیاہ صحرا میں تبدیل کردیا۔دوسری مشکل یہ پیش آئی کہ یورپی منڈیوں کا وہ مال جسے بحیرہ روم میں بحری جہازوں کے ذریعے مصر اور پھر یہاں سے اسکندریہ کی بندرگاہ سے براستہ بحیرہ احمر یمن کی بندرگاہ، اوریہاں بھاری ٹیکس ادا کرکے اس سے آگے ہند تک پہنچایا جاتا تھا یہ سلسلہ انتہائی کم ہوگیا کیونکہ یورپ نے مال کی دور تک رسائی کے لئے متبادل راستے تلاش کرلئے تھے۔ تجارتی مال کے لئے متبادل راستوں کے دریافت ہونے نے قوم سبا کی رہی سہی معیشت کو بھی دیوالیہ کردیا اور یوں معاشی وسائل پر نازاں قوم سبا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔

سوویت یونین کی تحلیل کے سیاسی اور عسکری عوامل کچھ بھی ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کے میدان جنگ میں اسے گھسیٹنے کا بڑا مقصد اسے معاشی دیوالیہ سے دوچار کرنا تھا۔

جدید تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یورپ میں جب صنعتی ترقی نے معیشت کو عروج پر پہنچایا تو اسی ترقی کے بطن سے جنگی صنعت نے بھی جنم لے لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب آہستہ آہستہ بے خدا معاشرے میں تبدیل ہونے لگا جس کی ابتدا اس طرح کی گئی کہ رومن کیتھولک عیسائیت کی ناکامی کو جواز بناکرپہلے مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ قرار دیا گیا، اس کے بعد اللہ کے تصور کو انسانی زندگی کے ہر معاملے سے خارج کر کے ایک خالصتا مادی اور لادینی معاشرے کا قیام عمل میں لایا گیا۔مغرب کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی شہ رگ پر یورو۔ صہیونی گروہ نے اپنی گرفت مضبوط کرلی جس کا خمیازہ مغرب کے کروڑوں عوام کو پہلے جنگ عظیم اول اور اس کے بعد جنگ عظیم دوم کی شکل میں بھگتنا پڑا جس نے نہ صرف مغرب کو معاشی زوال کے دہانے پر پہنچا دیا بلکہ عالمی سیادت کا رخ لندن سے واشنگٹن کی جانب موڑ دیا گیا جس کے بعد نصف صدی مغرب کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں لگ گیے لیکن وہ برطانیا جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا سکڑ کر ایک جزیرہ نما تک محدود ہوگیا۔

سوویت یونین کی تحلیل کے سیاسی اور عسکری عوامل کچھ بھی ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کے میدان جنگ میں اسے گھسیٹنے کا بڑا مقصد اسے معاشی دیوالیہ سے دوچار کرنا تھا اور چشم عالم نے یہ نظارہ دیکھا کہ دنیا کے سب سے بڑے رقبے اور سب سے بڑی جوہری قوت کا حامل ملک سوویت یونین خود اپنے وزن تلے کچلا گیا اور وہ ماسکو جو کسی دور میں ایک عالمی قوت کا دارالحکومت تھا اب وہاں روسی عوام کی لمبی لمبی قطاریں محض ایک ڈبل روٹی کے حصول کے لئے لگنے لگیں اور وہ سوویت فوج جس کے احساس سے ایک دنیا کانپتی تھی اس کے بڑے بڑے کمانڈر روسی شہروں میں جوتے فروخت کرتے پائے گئے۔

اس ساری تمہید کا مقصد اس بات کو جاننے کی کوشش کرنا ہے جس میں اس وقت وطن عزیز کی معاشی اور سیاسی صورتحال گھری ہوئی نظر آرہی ہے۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف پاکستانی حکمرانوں نے پانی کے معاملے میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا اور بھارت کو کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر بند باندھنے کی چھوٹ دیکر اسے آبی جارحیت کی کھلی چھٹی دی تو دوسری جانب اسی بھارت سے بلا مقصد دوستی کی پینگیں بڑھاکر مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس میں بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے اپنے طور پر جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی اور جب پاکستانی وزیر داخلہ کی جانب سے بھارتی رویہ کا منہ توڑ جواب دیا گیا تو وزیر موصوف نے اسلام آباد سے فرار میں ہی عافیت جانی اور دہلی جاکر دم لیا اور اب وہاں پہنچ کر مقبوضہ کشمیر میں مزید بھارتی فوج روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کی اس ہٹ دھرمی کے پیچھے امریکا اور برطانیا سمیت عالمی قوتوں کی مرضی پوشیدہ ہے۔دوسری جانب موجودہ حکمرانوں کی سفارتی اور خارجہ پالیسی بالکل ناکام ہے معلوم نہیں اقتدار میں آنے کے لئے انہوں نے بڑی قوتوں کو کس قسم کی یقین دہانی کرائی ہے کہ آبی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے تناظر میں بھارت کے سامنے منہ کھولتے ہوئے ان کی زبانوں کو تالا لگ جاتا ہے۔

پاکستانی حکمرانوں نے پانی کے معاملے میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا اور بھارت کو کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں پر بند باندھنے کی چھوٹ دیکر اسے آبی جارحیت کی کھلی چھٹی دی۔

خطے کی نازک ترین صورتحال کے تناظر میں اس وقت حکومت نے افغان مہاجرین کی واپسی کا جو اعلان کیا ہے وہ قبل از وقت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جعلی شناختی کارڈوں کے اجراء اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات نے حکومت کو اس جانب دھکیلا ہے، خاص طور پر افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت اور ان کے سامان سے پاکستانی شناختی کارڈ کی برآمدگی کے بعد حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے، لیکن اس جانب قدم اٹھاتے ہوئے خطے کی نازک سورتحال کو بھی مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہیں بھارت اور کی پشت پر کھڑی عالمی قوتیں پاکستانی حکومت کے اس اقدام کو پاکستان کے خلاف ہی نہ استعمال کرنے لگیں۔اس میں شک نہیں کہ سوویت یونین کی افغانستان میں یلغار کے بعد سے افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں پناہ گزین ہوئی تھی، ابھی افغان مہاجرین کا بڑا حصہ واپس افغانستان واپس نہیں گیا تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکا نے منصوبہ بندی کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کردی جس کی وجہ سے مزید افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوگئے کئی دہائیوں سے پاکستان میں موجودگی کے دوران ان کی دو نسلیں پاک سرزمین پر پیدا اور جوان ہوئی ہیں اور لاکھوں افغان مہاجرین نے کے پی کے کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں اپنے بڑے اور چھوٹے کاروبار جما لیے ہیں جو اس وقت وطن عزیز کی معیشت کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لینڈ مافیا اور بھتہ خور عناصر کے منہ سے بھی رال ٹپک پڑی ہے کہ ان افغانوں کی مہنگی جائیدادیں اور کاروبار اونے پونے ہتھیا لئے جائیں۔صرف کے پی کے کے صحافتی ذرائع اس جانب واضح اشارہ کررہے ہیں کہ افغان مہاجرین کے کیمپوں پر ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کے لئے صوبے کی بااثر شخصیات بھی ملوث نکلی ہیں اور اب ہاؤسنگ اسکیم مالکان کی نظریں شمشتو کیمپ سمیت صوبے کے دیگر کیمپوں اور پوش علاقوں میں ان کی جائیدادوں پر ہیں۔ ذرائع کے مطابق وطن عزیز میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے افغانوں نے اب پاکستان سے مایوس ہوکر بھارت میں سرمایہ کاری کا سوچنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان جہاں پر ملی بھگت سے غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر سادہ لوح افراد کو لوٹا جاتا رہا ہے اب ان پراپرٹی ڈیلروں نے پھر سے نئے ناموں کے ساتھ بااثر شخصیات کی خدمات حاصل کرلی ہیں پہلے مرحلے میں ان نوسر بازوں نے اضاخیل مہاجر کیمپ میں تیس برس سے مقیم ہزاروں افغان مہاجرین کو توہین آمیز طریقے سے بے دخل کیا اور دریائے کابل کے کنارے اس مہنگے رقبے پر بجائے کوئی سرکاری منصوبہ شروع کیا جاتا ان افراد نے ہاؤسنگ اسکیمیں بنانی شروع کردیں۔ اسی طرح صوبے کے دیگر حصوں میں ایسے ہی کاروباری منصوبے شروع کرنے کے لئے افغان مہاجرین کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ رجسٹرڈ افغانوں اور غیر رجسٹرڈ افغانوں کو31 دسمبر تک ملک چھوڑ دینے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے کاروباری افغانوں کی قیمتی املاک پر بھی یہ مافیا نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ اس سارے معاملے میں وطن عزیز کی پولیس بھی کسی طور پر پیچھے نہیں۔ چاروں صوبوں میں جہاں جہاں افغان مہاجرین کے کاروباری سلسلے ہیں وہاں پر کئی جگہ پولیس بھی بھتہ وصول کررہی ہے۔ یہ سلسلہ پنجاب سے سندھ تک دراز ہوچکا ہے۔ کراچی سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ملیر پولیس نے مشہور زمانہ بندے مار پولیس ایس ایس پی راؤ انوار کی سرپرستی میں افغان بستیوں کو ظلم وستم کا نشانا بنانا شروع کردیا ہے۔ راتوں کو غریب افغانوں کو ان کے گھروں سے اٹھاکر تھانے منتقل کردیا جاتا ہے اور پھر رہائی کے بدلے ان سے ہزاروں روپے بٹورے جاتے ہیں۔اس وجہ سے روزانہ گرفتاریوں کے خوف سے ان بستیوں کے افغانوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں فٹ پاٹھوں پر راتیں گزارنا شروع کردی ہیں۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پولیس اہلکار افغانوں کے گھروں پر چھاپوں کے دوران میں نہ صرف خواتین سے بدتمیزی کرتے ہیں بلکہ ان کے گھروں سے طلائی زیورات اور دوسرا قیمتی سامان بھی لے جاتے ہیں۔ رشوت نہ دینے والے افغانوں کو فارن ایکٹ کے مطابق گرفتار کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے اس کے علاوہ ملیر پولیس کے اہلکار ان افغانوں کو یہ بھی دھمکی دیتے ہیں کہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ہے اور تمیں مقابلے میں پار کردے گا۔اسی خوف کی وجہ سے ان بے کس افغانوں کو پولیس کا ہر مطالبہ ماننا پڑتا ہے جس کی وجہ سے افغانوں کی بڑی بڑی آبادیوں میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ان افغانوں سے شناخت کی پڑتال کے لئے ان کے کارڈ لیے جاتے ہیں اور واپس کرنے کے لئے دو سے پانچ ہزار روپے تک کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ افغانوں کے زیرِ ملکیت پیٹرول پمپوں سے بھی اب پولیس مختلف حیلے بہانوں سے مفت میں ڈیزل حاصل کرتے ہیں۔ اعلی حکام یا اخبار والوں کو اطلاع دینے کی صورت میں جعلی مقابلوں میں مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔

اضاخیل مہاجر کیمپ میں تیس برس سے مقیم ہزاروں افغان مہاجرین کو توہین آمیز طریقے سے بے دخل کرکے اس مہنگے رقبے پر کوئی سرکاری منصوبہ شروع کرنے کے بجائے مہنگی ہاؤسنگ اسکیمیں بنانی شروع کردیں۔

اس قسم کی صورتحال کی اطلاعات ملک کے دیگر حصوں سے بھی آرہی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت یہ لاکھوں افغان اپنا سب کچھ پاکستان میں لٹا کرکسی نہ کسی صورت واپس افغانستان پہنچیں گے تو ان کے دل میں پاکستان کی کیا قدر ہوگی؟ کبھی ہم نے سوچا کہ کہیں یہ وہی صورتحال تو نہیں ہے جو بھارت اور امریکا بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کے خلاف افغانستان میں نفرت کے گہرے بیج بوئے جائیں۔

یہ افغانی پاکستانی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے تھے ان کے اس طرح اچانک واپس جانے کے بعد پاکستانی معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے۔ یہ کسی بھی عام سے ماہر معاشیات سے پوچھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے حکمرانوں اور کرپٹ بیوروکریسی نے جس انداز میں وطن عزیز کی اقتصادی جڑوں کو کھوکھلا کیا ہے، وہ پوری طرح آئندہ آنے والے دنوں میں اس قوم پر واضح ہوجائے گا۔ پانی کی کمیابی اور توانائی کے منصوبوں پر سیاست نے پہلے ہی اس قوم کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے اب رہی سہی کسر افغانوں کو اچانک اس ملک سے بے دخل کرکے پوری کی جارہی ہے۔ اس سارے معاملے میں حیران کن بات یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں یا اسلامی سیاسی جماعتیں جو کبھی افغانوں کا دم بھرتی تھیں، خاموشی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہی ہیں انہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ اس سے ملک کے معاشی اور سیاسی مستقبل پر کیا اثر ات مرتب ہوں گے۔


متعلقہ خبریں


افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ وجود - هفته 18 دسمبر 2021

حکومت نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت افغانستان پر اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اجلاس میں افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع نے ب...

افغان مہاجرین اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ

افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی،امیرخان متقی وجود - جمعه 12 نومبر 2021

افغان عبوری وزیرخارجہ امیر متقی نے کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، پاکستان اور افغانستان کے پاس بہتر تعلقات اور تعاون کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ا نہوں نے کہا کہ...

افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی،امیرخان متقی

کابل سے القدس تک محمد انیس الرحمٰن - پیر 03 اکتوبر 2016

سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...

کابل سے القدس تک

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں محمد انیس الرحمٰن - جمعرات 29 ستمبر 2016

عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں

لیڈراور کباڑیا محمد انیس الرحمٰن - هفته 24 ستمبر 2016

ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...

لیڈراور کباڑیا

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 18 ستمبر 2016

جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات محمد انیس الرحمٰن - منگل 16 اگست 2016

ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں محمد انیس الرحمٰن - جمعه 22 جولائی 2016

گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش محمد انیس الرحمٰن - بدھ 13 جولائی 2016

امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش

خیبر پختون خوا افغانیوں کا ہے،محمود اچکزئی کے بیان نے آگ لگا دی ! وجود - جمعه 01 جولائی 2016

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نےاپنے ایک انتہائی متنازع بیان میں خیبر پختونخوا کو "افغانیوں"کا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی کو، افغان مہاجرین کو ان کی ’اپنی ہی زمین‘ میں ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ایک افغان اخبار "افغانستان ٹائمز" کو انٹرویو دیتے ہو...

خیبر پختون خوا افغانیوں کا ہے،محمود اچکزئی کے بیان نے آگ لگا دی !

افغان مہاجرین کے عارضی قیام کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع! وجود - جمعرات 30 جون 2016

وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پاکستان میں مندرج افغان مہاجرین کے عارضی قیام میں مزید چھ ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی جو رواں ماہ 30 جون کو اختتام پذیر ہورہی تھی۔اب نئی توسیع شدہ مدت کے تحت پہلے سے من...

افغان مہاجرین کے عارضی قیام کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع!

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 26 جون 2016

گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر