وجود

... loading ...

وجود
وجود

بائی چانس

اتوار 28 اگست 2016 بائی چانس

indira-gandhi

سال 77 ماہ اکتوبر کے دم توڑتے ایام تھے۔اسلام آباد کی خنکی میں ایک کوٹ یا سینٹ مائیکل کا سوئٹر پہن کرہمارا سول سروس کا دوست احمد حسین باجوہ جسے ہم کوتاہ قد ہونے کے باعث نکاّ باجوہ کہتے تھے۔ وہ بھی خود کو اداکار راجیش کھنہ سمجھنے پر آمادہ ہوجاتا تھا۔ اس وقت وہی مشہور ہیرو تھے۔ جنرل ضیاالحق خیر سے قوم سے نوے دن میں انتخابات کرانے کا اپنا پہلا وعدہ توڑ چکے تھے۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ آب پارہ سے کچھ پرے ایم این اے ہاسٹل میں ہم نووارد آٹھ دس افسران کو سر چھپانے کا آسرا ہوگیا تھا۔ہر دوپہر ہم جمع ہوجاتے تھے کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھاتے۔ گھنٹوں بحث کرتے اور کم تنخواہ میں خوش رہتے تھے۔

ایک دن ہم پانچ افسر دوپہر کو جمیل کے پاس پہنچے۔ خیال تھا کہ کھانا کھائیں گے اور میلوڈی سنیما میں فلم دیکھیں گے۔ وہ وزارت مذہبی امور میں سیکشن افسر تھا۔مقابلے کے امتحان کے بجائے سیاسی بھرتی تھا،نکالے جانے کے خوف سے ان دنوں اسلام آباد کی گمنام بیوروکریسی کا حصہ بن گیا تھا ورنہ اس کی منزل تو ایف آئی اے تھی۔بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے اس میں وہ اکڑ فوں نہ تھی کیوں کہ اس کے سیاسی مہربان و مربی خود بھی دم دبائے بھاگے پھرتے تھے۔ ان دنوں وزارت مذہبی امور کا دفتر ایک ایسے بنگلے میں تھا جو بمشکل دو کنال کا اور نسبتاً ایک کم ٹونی علاقے میں تھا۔

جمیل اس دوپہر ہراساں اور سر پکڑے بیٹھا تھا۔وزارت خارجہ نے اسی صبح حضرت امیر خسرو کے عرس کے لیے بھارت کی منظوری کی اطلاع دی تھی۔ یہ منظوری اس حاکمانہ اصرار کے ساتھ سی ایم ایل اے یعنی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (C.M.L.Aجنہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کا یونس پنجابی میں کملا بمعنی پاگل کہتا تھا) کی جانب سے موصول ہوئی تھی کہ چونکہ مارشل لا لگنے کے بعد یہ پہلا خیر سگالی وفد ہوگا لہذا اسے ہر قیمت پر جانا چاہیے۔وقت کی کمی کو بہانہ نہ بنایا جائے۔ پچھلے سال سے موجود درخواستوں کی وجہ سے پرائیوٹ ممبران جن کی تعداد ساٹھ کے قریب بنتی تھی انہیں اطلاع دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اصل مسئلہ یہ تھا کہ ان کے لیے سات آٹھ سرکاری افسرانِ رابطہ کہاں سے مہیا کیے جائیں۔محکموں کو لکھا جائے تو بہت دیر ہوجائے گی۔

ریلوے کے پختون افسر شفیق نے تجویز پیش کی کہ ہفتے بھر کی بات ہے۔اگر وزارت خرچہ اٹھائے تو افسرانِ رابطہ تو اس کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اس خرچے میں آج کا کھانا اور فلم بھی شامل ہوگی۔میکن جو ہم سب میں جگاڑو تھا اس نے جمیل کو سجھاؤنی دی کہ سیکرٹری صاحب کے پاس ہمارے ناموں کی منظوری کا نوٹ بناکر لے جاؤ۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے نام ڈی ۔ او لیٹر بناکر سیکرٹری کا نام تو جانے کیا تھا مگر انہیں این ایچ جعفری ہونے کے ناطے سب ہی افسران Never Happy, Never Healthy, Never Helpful جعفری کہتے تھے۔بہت تگ و دو کے بعد پتہ چلا کہ ان کا اصل نام نور الحسن ہے ۔بہت قالین طبع ( یہ اس پیاری سی ریسرچ افسر چن جی کی اصطلاح تھی جس کی اسکالرشپ پر بیرون ملک روانگی وہ دو دفعہ مسترد کرچکے تھے )اکاؤنٹس گروپ کا ہونے کے ناطے ڈی ایم جی والے ان سے بہت دل گرفتہ اور رنجور رہتے تھے۔پانچ دس اعلی عہدوں پر وہ کسی نان ڈی ایم جی افسر کی تعیناتی جس میں چیف سیکرٹری، سیکرٹری فنانس، پرنسپل سیکرٹری صاحبان اور خود سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا عہدہ شامل تھا، ایسے ہی سمجھتے تھے جیسے مسجد میں کسی سور کا داخل ہوجانا۔

این ایچ جعفری فائلوں پر ایسے پھونک پھونک کر قلم چلاتے جیسے غریب نابینا فقیر ریز گاری گنتا ہو۔ سیکریٹری صاحب نے منظور کردیا اور خط پر بھی دستخط کردیے تو مذہبی امور میں تعینات پختون جوائنٹ سیکرٹری صاحب کو اس سلسلے میں ہماری تجویز پر شفیق کے ذریعے اعتماد میں لیا گیا کہ وہ فون پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں تعینات خفیہ ایجنسی والے پختون برگیڈئیر فضل کریم سے این ایچ سے منظوری لے کر نوٹیفکیشن جاری کردیں۔خط کل صبح دستی طور پر مل جائے گا۔ہم اس نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد لاہور پہنچ گئے کہ ہندوستان روانہ ہوجائیں۔

لاہور میں ہماری ایک عزیزہ کو اصرار ہوا کہ فیروزہ ان کی بچپن کی دوست ہے۔بے چاری کو جاپانی کرنکل شفون کی ساڑھیوں کا بہت شوق ہے وہ ہم لے جائیں۔بے چاری کو تازہ طلاق ہوگئی ہے۔بہت اداس ہے۔دیکھو گے تو دیکھتے رہ جاؤگے ایسی حسین ہے۔تازہ مطلقہ عورتوں کے متعلق سیانے کہتے ہیں کہ ان سے ذرا بچ کر رہا کرو یہ Bounce Back پر ہوتی ہیں اور بقول فراز ع

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہوگئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہوگئے

ہم نے جمیل کو یہ بتایا تو اس کے دماغ میں یہ کاروباری نکتہ آیا کہ کسٹم سے بچنے کے لیے ان سادہ لوح زائرین کے سامان میں ایک ایک کرکے بیس پچیس جاپانی سلک اور شفون ساڑھیاں یہ سمجھا کر رکھ لیتے ہیں کہ یہ مزار کے لیے چڑھانے کی سرکاری چادریں ہیں۔عرس والے دن وہ ان سے لے کر چڑھادے گا۔ چادریں دہلی میں بیچ کر عیاشی کریں گے۔ کراچی سے آئے ہوئے ایک آدھ زائر نے اعتراض کیا تو اس نے یہ کہہ کر اسے ڈرایا کہ اس کانام آئندہ کسی وفد میں شامل نہیں کیا جائے گا کیوں کہ وہ گفتگو میں بہت بے احتیاط ہے اور زیارتوں سے زیادہ فلمیں دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہے۔اس کی بیگم کے بکس میں تین ساڑھیاں بطور چادر دیکھ کر کسٹم والے نے اعتراض کیا تو بیگم پھٹ پڑی اور جتلانے لگی ’’ اے لو کیا بولی جاریا ہے سمجھ نہیں رہیا کہ جو ہم خود پہنیں وہی مزار پہ چڑھاویں۔ـ‘‘

روانہ ہوئے تو مرحلہ بہت آسان تھا۔امرتسر تک بس لے گئی۔ دہلی جانے کے لیے ٹرین میں سوار ی کے مرحلے میں یونس کو پلیٹ فارم پر جو دو سکھ ملے وہ بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تھے۔اسے رلاتے رہے کہ ان کے خوابوں کا آج بھی ہر حوالہ صرف ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا ٹوبہ واقعی اتنا اچھا قصبہ ہے تو کہنے لگا کہ نہیں لعنت بھیجو ۔رونا اس بات پر آیا کہ تیس سال ہونے کو آئے مگر اس طرف کے پنجابیوں نے بھی Growکرنا چھوڑ دیا ہے۔

پرانی دلی میں ہمیں ایک پرانے سے کیمپ میں ٹہرایا گیا۔نگرانی کے لیے بھارت کے جو افسر خفیہ متعین کیے گیے تھے۔انہوں نے اپنا تعارف مہیت شکلا فرام چندی گڑھ کہہ کر کرایا تو سرگودھے کے سکندر صاحب نے اس سے پنجابی بگھارنا شروع کردی۔جس پر وہ سلیقے سے دامن چھڑاکر ایک طرف ہوگئے۔شام کو جب ہم دوست بستی نظام الدین کھانے کے لیے جارہے تھے تو وہ بھی ہمیں ٹیل (Tail) کررہے تھے۔ جب نگاہ پڑی تو ذرا لجانے لگے۔ہم نے سکندر صاحب کو بتادیا تھا اپنے پاجامے اور انگریزی کے حساب سے یہ گجراتی بابو ہیں۔ہم نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گجراتی میں کہا کہ ’’گجراتی ہو تو بلاوجہ پنجابی بننے کا کیا فائدہ۔افسر افسر سے جھوٹ تھوڑی بولتا ہے۔ہم بھی سرکاری کام سے تمہاری سرکار کی منظوری سے آئے ہیں تو اس نے بہت آہستہ سے بتایا کہ اس کا نام رگھوپٹیل ہے اور وہ ہم پر نگرانی کے لیے مامور ہے‘‘۔کھانے کی دعوت دی تو بے چارہ ضد کرنے پر شامل طعام ہوگیا۔ عمر رسیدہ آدمی تھا،ریٹائرمنٹ میں سال بھر باقی تھا۔ہم نے کہا اپنے مین مقصد کے علاوہ ہمارا کام تاریخی مقامات کی سیر، ہوٹلوں میں کھانا کھانے چاؤڑی بازار اور چاندنی چوک کی سیر فلم کبھی کبھی اور ستیم شیوم سندرم دیکھنا ہے۔اگلے دن جمیل نے زائرین سے وہ ساڑھیاں لے کر رگھو پٹیل کے حوالے کردیں کہ انہیں بیچ کر پانچ فیصد کمیشن خود رکھ لے ۔اسی رقم میں سے چالیس چادریں بل سمیت لے آئے۔رگھو پٹیل کی مرضی تھی کہ کچھ کمیشن اس میں سے بھی رکھ لے مگر جمیل اڑگیا کہ وہ سرکار کا پیسہ ہے۔ اس میں وہ بے ایمانی نہیں ہونے دے گا اس پر اس کا ساڑھیوں کی فروخت میں منافع کا کمیشن دس فیصد کردیا گیا۔

سوچئے سن ستتر میں بیوروکریسی کا کیا معیار تھا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ اسی وزارت میں غریب حاجیوں کو ڈی ایم جی افسر راؤ شکیل اور مولوی وزیر نے چاروں ہاتھوں سے لوٹا۔جمیل کو ساڑھیوں کی فروخت میں بھارتی روپے میں ڈبل قیمت ملی تو اس کا شماردھیرو بھائی پٹیل (مکیشن اور انل امبانی کے والد) کے ہم پلہ مالدار افراد میں ہونے لگا۔

ہمیں یہ رگھو پٹیل ہی کی کارستانی لگتی ہے کہ عرس پر جب اندرا گاندھی کے صاحبزادے آنجہانی سنجے گاندھی تشریف لائے تو وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر سیدھا ہم افسروں کی جانب لے آیا۔ہم سے رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے گھر ایک دن چھوڑ کرصبح کی چائے پر بلالیا۔ چلتے ہوئے یہ رگھو بھائی پٹیل ہی تھے، جنہوں نے بہت واضح طور پر سنجے گاندھی کو باآواز بلند جتلایا کہ’’ صاحب ٹرانسپورٹ‘‘ جس پر انہوں نے کہا

Don’t worry. I will send the car. we have only one car so it has to make two trips.

آپ کو یاد ہو گاکہ دیوی گوڑا ،نرسہماراؤ کے بیٹوں اور راجیوکے علاوہ کسی بھارتی وزیر اعظم پر کرپشن کے کوئی الزام نہیں لگے جبکہ ہمارے ہاں تو لیاقت علی خان کے مختصر دورانیے کے بعد جو بھی آیا وہ کرپشن کے معاملے میں مرے کو مارے شاہ مدار نکلا ہے۔شام کو اپنے آپ کو شامل کر کے فیر وزہ کو بااہتمام حجت سامنے رکھ کر ستییم شیوم سندرم کی تین ٹکٹیں بک کرالیں تھیں۔ باقی ساتھی بغیر ویزہ آگرہ روانہ ہوگئے تھے موڈ تو ہمارا بھی بہت تھا مگر مجھے اور جمیل کو انہوں نے یہ کہہ کر روک لیا کہ میں گجراتی ہونے کے ناطے کوئی چانس نہ لوں اور جمیل تو وفد کے لیڈر ہیں، لہذا ان کی غیر موجودگی کو ان کا عملہ نوٹ کرلے گا۔کیا خبر اس عملے کا کوئی رکن کسی اور ادارے کو بھی رپورٹ کررہا ہو۔فیروزہ کو ساڑھیاں ملی تو مچل گئی کہ کھانے پر لے جائے گی۔ہم نے اس شرط پر کھانے کی دعوت قبول کی کہ وہ ہمارے ساتھ فلم دیکھے گی ۔ فلم کا نام سن کر دویدا میں پڑگئی۔کچھ دیر دیکھنے کے بعد ہماری عزیزہ نیلوفر کے نام سے کہنے لگی OK I trust Neelo پٹیل صاحب نے بہت مارا ماری کرکے اس کی اچانک شمولیت کی وجہ سے چوتھے ٹکٹ کا بندوبست کیا تھا ،جب سنیما میں ہم داخل ہورہے تھے تو پٹیل نے زینت امان کا قد آدم نیم عریاں پوسٹر دیکھ کر انگریزی میں بہت زور سے ارشاد کیاNo one should ever trust me ever for Zeenat Aman.

تیسرے دن ہم ایک صفدر جنگ مارگ (ہندی بمعنی روڈ) پر اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ اندرا گاندھی کی اس رہائش گاہ کو ان کے صاحب زادے راجیو نے (جو ان کے قتل پر وزیر اعظم بنے تھے )اپنی والدہ کے نام سے موسوم ایک یادگاری عجائب گھر میں تبدیل کردیا تھا۔صفدر جنگ روڈ پر سرکاری بنگلوز کا ایک سلسلہ ہے۔ ایک نمبر میں اندرا گاندھی رہتی تھیں سات نمبر میں پرمود مہاجن بعد میں رہائش پذیر ہوئے ۔وہ بی جے پی کے سیکرٹری جنرل تھے لیکن انہیں ان کے بھائی نے گولی مار کر ہلاک کردیا تو اسے ایک صفدر جنگ مارگ کو بھی منحوس سمجھا جانے لگا۔

1-Safdar Jang Road

ہندوستان کے سبھی سابق وزرائے اعظم کو ٹائپ آٹھ بنگلہ سرکار کی جانب سے تحفے میں ملتا ہے۔ یہ ہندوستان میں اعلیٰ ترین سرکاری رہائش گاہ سمجھا جاتا ہے ۔من موہن سنگھ بہت بعد میں انیس نمبر بنگلے میں رہائش پذیر ہوئے۔اندرا گاندھی اور ان کا خانوادہ اسی رعایت سے یہاں قیام پزیر تھا گو الیکشن میں دھاندلی کے الزام میں سن 1975 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کا لوک سبھا کا انتخاب راج نرائین صاحب کی

انتخابی عذر داری کو تسلیم کرتے ہوئے ناجائز قرا دے دیا تھا۔اس فیصلے کا بھیانک پہلو یہ تھا کہ اندرا گاندھی صاحبہ چھ سال تک لوک سبھا کی ممبر بننے کا انتخاب تو لڑ سکتی ہیں مگر بددیانتی ثابت ہونے کی وجہ سے اس اثناء میں کسی سرکاری عہدے کی اہل نہیں ہوسکتیں۔

دوبارہ انتخابات ہوئے تو سن 1977 میں موصوف نے انہیں رائے بریلی یوپی سے شکست دی۔1980-84 میں البتہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئی تھیں،وہ چار سال وزیر اعظم رہیں اسی دوران انہیں اکتوبر میں اپنی اسی رہائش گاہ کے عقب میں واقع کانگریس کے ہیڈ کوارٹر ایک اکبر روڈ پرپیدل جاتے ہوئے دو سکھ گارڈ ستونت سنگھ اور بیونت سنگھ نے قتل کردیا تھا ۔اب اس چھوٹی سی پگڈنڈی پر جہاں وہ ہلاک ہوئیں شیشے اور کرسٹل کا ایک ایسا راستہ بنادیا گیا جو بہتے دریا کا شاعرانہ منظر پیش کرتا ہے۔

that walkway where indira gandhi was killed

سنجے گاندھی نے سفید ایمبیسڈر کار بھیجی تھی۔اسلام آباد میں چونکہ ان دنوں ڈپٹی سیکرٹری بھی ویگن سے آیا جایا کرتے تھے،سرکاری گاڑی تو دور دراز کی بات ہے بلکہ قدرت اﷲ شہاب صاحب تو صدر کا سیکرٹری ہوتے ہوئے بھی رکشہ پر ایسے ہی آتے جاتے تھے جیسے اب بڑے سیکرٹری چارٹر جہازوں پر باہر کی کھیپ لگاتے ہیں۔کار کو دو پھیرے کرنے پڑے کیونکہ ہم کل چھ افسر تھے،رگھو بھائی پٹیل اور ان کا انسپکٹر بھی لازمہ تھے۔ یوں کل آٹھ مسافر بنے۔ہمیں لگا کہ ان کے بودو بو باش اور زندگی میں واقعی سادگی ہے۔صفدر جنگ روڈ پر سرکاری رہائش گاہوں کی قطار ہے۔اندرا گاندھی یہاں مقیم تھیں۔پہلے وفد کو ایک افسر نے بہت غیر رسمی انداز میں خوش آمدید کہا ۔ لان میں رکھی کرسیوں پر بٹھادیا۔اسی دوران میں ان کے ٹوائلٹ کی صفائی شروع ہوگئی اور لان کی نالیوں سے گندگی کا ایک ایسا طوفان بہہ نکلا کہ دماغ کی جھلیوں تک پر ورم آگیا۔تھوڑی دیر میں دوسرا گروپ بھی آگیا تو ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا۔سنجے گاندھی کا دور دور تک پتہ نہ تھا اور پٹیل صاحب کمرے کے باہر ہی رک گئے تھے۔کمرے کا فرنیچر پرانا، فرش پر بچھی بڑی سی دری قدرے میلی،کھڑکیاں بڑی، پردے ندارد۔ہمیں بیٹھے کچھ ہی لمحات ہوئے ہوں گے۔(آپ کو جو فرنیچر اور صفائی اس تصویر میں دکھائی دیتی ہے وہ ان دنوں موجود نہ تھی۔)

reception room

اسی رہائش گاہ میں اب ایک بورڈ پر اندرا گاندھی کے سات اہم قومی فیصلے درج ہیں۔ایمرجنسی کا نفاذ اس میں چھٹے نمبر پر ہے۔ باقی اہم فیصلوں میں بنگلہ دیش کا قیام۔بنکوں کو قومیانا ،غریبی ہٹاؤ پروگرام اور 1977 میں لوک چناؤ کا اعلان۔اچانک ایک بڑے سے بسکٹ کے رنگ کے کتے( انگریزی میںGreat Dane )کی رفاقت میں محترمہ اندرا گاندھی اور سنجے گاندھی داخل ہوئے۔وہ بہت باوقار خاتون تھیں۔انہیں اپنے وجود کا، اپنی طاقت کا بہت احساس تھا اور یہ احساس ان کے ارد گرد ایک ہالہ ، ایک حصار سا کھینچ دیتا تھا۔ہندوستان میں گورا رنگ خال خال دکھائی دیتا ہے وہ دونوں ماں بیٹا بہت اجلی رنگت اور بہت سادہ سماجی مزاج کے حامل تھے۔سنجے میں ہمیں پہلی ملاقات سے بہت جلد بازی دکھائی دی جب کہ مسز اندرا گاندھی میں اس طاقتور ہستی کا ٹہراؤ تھا جو اپنی باری کا تحمل سے انتظار کرنا جانتی ہو۔

indira-gandhi2

ان کی خود اعتمادی سے خوف آتا تھا۔کتا کمرے میں چکر لگا رہا تھا اور اندرا گاندھی سنجے سے آہستہ آہستہ کچھ سرگوشیاں کر رہی تھیں۔کتے کے قد و قامت سے سیکشن افسر سکندر خوف زدہ ہوگیا تھا، اس نے دبے لفظوں میں جب ریلوے کے افسر شفیق کو کہا کہ میں اپنی ساری زندگی اینا وڈا کتا کدی نئیوں ویخیا (میں نے ساری زندگی میں اتنا بڑا کتا نہیں دیکھا) جس پر شفیق نے کہا۔فکر نہ کر اسلام آباد وچ تیرا اے گلہ جلدی ختم ہوجائے گا۔اندرا گاندھی نے سکندر کا خوف بھانپ لیا اور کتے کو انگریزی میں Duke. You Now Go Away کہا تو وہ کمرے سے رنجور ہوکر چلا گیا۔اسی دوران سنجے نے ہم سے معدزت کی کہ چکمہ گلور کرناٹک سے کچھ لوگ آئے ہیں ایک وفد کی صورت میں۔اپ امی سے بات کرو۔ہم پھر ملیں گے۔اندرا گاندھی نے سب سے سوال کرکے تفصیلی تعارف حاصل کیا۔ پاکستان کی سول سروس پر کئی سوالات کیے۔ وہ اپنی سول سروس سے بھی کچھ زیادہ خوش نہ تھیں مگر انگریزی میں کہنے لگیں کہ ان کے پاس جو رپورٹ اور بیرونی دوروں میں تاثرات جمع ہوتے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ پاکستانی سول سروس اب بھی اس انگریز راج والے مائنڈ فریم میں ہے ۔لوگوں سے دور ہے۔اس میں وژن اور لیڈر شپ کا وہ معیار نہیں جو ترقی یافتہ ممالک کے لیے لازم ہوتا ہے۔انہیں لگا کہ بات کچھ کڑواہٹ کا شکار ہوگئی ہے تو مسکراکر کہنے لگیں چلو فوجی حکومت کی وجہ سے ایک لمبے عرصے کے لیے تم لوگوں کی جان کمزور اور کنفیوژڈ سیاست دانوں سے چھوٹ گئی۔ اپنی سول سروس کے بارے میں جمیل کے سوال کے جواب میں وہ کہنے لگیں کہ ہاں ہمارے ہاں علاقائیت بہت زوروں پر ہے۔ ساؤتھ نارتھ تقسیم بھی بہت دیکھی جاسکتی ہے مگر چونکہ ہمارے ہاں سیاسی نظام ایک تسلسل اور عدالتی نظام پر عزم اور خود سے بہت باضمیر ہے ، ہمارا پریس بھی بہت قابل اوربے رحم ہے ( خود سے بہت باضمیر اوربے رحم والے الفاظ پر ان کے پتلے سنگدل ہونٹوں پر ایک دبی سی طنزیہ مسکراہٹ آگئی تھی ) لہذا بیوروکریسی کی علاقائیت دہلی آن کر مرکزی پالیسی کی تابع ہوجاتی ہے۔میرے بدترین نقاد بھی ان کے نزدیک میرے ناپسندیدہ دور( ایمرجنسی۔۔دیکھا ان کے الفاظ کا انتخاب) میں بڑے ترقیاتی پروگراموں پر تعصب، کرپشن اور جنتا دشمنی کا الزام نہیں لگا سکتے۔ہم نے انہیں مشرقی پاکستان پر آڑے ہاتھوں لیا تو وہ کہنے لگیں کہ ہم بھارت سے محبت کے خواب کیوں دیکھتے ہیں۔ہمارے عزائم تو گلوبل ہیں۔ہمارا خواب تو Empire of Ashoka and More ہے ۔ہم نے کہا کیا اس میں تھائی لینڈ، تبت بھی شامل ہیں تو کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور کہنے لگیں :

lets put Norway in your list too.. If that be soon You wud be my first governor there

(تمہاری اس فہرست میں ناروے شامل کرلیتے ہیں ایسا ہوا تو تم میری جانب سے وہاں پہلے گورنر ہوگے)

ہم نے انگریزی میں کہا

On the contrary My Mom wud love me to see as first Pakistani Muslim Governor of Mahrashtra

میری والدہ کا خواب ہے کہ میں مہارشٹرا کا پہلا پاکستانی مسلمان گورنر بنوں۔

Ah a Mother’s Dream

ہائے ایک ماں کا خواب۔انہوں نے ناگواری سے بھنویں سکیڑ کر دبے دبے سے طنزیہ لہجے میں جملہ کسا

Legitimate Though

(جائز تو ہے نا)

Indeed. As long as it stays a dream

ہمارے دل میں بہت آیا کہ کہہ دیں کہ کشمیر اور ہمارے والدین کا جوناگڑھ اور کاٹھیا واڑ ہمیں لوٹا دیں اور اشوکا ایمپائر کو اٹاری تک ہی سمیٹ کر رکھیں۔

ان کی اس بے شک اور اس بے شک میں ایک اداسی اور اپنے خواب جو انہوں نے سنجے گاندھی کے حوالے سے دیکھے تھے، وہ سبھی شامل تھے۔ انہوں نے اس موقع پرکھڑے ہوکر سنجے گاندھی کو لان میں دیکھا اور وہ انہیں کھڑکی میں دیکھ کر اس طرف آگیا، وہ کہہ رہا تھا کچھ بڑی امید لے کر آئے ہیں۔چکمہ گلور کی بعد میں ان کی زندگی میں بڑی اہمیت ہوگئی۔ وہ یہاں سے1978 میں انتخاب جیتیں۔ اس انتخاب کے بعد ان کے لیے دو سال بعد جنوری کے عام انتخابات جیت کروریز اعظم بننا آسان ہوگیا ۔لیکن ٹھیک چھ ماہ بعد سنجے گاندھی ایک فضائی حادثے کا شکار ہوگئے۔چلتے وقت انہوں نے سوال کرنے کے لیے اکسایا تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کے خاندانی پس منظر،ان کے امتیازی حوالوں اور ان کی شہرت اور تجربات کی روشنی کو سامنے رکھتے وقت کیا وہ بھی کسی سے متاثر ہوتی ہیں۔وہ کہنے لگیں کہ کچھ دن پہلے سنجو بابا نے بھی مجھ سے یہی سوال پوچھا تھا تو وہی جواب آپ حضرات کے لیے بھی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس سے آپ کچھ سیکھ نہ سکیں نہ کوئی ایسا ہے جسے آپ کچھ سکھانہ سکیں۔ملاقات ختم ہوئی،باہر نکل کر ہم نے پہلے تو اکبر روڈ پر لذیذچاٹ کھائی اور بعد میں کریم جواہر ہوٹل پر بادامی قورمہ اور زعفرانی کھیر اور کمپلمنٹری مسالہ چائے۔وہاں ایک صفدر جنگ مارگ پر تو کسی کو چائے پلانے کا خیال تک نہیں آیا تھا۔

بہت بعد میں لیو کوان یو ۔سنگاپور کے مرد بے مثال نے مسز اندراگاندھی کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہی ہمارے بھی تاثرات ہیں یوں بھی پاکستان میں بڑے آدمیوں کی آواز میں آواز ملا کر بڑا بننا آسان عمل سمجھا جاتا ہے اندرا گاندھی ہندوستان کی بہت سخت گیر خاتون وزیر اعظم تھیں۔وہ عورت ضرور تھیں مگر نسوانیت ان کے قریب سے بھی نہ گزری تھی۔وہ مارگریٹ تھیچر سے زیادہ بے رحم تھیں۔ہمیں لگا کہ اس دن وہ سول سروس کے ممبرز ہونے اور ان کے صاحبزادے کے لائے ہوئے مہمانوں کی مناسبت سے دو مقامات عالیہ سے ہم سے مخاطب تھیں۔ایک کنٹرولنگ وزیر اعظم،ایک فتح یاب دشمن اور کبھی کبھار ایک مادر مہربان۔

indira-gandhi


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر