وجود

... loading ...

وجود
وجود

میرے نسیم صاحب

بدھ 31 اگست 2016 میرے نسیم صاحب

ہالز انسٹیٹیوٹ

ہالز انسٹیٹیوٹ


نسیم صاحب میرے پیراکی کے استاد تھے۔کینٹ ریلوے اسٹیشن کراچی کے نزدیک ہالز انسٹیوٹ کے ریلوے کلب میں مجھے اور دیگر افراد کو بے حد معمولی معاوضے پر پیراکی سکھاتے تھے۔ ریلوے کا یہ شاہانہ کلب جنرل مشرف کے دور میں کسی پرائیوٹ پارٹی کو ایک نجی ہیلتھ کلب کے لیے دے دیا گیا۔اب بھی یہ اس کاروباری ادارے کی تجوری بھرے جارہا ہے۔

کراچی کینٹ اسٹیشن سے ملحق انگریزوں کا قائم کردہ یہ کلب بھی کراچی میں تعمیر ہونے والی دیگر عمارات کی ماننداپنے طرز تعمیر میں گوتھک اور بہت کشادہ بنایا گیا تھا ۔سندھ ہائی کورٹ کی عمارت کو چھوڑ کر انگریزوں نے کراچی میں جتنی بھی عمارتیں تعمیر کرائیں، اُن میں ایک بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ وہ کشادگی، پختگی اور شان و شوکت میں ایک اُداسی اور سنجیدگی کی مظہر ہوں ۔اس کے علاوہ ان کا ڈیزائن ہر طور برطانوی گوتھک طرز کا ہو۔ اداس مٹیالے کھردرے پتھروں سے بنی ہوئی ان عمارات میں مقامی کلچر کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ کراچی کی مشہور ترین عمارتیں یعنی ا یمپریس مارکیٹ، سندھ ہائی کورٹ کی عمارت ،ڈی جے کالج، این ای ڈی انجینئرنگ کالج، جہانگیر کوٹھاری پریڈ، میری ویدر ٹاور، سندھ کلب، کراچی جم خانہ، بوٹ کلب، سینٹ پیٹرک کیتھڈرل، کراچی جیل، ڈینسو ہال، خالق دینا ہال، کے ایم سی کی ایم اے جناح روڈ والی عمارت ، سندھ مدرستہ الاسلام ، چیف کمشنر ہاؤس جو بعد میں گورنر جنرل ہاؤس اور اب گورنر ہاؤس کہلاتا ہے۔ سبھی اس کی آج بھی گواہی دیتی ہیں۔

پہلی عمارت ان حاکمین دور اندیش نے نیپئر بیریکس بنائیں، یہ ان دنوں ہیڈ کوارٹر پانچ کور کا مرکزی دفترہے، اب لیاقت بیریکس کہلاتا ہے کیونکہ اسے سندھ کی فتح کے بعد 1847 میں نواب بہادر چارلس نیپئر بادشاہ سندھ نے تعمیر کرایا تھا ۔میٹروپول ہوٹل سے آگے مقامی باشندوں کے لیے ائیرپورٹ تک کا علاقہ Out of Bounds تھا ، انہیں آگے آنے کی اجازت نہ تھی۔

ہمارا خیال تھا کہ فوجی سربراہ ہونے اور دہلی کے مہاجر ہونے کے ناطے جنرل پرویز مشرف تاریخ کا بہتر اداراک رکھتے ہوں گے۔ مگر اہلیان اقتدار کا پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بہت سے ناکام رشتہ دار دوست اور کاسہ لیس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ سرکار کا مال ان کی سرپرستی میں بہت بے رحمی سے لوٹنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔اتنی عمدہ سرکاری عمارت لاہور کے ایک پرائیوٹ ہیلتھ کلب کو یوں کوڑیوں کے مول منتقل ہوجانے کا ریلوے کے بڑے افسران کو بہت قلق تھا۔

نسیم صاحب کا تعلق بہار شریف کے قصبے مدھوبانی سے تھا۔وہاں سے والدین نے مشرقی پاکستان اور پھر سقوط کے بعد مغربی پاکستان کی راہ لی۔ نسیم صاحب لائنر ایریا میں کہیں رہتے تھے۔پیراکی کی مہارت انہوں نے مشرقی پاکستان میں حاصل کی انہیں پورٹ ٹرسٹ میں چھوٹی موٹی نوکری مل بھی گئی تھی مگر چونکہ طبیعت ہمہ وقت زود رنج اور خود داری سے لدی پھندی رہتی تھی۔امریکاکی پین اسٹیٹ یونی ورسٹی میں ہماری سوئمنگ کی استاد ان کی اولمپک ٹیم کی کوچ چیکی نیلسن تھی۔اسی نے ہمارا داخلہ سوئمنگ فار بگنرز سے Adaptive Swimming کی کلاس میں کرایا ۔ ہم نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو کہنے لگی :خوف بھی ایک تعلیم ہے۔اسے ہم شعوری طور پر پروان چڑھاتے ہیں۔پانی میں ڈوب جانے کا خوف ایک Acquired Fearہے۔جس طرح اسے رفتہ رفتہ اختیار کیا گیا ہے اسی طرح اسے بتدریج Un-learn بھی کرنا ہوگا۔آؤ تمہیں میں ساتھ کے کمرے میں لے جاؤں۔جو لڑکی یا لڑکا تمہیں اچھا لگے اس کا نمبر نوٹ کرلو۔ یونی ورسٹی کی جانب سے وہ تمہارے لیے ٹیچنگ اسسٹنٹ مقرر ہوجائے گا۔ سوئمنگ پول کی عمارت میں داخل ہونے سے شاور لے کر گھر واپس جانے تک تمہاری حفاظت اور تربیت میں معاونت اس کی ہی ذمہ داری ہوگی۔

ہم نے پوچھا مکالمے سے زیادہ نگاہِ اول پر کیوں زور ہے؟ کہنے لگی۔ آنکھ جھوٹ نہیں بولتی۔نفسیاتی طور پر Blink Decision پہلی نگاہ کا فیصلہ ہی سب سے بہترین فیصلہ ہوتا ہے۔یہ فیصلہ شعور اور لاشعور کا Sum -Total ہوتا ہے۔ میں نے اور دوسرے ساتھیوں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے پانچ نمبر والی ڈورتھی اپنے شعور اور لاشعوری ادراک کا سم ٹوٹل لگی توچیکی نے ایک دھیمی سی مسکراہٹ سے کہا You have a good eye۔وہ ہمارے طالب علموں والے نٹنی کمیونٹی سینٹر پر بھی اکثر آتی تھی۔مزاجاً بالکل عبدالستار ایدھی صاحب کا زنانہ ایڈیشن تھی۔ نگاہوں اور مزاج کی نرمی ایسی کہ آپ کو لگے کہ کسی نے آپ کو ڈھاکا ململ کے تھان میں لپیٹ دیا ہو۔ قیام پاکستان کے بعد تک ڈھاکا ململ کی بنُّت ایسی نرم اور شاندار سمجھی جاتی تھی کہ پورا تھان آپ ایک انگوٹھی سے گزار سکتے تھے۔کلاس کے آغاز میں ا ستانی جی نے اعلان کیا کہ سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر آج کوئی پانی میں نہیں جائے گا سوائے میرے۔میری باتیں غور سے سنو!

سب سے پہلے اپنے بدن کو دیکھو۔صرف اپنے بدن کو۔ڈورتھی، کولین، جوزف یا ٹامس کے بدن کو نہیں میرے بدن کو بھی نہیں دیکھنا، ویسے میرا بدن بھی دیکھنے میں بُرا نہیں۔اپنا بدن دیکھو اور پول کو دیکھو۔پھر سچ بتاؤ کہ دونوں میں سے کونسا بدن بڑا ہے تمہارا یا سوئمنگ پول کا

تو پہلاسبق یہ ہے کہ چھوٹے بدن کو یعنی تمہارے بدن کو پانی کے بڑے بدن سے الجھنا یا لڑنا نہیں چاہیے۔اس کے ساتھ بالکل ایسے ہی رہو جس طرح امریکاکے ساتھ، میکسیکو، پورٹوریکو اور کینیڈا رہتے ہیں۔اس پر ایسے لیٹو جیسے واٹر بیڈ پر لیٹا جاتا ہے۔ جب پانی میں ہو تو اس میں اسی سکون سے رہو جیسے عبادت گاہ میں ہوتے ہو۔یہ سبق نمبر ایک ہے۔ دوسرا سبق پانی کے اندر سانس باہر نکالو )(Exhale) پانی کے باہر سانس اندر لو(Inhale)۔انگریزی زبان میں بہت غلطیاں ہیں ایک بڑی غلطی Death by Drowning(ڈوب کر مرنے کی ہے)۔پانی بہت پاکیزہ وجود ہے۔ کائنات نے اسے پاکیزگی کا سب سے بہترین ذریعہ بنایا ہے۔وہ بھی جو روح کو پاکیزہ بناتا ہے، اسے پہلے بدن کو پانی سے پاکیزہ بنانا ہوتا ہے۔وہ تو کسی مردہ کو اپنے اندر رکھتا ہی نہیں، مردہ ہے تو چاہے وہ وہیل مچھلی جتنا قوی ہیکل نہ ہو پانی اسے کنارے پر لا پھینکے گا۔ قدرت نے پھیپھڑوں کی صورت میں تمہارے بدن میں ایک لائف جیکٹ رکھ دی ہے جب تک اس میں آکسیجن رہے گی تم تیرتے رہوگے۔ آکسیجن کی جگہ تم نے ہنگامہ آرائی کے دوران پانی پھیپھڑوں میں سمیٹ لیے تو سمجھ لو مرگئے۔چیکی کے بتائے اسباق سیکھ کر تین ماہ ہوئے تو کورس ختم ہوگیا۔اس نے کہا تم میرے ساتھ ایک سال اور رہتے تو میں تمہیں مقابلے میں فلوریڈا میں اوکرا وہیلز اور شارک کے ساتھ تیراتی۔ہم نے کہا آپ ہمارا مقابلہ اتنی بڑی مچھلیوں سے کرانا چاہتی ہیں تو کہنے لگی Size is a matter of perspective (سائز تو نقطۂ نظر کی بات ہے )کچھ مرد بھی گولڈ فش کی طرح تیر سکتے ہیں۔ پاکستان جاکر تیراکی جاری رکھنا۔ تمہیں صرف تین ماہ اور تربیت کی ضرورت ہے۔

اسی سلسلہ نظامیہ میں تربیت کی ہوس تھی۔ ٹوٹے سلسلے کو جوڑنا تھا کہ نسیم صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی ۔وہ وہاں ریلوے کلب کی جانب سے سوئمنگ پول پر متعین تھے۔یہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ وہ پینتالیس سال کی عمر میں ذرا آنبونسی سے اولمپک میں اودھم مچانے والے امریکی پیراک مائیکل فیلف لگتے تھے مگر ان کا تراشا ہوا بدن ،چال میں سیاہ فام رے پرز Rappers والا مستانہ لوچ جیسے امریکا کا مقتول ریپر Tupac Shakur ہوں، مزاج کا دھیما پن، صوفیانہ بے نیازی اور طالب علموں پر جان نچھاور کرنے والے اوصاف کی وجہ سے وہ اپنے شاگردوں میں بہت مقبول تھے۔

rapper

مارچ کا مہینہ شروع ہوتا تو وہ بہت خوش ہوتے۔ دوپہر سے رات گئے وہ کلب کے پول پر اور دن میں وہ چند ایک بیگمات کو پرائیوٹ ٹیشونز دینے چلے جاتے تھے۔ اصل میں ان کو کچھ بہتر مشاہرہ گھریلو سو ئمنگ پول والوں سے ملتا تھا ۔ ڈیفنس کے وسیع و عریض رقبے میں بروقت آمد و رفت کا سہارا ایک پرانی یاماہا 80 موٹر سائیکل تھی۔مارچ سے اکتوبر تک تک اس آمدنی سے ہی ان کا گزارا ہوتا تھا۔ ایک بیوی ، بیٹا اور بیٹی تھے۔بچے پڑھتے تھے۔باقی پانچ ماہ وہ کچھ نہیں کرتے تھے ۔ہم نے ان کے بدن پر ایک سرخ رنگ کی ٹی شرٹ اور چیک کی ایک شرٹ ، ایک سیاہ پتلون اور بلیو جینز کے علاوہ کوئی پانچواں کپڑا نہیں دیکھا۔

موٹر سائیکل خراب ہوجائے تو ہم ہی بنواکر دیتے تھے۔ جہاں سے سہولت ہو۔ لیاقت آباد میں ہماری بہت دہشت تھی۔ علاقے میں کئی ایسے افراد ہوتے تھے جو قربت شاہ ، امن کمیٹیوں میں شامل اور علاقے میں معتبر سمجھے جانے کی وجہ اس طرح کی خدمات بطریق احسن سرانجام دیتے تھے۔ایسا جب کبھی مرحلہ ہوتا اور ان کی موٹر سائیکل بن جاتی تو نسیم صاحب سر جھکا کر بہت خجالت سے کہا کرتے تھے۔سر میں آپ کو بہت تنگ کرتا ہوں، اﷲ نے چاہا تو آئندہ اس کا موقع نہیں دوں گا۔ میں انہیں تسلی دیتا کہ وہ میرے اُستاد ہیں۔ بڑے اور طاقتور آدمیوں کا ساتھ سانپ اور بچھوؤں کا ساتھ ہے۔ان کم بختوں کو پیار میں کبھی کبھی پنجابی زبان کے حساب سے چونڈی وڈھنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ ہوس کے مارے جوتیوں سمیت دیدوں میں گھس آتے ہیں۔ہماری ہرزہ سرائی سُن کر نسیم صاحب سر کھجاتے ہوئے کہتے، آپ آدمی بہت اچھے ہیں مگر میری سمجھ میں آپ کی باتیں نہیں آتیں۔

ایک دن بطور ایس ڈی ایم کے سٹی کورٹ میں انکوائری جاری تھی۔ انکوائر ی کا نشانا کراچی کے ایک بڑے رہزن ڈی ایس پی تھے۔ کسی ایسے خرانٹ سیاست دان سے سینگ لڑا بیٹھے تھے جو اُن کی نوکری اور جان دونوں ہی کے درپے تھا۔ اُن کی آمد سے پہلے مجھے میرے مشفق و مہرباں آئی جی افضل شگری صاحب کا فون آگیا تھا۔ وہ مجھے سمجھا رہے تھے کہ جس سیاست دان نے یہ سارا اودھم مچا کر وزیر اعظم سے انکوائری آرڈر کرائی ہے ۔ وہ علاقے میں اپنی دہشت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ تمہارا نام اس بڑی میٹنگ میں چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری نے بطور انکوائری افسر تجویز کیا تھا۔شگری صاحب بہت ایماندار ، کشادہ دل اور نپے تلے نقطۂ نظر رکھنے والے افسروں میں شمار ہوتے تھے۔ میرے مربی اور گرو ڈاکٹر ظفر الطاف اکثر کہتے تھے کہ شگری اچھا آدمی تھا پولیس میں ضائع ہوگیا۔عدالت کھلنے سے بھی پہلے یہی ڈی ایس پی برگ خفیف بنے میرے ریڈر کے پاس بیٹھے تھے۔ہماری ستم آشنا طبعیت کی شہرت انہیں اپنے بہنوئی افسر سے مل چکی تھی۔

اس اثناء میں ہمارا نائب قاصد جسے عدالتی نظام میں نائیک کہا جاتا ہے کمرے میں لجاتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ ایک صاحب ہیں نسیم نام بتاتے ہیں بہت پریشان لگتے ہیں۔ جلدملنا چاہتے ہیں۔استاد محترم آئے تو حلیہ بیرنگ تھا گال ایک طرف سے سوجا ہوا تھا۔ آنکھ بھی کچھ بند سی ہوئی تھی ۔بتارہے تھے کہ سولجر بازار کے علاقے میں تین لڑکوں نے پستول کا دستہ مار کر ان سے موٹر سائیکل چھین لی ہے ۔ چہرہ اسی لیے سوجاہوا ہے۔ کل سے وہ کافی تھانوں کا چکر لگا چکے ہیں۔کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔

سٹی کورٹ میں نظارت کا محکمہ ان دنوں ہمارے دوست انصاری کے پاس تھا ۔ اس محکمہ میں پولیس کی جانب سے برآمد کردہ مال مسروقہ و گم شدہ رکھا جاتا تھا۔مقدموں کے فیصلے پاکستان میں کس نے دیکھے ہیں۔ یہاں جمع شدہ مال میں سے حاصل کی ہوئی پر ہاتھ صاف کرکے سستے داموں کاروں اور موٹر سائیکلوں کا مالک بننا بہت آسان تھا۔

نظارت میں مال مسروقہ کی بازیابی کے حوالے سے چند برسوں سے لوٹ مچی ہوئی تھی۔کوئی چوری کی گاڑی لے اڑتا تھا تو کوئی موٹر بائیک۔ ہر بڑے آدمی کو کم داموں اپنے ملازمین کے لیے موٹر سائیکل کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے یہی آسان راستہ دکھائی دیتاتھا۔ حلوائی کی دُکان پر دادا جی کی فاتحہ دلانا یوں بھی ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔آٹھ سو، نو سو روپے کے عوض ملازم موٹر سائیکل کا مالک بن جاتا تھا۔ سپر داری کے لیے ضابطہ فوجداری کا قانون 516-A بلا دریغ استعمال ہوتا تھا۔نظارت اور عدالت کو یہ لکھ کر دینا پڑتا تھا کہ مطلوبہ کار یا سواری درخواست دہندہ کو سپردگی نامے پر دے دی جائے ۔ٖفیصلے کی صورت میں عدالت کا حکم ہر حال میں لاگو ہوگا۔عدالت کو حکم دینے کی کب جلدی تھی کہ اب ہوتی۔یوں چوری کا مال قانونی طور پر باپ کا مال بن جاتا تھا۔نادر کو چند دن پہلے ہی صدر غلام اسحق صاحب کے پرنسپل سیکرٹری فضل الرحمان کا خود فون آیا تھا کہ میرے دو عدد رشتہ داروں کو سستی قیمت پر موٹر سائیکل درکار ہیں۔انکار ہوا تو بہت ناراض ہوئے ۔انصاری صاحب کو تبدیل کراکے اپنے رشتے داروں کی دل جوئی کی۔ موٹر سائیکلیں دلوا کر ہی دم لیا تھا۔ بات ٹھنڈی ہوئی تو ڈی سی صاحب نے یہ کھاتا پھر ایماندار پرانے افسر کے سپرد کردیا۔

ایک پرانی یاماہا موٹر بائیک جس کی قیمت بمشکل پانچ ہزار ہوگی، اس کے لیے ہمارے اُستاد بہت پریشان تھے۔وہ کہہ رہے تھے مارچ ختم ہورہا ہے ۔ میری ٹیوشنوں کا کیا ہوگا؟ میرا اور بچوں کا گزارا کیسے ہوگا؟مجھے میری سائیکل تلاش کروادیں۔

پیش کار چشتی نے بالآخر تجویز دی کہ وہ ڈی ایس پی صاحب کے ساتھ پانچ سو پچپن چلے جائیں (صدر میں سی آئی اے کا رسوائے زمانہ دفتر)۔ہمارے جذبات اور استاد کی دل جوئی کی خاطر ڈی ایس پی صاحب نے دو گھنٹے تک وائرلیس پر موٹر سائیکل کی گمشدگی اور بازیابی کے بارے میں مختلف تھانوں کا ناک میں دم کیے رکھا مگر کامیابی نہ ہوئی۔مسئلے کے فوری حل کے لیے تین عدد بہترین موٹر سائیکلیں انہوں نے سپاہیوں کے ساتھ ہماری کورٹ بھجوایں کہ اپنی سواری کی دستیابی تک نسیم صاحب جو پسند کریں وہ ان میں سے رکھ لیں۔ یہ سب کی سب نسیم صاحب کی موٹر سائیکل سے ہزار گنا نئی اور اچھی تھیں۔ ایک تو ایسا لگتا تھا بمشکل دو ماہ پرانی تھی ۔ ڈی ایس پی کا بندہ ٔخاص ہم دونوں کو قائل کرنے کے لیے بتانے لگا کہ ڈکیتی کرتے ہوئے ڈاکو کے پاس سے ملی تھی ۔ اس کی جعلی نمبر پلیٹ تھی۔ ڈاکو بھی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ یہ موٹر سائیکل سی آئی اے کا کوئی سپاہی چلا رہا تھا۔نسیم صاحب کے محتاط رویوں کو پیش نظر رکھ سپاہی کو بہلا پھسلا کر انہوں نے اسے بھی روانہ کردیا تھا۔وہ اسے رکھ لیتے تو سی آئی اے کے مال خانے سے اسے دوسری عمدہ موٹر سائیکل عطا کردی جاتی ۔ تیسری موٹر سائیکل کو ہم نے قانونی موشگافیوں کے حساب سے SAFE جان کر بہت ضد کی کہ نسیم صاحب رکھ لیں۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نظارت کے بارے میں ہم سے تفصیلی معلومات حاصل کرتے رہے۔ اُن کے چہرے پر مال مسروقہ اور اس کی بندر بانٹ کے حوالے سے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات آئے۔ فرمانے لگے ’’صاحب یہ تو میرے جیسے غریبوں کا مال ہوا جو میں اور دوسرے کھارہے ہیں۔ نہیں صاحب میں چوری کا یا گم شدہ مال نہیں لوں گا۔موٹر سائیکل شیطانی چرخہ ہے زندگی موت کا کیا بھروسا ،اس کو چلاتے ہوئے موت آجائے تو میں اﷲ کے پاس چوری کی سواری پر سوار ہوکر نہیں جاؤں گا۔ آپ کوشش کرکے میری موٹر سائیکل ڈھونڈ دیں۔

دو ہفتے بعد کہیں سے اطلاع آئی تو میں اور میرا پیش کار بھاگم بھاگ جناح ہسپتال کے مردہ خانے میں پہنچے ۔مردہ خانے کے باہر کوئی نہ تھا ۔ذرا دیر میں کوئی جمعدار سرکاری گاڑی دیکھ کر آگیا ، ہاتھ میں چائے کا گلاس پکڑے اور تھیلی میں کیک پیس لیے وہ بتا رہا تھا کہ گیارہ بجے وہ کسی کے ساتھ گھر سے اسی کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نکلے تھے۔ منی بس نے ٹکر ماردی۔ اس غریب کاموٹر سائیکل اور وہ خود تو بالکل محفوظ رہے البتہ پچھلی نشست پر براجمان نسیم صاحب کو منی بس کے دروازے سے لگا لوہے کا مضبوط ڈنڈا سر کے پیچھے اس زور سے لگا کہ وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔

مردہ خانہ کی تازہ دھلی سنگ مرمر کی سلیب پر ان کا تراشا ہوا بدن ایک چادر سے ڈھانپ ہوا رکھا تھا اور چہرہ ایسا ہی جیسا نفس مطمئنہ کا ہوتا ہے۔ مجھے گمان ہے اور میری دعا بھی ہے کہ ان کی روح بھی اپنے اعلیٰ اوصاف کے باعث جنت الفردوس میں رضائے الہٰی سے چال میں سیاہ فام رے پرز Rappers والے مستانہ لوچ ، کندھے پر صوفیانہ بے نیازی کا اسٹریو لادے جب داخل ہو اوردربان میں فرشتہ رضوان انہیں دیکھے تو کہے Ma Buddy ya finally here.۔(میرے دوست تم آخر کا رپہنچ ہی گئے)۔

tupac shakur


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر