وجود

... loading ...

وجود
وجود

سمندر ، بھی اگر روشنائی بن جایئں (حصہ سوئم)

منگل 26 اپریل 2016 سمندر ، بھی اگر روشنائی بن جایئں (حصہ سوئم)

مولانا ندوی سے جب کتاب کی مصنفہ کی ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت نے صرف ژان پال سارتر اور ارسطو جیسے جدید اور قدیم فلسفیوں کا دار العلوم ندوۃ میں اپنے نصاب میں مطالعہ کررکھا ہے۔(دیو بند اور دار العلوم ندوۃ میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ دیوبند اب بھی درس و تدریس کے حوالے سے قدامت پسند سمجھا جاتا ہے جب کہ ندوۃ میں جدید علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ دیو بند میں داخلہ کے لیے مقابلہ ہمارے سی ایس پی کے امتحانی مقابلے جیسا کڑا ہوتا ہے۔) بلکہ مولانا اردو، فارسی، کلاسیکی عربی، ہندی، اردو اور انگریزی کے بھی شناور ہیں۔مدینہ ا لمنورہ اور دمشق میں بھی پڑھا چکے ہیں۔

نبی کریمﷺ نے مکہ بادل نخواستہ اس لیے چھوڑا تھا کہ دشمن آپ کودین کے کام سے روک رہے تھے۔وہ ایک علاقے اور ریاست کے تلاش میں وہاں نہیں گئے تھے۔

ایک اور بات جس نے انہیں مولانا اکرم ندوی کو اپنا شیخ اور درس قرآن کے لیے استاد بنانے کی جانب راغب کیا وہ ان کا خواتین کے بارے میں مختلف طرز عمل اور رائے تھی ۔چھ عدد صاحب زادیوں کے والد ہونے کے ناطے اور دین کی اس قدر سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود وہ عام مذہبی افراد اور علماء کی نسبت بہت کشادہ دل اور باعزت طرز عمل کے مالک تھے۔اس کتاب میں اس کا اجمالی ذکر ان کے چند ابواب میں شامل ہے۔ یہ ابواب ان اعلی کردار خواتین کی علمی اور دینی خدمات کے بارے میں ہیں جن سے نہ صرف مغرب ناواقف ہے بلکہ اپنی اس ناواقفیت کو اپنا تفاخر اور نکتہ تضحیک بنا کر اسلام کو ایک پس ماندہ اور طرز بود و باش کے جدید تقاضوں سے ناآشنا خواتین پر ظلم کرنے والا دین ظاہر کرتا ہے۔

مصنفہ کے علم میں یہ بات تھی کہ مولانا اکرم ندوی نے پندرہ سال پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں انہیں بتایا تھا کہ ان سے 2,210 احادیث کا تحفظ اور روایتیں منسوب ہے اور وہ اس کو سامنے رکھ کر ایک پمفلٹ لکھ رہے ہیں جو مسلم خواتین کی علم دوستی اور علم کے فروغ کا بیان ہوگا۔مولانا ندوی کو اس وقت یہ محدود سا گمان تھا کہ یہ سارا تذکرہ ایک اوسط ضخامت کے پمفلیٹ میں بآسانی سما جائے گا۔

تحقیق کا آغاز ہوا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ پچھلے 1,400 سال میں9,000 کے قریب ایسی خواتین موجود رہی ہیں جو نہ صرف احادیث کی ترویج اور فتاویٰ کے اجرا میں مصروف رہیں بلکہ وہ کئی مسلمان خلفاء کی مجالس شوریٰ کا بھی حصہ رہی ہیں ان میں چند جلیل القدر خواتین تو ایسی تھیں کہ مدینہ منورہ میں انہی میں سے ایک خاتون تو مسجد نبوی میں جو درس دیتی تھیں اس میں حج پر آنے والے علماء اور عمائدین بھی استفادہ کے لیے شریک ہوتے تھے۔یہ نیک اور باعلم خواتین علم کے فروغ کے لیے دور دراز کا ان دشوار دنوں میں سفر بھی کرتی تھیں۔ مولانا ندوی ان احادیث اور فتاویٰ کی روایت کو خواتین کے حوالے سے اس لیے مستند مانتے ہیں کہ ان خواتین پر بیرونی دباؤ اور انتشار خیال بہت کم ہوتا تھا اور یوں بھی روایت کی صحت، یاداشت کی بنا پر خواتین کے ہاں بہتر تسلیم کی جاتی ہے ۔اب یہ Biographic Dictionary جسے’’ المحدثات ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ان کی یہ تصنیف جسے آپ بلا شبہ magnum opus ( کسی عالم یا فنکار کا وہ شہ پارہ جو اس کا بہترین کام تصور کیا جائے ) کا درجہ دے سکتے ہیں۔یہ اب 57 جلدوں تک جاپہنچی ہے۔

al muhaditat

کتاب کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دو ستوں کی ایک ایسی صبر آزما، انقلابی کاوش ہے جس میں دو مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے اپنے عقیدے کا ایک دوسرے کی نظر سے جائزہ لیتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ان تعصبات اور غلط فہمیوں کا بھی ادراک فراہم کرتے ہیں جو ایک عالم میں چند خاص واقعات اور شخصیات کی وجہ سے نفرت اور تشدد کی بنیاد بنیں۔اس پورے عمل میں وہ کھلے دل اور دماغ سے ،نرم لہجے اور باعلم طریقے سے ان تعصبات کو ایک ایسی آپ بیتی میں بدل لیتے ہیں جو آپ کو نہ صرف دھیمے دھیمے نیند کی مانند اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے۔

کتاب میں چند باتیں ایسی بھی بیان ہیں جو افغانستان اور ایران میں سن1980 کے ہونے والے واقعات اور دین میں جبر اور جہاد بالسیف اور ڈالر کا جو پھیلاؤ آپ کو ضیاء الحق کے دور سے عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں دکھائی دیتا ہے جہاں باہمی رواداری اور انسانی تعلقات سے بڑھ کر مخصوص قسم کی فرقہ واریت اور عدم برداشت نے غلبہ پالیا ہے وہاں انہیں آسانی سے قبول کرنا مشکل ہو کیوں کہ یہ مروجہ خیالات سے بادی النظر میں متصادم دکھائی دیں گی لیکن جانچ پڑتال کرنے پر حقیقت کے قریب دکھائی دیتی ہیں۔ مصنفہ کو ان کے پاس آنے والے بے شمار مغربی مسلمانوں سے جو سلمان رشدی کی Satanic Verses سے لے کر ڈنمارک اور فرانس میں شائع ہونے والے کارٹونز پر رائے اور ردعمل لینے آتے ہیں ان کا جواب سن کر حیرت ہوتی ہے ۔

وہ کہتے ہیں اس طرح کی بے ہودہ خرافات کو نظر انداز کرنے میں اسلام کا فروغ ہے۔اس کی مثال وہ نبی کریم ﷺ کی اپنی حیات مبارکہ سے دیتے ہیں کہ انتہائی برے سلوک، تکالیف ،دشنام طرازی پر آپﷺ نے کبھی احتجاج نہیں کیا،نہ کسی کا گھر جلایا ، نہ کسی کو جواباً ضرر پہنچایا بلکہ اپنا دامن بچا کر دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔طائف، مکہ کی زندگی اور فتح مکہ پر آپ کا دشمنوں سے سلوک اس کی واضح مثالیں ہیں۔

اﷲ اور اسلام کو آپ کے دفاع کی ضرورت نہیں بلکہ اعمال صالح جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہوں وہی درست دعوت اسلامی ہے۔ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ کیا مدینہ اسلامی ریاست تھی ،تو وہ کہتے ہیں ہرگز نہیں۔یہ انتہائی غلط تصور ہے جو عام ہوگیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے مکہ بادل نخواستہ اس لیے چھوڑا تھا کہ دشمن آپ کو دین کے کام سے روک رہے تھے۔وہ ایک علاقے اور ریاست کے تلاش میں وہاں نہیں گئے تھے۔ندوی صاحب کا خیال ہے کہ دنیا میں ہمارا قیام عارضی ہے جب کہ اسلام اس سے بہت بڑا تقاضا ہے، اسے وقتی دنیاوی حصول میں گنوانا اس دین کی روحِ اساس سے بغاوت ہے بلکہ اسے اخلاق، کردار، خود احتسابی اور ادنیٰ و اعلیٰ کی انسانی تقسیم سے بڑھ کر تقویٰ اور جد و جہد کے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے۔

22957238

ان کے پہلے درس کا آغاز بھی بہت دل چسپ اور معنی آفریں ہے۔Nosebag Resturant جو شیخ اکرم کے دفتر کے نزدیک تھا وہاں کارلا پاؤر صاحبہ نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ قرآن الکریم کے نسخے موجود ہوتے ہوئے بھی کبھی انہوں نے سنجیدگی سے اس کا مطالعہ نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ اعتراف شاید شیخ کو گراں گزرے گا مگر وہ مسکرا کر کہنے لگے ’’یہ تو کوئی ایسی انوکھی بات نہیں مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت بھی یہی کچھ کرتی ہے۔قرآن کو پڑھتے ضرور ہیں سمجھتے بہت کم ہیں۔ یہ ان کے لیے اجنبی صحیفہ ہے۔انہیں لگا کہ یہ بہت ہی اچنبھے کی بات ہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جو بے شمار حفاظ ہیں وہ تو اس کا لازماً فہم رکھتے ہوں گے۔شیخ کہنے لگے جونپور کے مدرسے سے لے کر کسی بھی مدرسہ میں قرآن فہمی کا نصاب میں بہت ہی کم دخل ہے۔

abu hanifa

احادیث اور فقہ پر بہت زور ہے۔اب فقہ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ انسان کا بنایا ہوا مذہبی ڈھانچہ ہے(یاد رہے کہ مولانا ندوی دنیا بھر میں امام ابو حنیفہ پر سند مانے جاتے ہیں اور ان کی کتابAbu Hanifah: His Life, Legal Method & Legacy ان کی مستند ترین سوانح عمری سمجھی جاتی ہے۔وہ آپ کو یہ بھی حیرت کن انکشاف کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو کل سترہ احادیث یاد تھیں۔فقہ کے یہ مختلف اسکول یعنی حنفی، مالکی ، شافعی، حنبلی اور جعفریہ جو نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد وجود میں آئے وہ نماز کی ادائیگی میں قیام و سجود، زکوۃ کے نصاب، سے لے کر جھینگا کھانے تک پر ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔یہ سب ائمہ اپنی سزاؤں میں قرآن کے بیان کردہ معیار سے زیادہ سخت رویہ رکھتے ہیں اور ان کا خواتین کے بارے میں رویہ بھی بہت ہی کڑا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے ایام میں یونانی فلاسفہ بالخصوص ارسطو کے فلسفے سے بہت متاثر ہوچکے تھے جو عورت کو ایک لازمی گناہ مانتا تھا اور اسے ثانوی حیثیت دینے کا قائل تھا۔

کیا یہ لازم ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی فقہ کی پیروی کریں کیوں نہ براہ راست قرآن سے استفادہ کیا جائے۔؟ کارلا پاؤر نے پوچھا
’’عوام کی اکثریت ذہنی طور پر کاہل ہوتی ہے۔علماء کی تقلید آسان ہے بجائے اس کے کہ خود کھوج لگایا جائے۔دنیائے اسلام میں اب یہ چھوٹی باتیں غالب آگئی ہیں ۔اس سے عقیدے کا توازن بگڑ گیا ہے۔قرآن الکریم اور نبی پاکﷺ تو ہر بار روح کی اصلاح ،قلب کی پاکیزگی اور کردار کی عملی بلندی کی بات کرتے ہیں۔اس کے برعکس چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا جو صرف ایک دفعہ بیان کی گئی ہے وہ کچھ لوگوں کے لیے دین و ایمان کالازمی جز بن گئی ہے۔


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر