وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں سفاک قاتل گورنر کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز

هفته 30 جنوری 2016 بھارت میں سفاک قاتل گورنر کے لیے اعلیٰ ترین اعزاز

Jagmohan

کشمیری پنڈت اعلیٰ ذات کا ہندو تصور کیا جاتا ہے۔ تر دماغ اور خوبصورت مکھڑے والی یہ پنڈت برادری، وادی کشمیر کی جنت سے جگ موہن کی مہربانیوں سے نکل کر بھارت کے مختلف گرم علاقوں کی تپتی اور آگ اگلتی ہوئی سرزمین میں مقیم ہے۔ 1947ء میں جب پورے برصغیر میں ہندو اور مسلم کے نام پر خون بہایا گیا، وادی کشمیر میں ان کشمیری پنڈتوں کو مسلمانوں نے نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی عزت و آبرو کا تحفظ بھی کیا۔ گاندھی جی کواسی بنیاد پر یہ اعتراف کرناپڑاکہ” کشمیر سے مجھے روشنی کی کرن نظر آرہی ہے”کشمیری پورے بر صغیر کو احساس دلاتے رہے کہ کسی نہتے انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ چاہے مقتول کا تعلق کسی بھی مذھب سے ہو۔

1987ء کے انتخابات میں بھارتی حکومت کی بدترین دھاندلی کے نتیجے میں کشمیری قوم میں یہ احساس شدت سے ابھرا کہ ان کا حق خودارادیت کا خواب انتخابات میں شرکت سے کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ بھارت آئین و قانون کی زبان سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس انتخاب نے کشمیری عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی حکمرانوں کے خلاف ایک شدید نفرت نے جنم لیا،1989ء میں اس نفرت کا لاوا پھوٹ پڑا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔۔ بھارتی ایوانوں کو آگ لگانے کی نعرہ بازی شروع ہوئی۔ “ہم کیا چاہتے۔ ۔ آزادی”کے فلک شگاف نعروں کی گونج ہر طرف سے سنائی دینے لگی۔ گلی کوچوں، گاؤں شہروں میں صرف ایک آواز کا غلغلہ تھا “بھارتی غاصبو! وطن ہمارا چھوڑ دو،چھین کے لیں گے آزادی”

کشمیری پنڈت برادری ان نعروں سے خوفزدہ نہیں تھی کیونکہ یہ نعرے نئے نہیں تھے۔ شیخ عبداللہ نے22 سال تک ایک بے مثال تحریک چلائی تھی اور گلی گلی قریہ قریہ اس دوران یہی نعرے لگتے تھے۔ پنڈت لوگ خوشی خوشی زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں انتظار تھا اس تحریک کی کامیابی کا، کیونکہ کشمیرصرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ جموں کشمیر میں رہنے والی ہندو برادری بھی کشمیری ہی کہلاتی ہے اور وہ ان کی بھی سرزمین ہے۔

1990ء میں یہ تحریک اپنے عروج کی طرف جارہی تھی اور بھارت سرکار نے حقائق تسلیم کرنے کے بجائے اس تحریک کو آہنی ہاتھوں سے کچلنے کا فیصلہ لیا،اور یہ بھی طے ہوا کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر، دنیا کی نظروں میں اپنی سفاک روش کو جائز بھی قرار دلوائے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھ کر ریاستی گورنر جگموہن کو کام سونپا گیاکہ وادی سے پوری ہندو آبادی کو جموں او ربھارت کے دوسرے علاقوں کی طرف منتقل کرے اور پھر بزور طاقت مسلم آبادی کو اپنا حق آزادی مانگنے کے جرم سے باز رکھے۔ جگ موہن کیلئے یہ مشکل کام نہیں تھا۔ بلکہ انہیں اس کا خوب تجربہ اس وقت حاصل ہوا تھاجب 1975ء میں دہلی کے گورنر کی حیثیت سے ایمرجنسی قوانین کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکمان گیٹ دہلی میں ہزاروں مسلمانوں کو اس نے بے گھر کردیا تھا اور بستیوں کی بستیاں بلڈوز کی تھیں۔

جگ موہن نے کشمیر ی ہندو تنظیوں کو اعتماد میں لیا، ان کے ساتھ وعدے کئے گئے کہ انہیں باہر آرام و آسائش کے ساتھ زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیا جائیگا۔۔ دنیا کی ہر نعمت انہیں فراہم کی جائیگی۔ انہیں صرف چند مہینے باہر گذارنے ہونگے۔ پھر وہ ہوں گے اور ان کا وطن ہوگا۔ چند مہینوں کا معاملہ ہے۔

بھارتی حکمرانوں کو اس سے دو طرح کے فائدے حاصل ہونے کی توقع تھی۔ ایک یہ کہ تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاسکے گا اور دوسرا آزادی پسندوں کا بلا کسی امتیاز کے خاتمہ کیا جاسکے گا۔ بعض مہاجر پنڈتوں کے خطوط سے جو سرینگر کے ایک مؤ قر” اخبار الصفاء” میں شائع ہوئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کس طرح اس انخلا کو اپنے حق می استعمال کرنے کی سازش میں مصروف رہا۔

11ستمبر 1990ء میں ایک مہاجر کشمیری پنڈت، کے ایل کول (ایم اے ایم ایڈ) چمن چھانپورہ سرینگر حال نگروٹہ کیمپ جموں کا خط سرینگر کے اخبار روزنامہ الصفاء میں شائع ہوا۔ خط کے چند اقتباسات:
“میں جانتا ہوں کہ ہمارے کشمیر سے بھاگنے پر کشمیری مسلم بھائیوں کو بڑا دکھ پہنچ چکا ہوگا اور مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ ہم ان کی محبت، عزت اور انسان دوستی سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ کیونکہ ہم غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات پر شرم محسوس ہورہی ہے کہ میری کمیونٹی نے کشمیری مسلم بھائیوں کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا ہے۔ اور یہ سارا جگ موہن کے کہنے پر ہوا”

آگے وہ لکھتے ہیں:

“فروری کے پہلے ہفتے میں ہمیں چند خودساختہ رہنماؤں کے ذریعے گورنر جگ موہن کا ایک پیغام ملا جس میں ہمیں وادی چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ پیغام میں کہا گیا کہ تحریک دبانے کیلئے لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ مسلم نوجوانوں کو مارنے کا منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔ پنڈتوں سے یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں باہر ہر قسم کی آسائش بہم رکھی جائیگی اورمفت راشن،نوکریاں اور رہائش کا بھی انتظام ہوگا۔۔ پیغام میں یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ جونہی مجوزہ منصوبہ تکمیل کو پہنچے گا اور تحریک دم توڑے گی تو پھر آپ کو واپس اپنی جگہوں پر بسایایا جائیگا۔ میری کمیونٹی کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ عوامی بغاوت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے ہمیں استعمال کیا گیا”

آگے جاکر وہ مزید لکھتے ہیں:

“یہاں کی مقامی آبادی ہمیں حملہ آور سمجھتی ہے اور اسی انداز کا سلوک ہمارے ساتھ کرتی ہے۔ دودھ، سبزی اور روزمرہ کی دیگر اشیاء مہنگے داموں ہمیں خریدنی پڑتی ہیں۔ ۔ ہمارے بچے آوارہ بن چکے ہیں کیونکہ سڑکوں پر گھومنے کے سوا ان کے پاس کوئی کام نہیں۔ اس علاقے کے لوگوں کا ہماری خواتین کے بارے میں یہ قابل شرم تصور ہے کہ پیسے کی خاطر وہ اپنا عصمت بیچ سکتی ہیں۔ “اسی طرح کا ایک مشترکہ خط 22ستمبر1990کے الصفا میں شائع ہوتا ہے خط کا صرف ایک پیرا گراف پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈت بھائی کس طرح اپنے وطن کو یاد کررہے ہیں اور اس دن کو کس طرح کوستے ہیں جس دن انہوں نے کشمیر چھوڑنے کی سازش کاحصہ بننے کی غلطی کی تھی۔۔ ملاحظ فرمائیں:

“ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ نہ صرف ہم نے اپنے مادر وطن کے ساتھ غداری کی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی بے وفائی کی جنہوں نے صدیوں سے ہمیں عزت دی، پیار دیا۔ ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں میں ہم شامل رہے حالانکہ ہمیں اس تحریک کا ایک حصہ بننا چاہئیے تھا۔ ”

معروف کشمیری صحافی و مصنف مرحوم خواجہ ثنا ء اللہ بٹ اپنی کتاب “عہد نامہ کشمیر “صفحہ نمبر234-235میں کشمیری پنڈتوں کے اس انخلاء کے بارے میں لکھتے ہیں:

“گورنر جگموہن نے کشمیری پنڈتوں کو ورغلانے کیلئے ان میں یہ خیال بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا دیا کہ کشمیری پنڈتوں کو یہاں سے نکال لینے کے فوراََ بعد فوج سرینگر میں کریک ڈاون اور شہر کی ناکہ بندی کرکے بلا امتیاز لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گی۔ تاکہ اس مسلح بغاوت کا خاتمہ کردے جس پر قابو پانا حکومت کیلئیناممکن ہوگیا تھا۔ کشمیری پنڈتوں کے زیادہ ترگھرانے کرفیو کے نفازذ اوررات کے اندھیرے میں اپنے گھروں سے نکال کر گاڑیوں میں سوار کئے گئے، وہ لوگ کسی خوف میں مبتلا نہیں تھے۔ جس کا واضح ثبوت ہے کہ بہت سے کشمیری پنڈتوں نے اپنے گھر کی چابیاں اپنے ہمسایہ مسلمانوں کے حوالے کرکے ان سے کہا کہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور کشمیری مسلمانوں نے یقین دلایا اور ان سے کہاکہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور ان کے اس اعتماد پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے کشمیری پنڈت جموں سے سرینگرآکر بار بار اپنے علاقوں میں جانے اور اپنے گھروں وغیرہ کے محفوظ رہنے کایقین کرلیتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ درجنوں کشمیر ی پنڈت گھرانے گورنر جگموہن کی ترغیب و تحریک اور یقین دہانیوں کے باوجود کشمیر ہی میں رہے۔ ان میں سے جو گھرانے بہکاوے میں آکر جموں اور دوسرے علاقوں میں گئے وہ برابر اپنے کئے پر پچھتاتے رہے اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اعلانیہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کوکشمیری مسلمانوں نے وادی سے نہیں نکالا، بلکہ گورنر جگموہن اور اس کے ما تحتوں نے ہی ان کو وادی سے نکالا۔”

اب جہاں تک کشمیری مسلمانوں کا تعلق ہے توان کے ساتھ وہی ہوا جس کا خاکہ تیار کیا گیا تھا۔

“Committe For Initiative On Kashmir”کی چار رکنی کمیٹی کے اراکین جناب ٹپن بوس، دنیش موہن،گوتم نو لکھااور سمنتا بنرجی نے 12سے16 مارچ 90تک کشمیر کا دورہ کیا۔ ٹیم کے اراکین، زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ لوگوں سے ملے اور ایک تفصیلی رپورٹ تیا ر کی۔ رپورٹ کا ایک اقتباس:

جہاں یہ ٹیم اصولی طور پر ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے وہیں اس بات پر متفق ہے کہ کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی ہندوستانی ریاست کو یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ وہ ریاست کے کسی بھی حصے میں رہنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کے احترام اور تحفط فراہم کرنے کی ذمہ داری سے مبراہوسکیں۔ اس ٹیم پر حقائق کی روشنی میں یہ بات آشکارہ ہوئی کہ کشمیر میں ہندوستانی مسلح افواج اور سول انتظامیہ دہشت گردی کو روکنے میں با لکل ناکام رہے ہیں اور اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے وادی کے معصوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ٹیم نے جن ہندوستانی حکومت کے اہلکاروں سے بات کی وہ تمام کے تمام اسی نفسیاتی خوف کا شکار نظر آ ئے جس کے تحت وادی کا ہر شخص انہیں پاکستانی دہشت گرد نظر آتا ہے۔ انہی نفسیاتی کیفیات کے باعث وادی میں امن امان کے لئے جاری آپریشن اب وادی کے رہنے والوں کے لئے ذلت، مستقل خوف، عدم تحفط اور موت کا پیغام بن گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہاں کی آبادی کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں وہ سمجھتے ہیں کی بھارتی جبر و استبداد سے بچنے کا واحد راستہ نئی دہلی سے آزادی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار کشمیری حکومت کے ایک افسر کے بیان سے ہوتا ہے جب وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ۔ انیس جنوری تک میں عسکریت پسندوں کے خلاف تھا لیکن آج میں انکے ساتھ ہوں۔”

انڈین پیپلز فرنٹ (IPF) کی سات رکنی ٹیم نے فرنٹ کے سربراہ ناگ بھوشن پٹنائیک کی سربراہی میں جون 1990میں کشمیر کا دورہ کیا۔ ٹیم کے دوسرے اراکین میں ممبر پارلیمنٹ رامیشور پرساد، جنرل سیکرٹری (IPF)جناب دیپنکار بٹاچاریہ اور وائس پریذیڈنٹ (IPF) راماجی راؤ شامل تھے۔ ٹیم کے اراکین تقریباً ایک ہفتے کشمیر میں رہے۔ ان کی دی گئی رپورٹ کا ایک اقتباس ملاحظ فرمائیں۔

“ہم جہاں بھی گئے، جس سے بھی ملے، ہم نے جگ موہن کے مظالم کی داستانیں سنیں بھی اور محسوس بھی کیں۔ وہ مظالم جو 19جنوری سے25فروری تک پوری شدت کے ساتھ جاری رہیں۔ ہم اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ سابق گورنر کو اپنے جرائم کا حساب دینے کیلئے عدالت کے کٹہرے میں لانا چاہئیے۔ یہ صرف کشمیر میں سیاسی عمل شروع کرنے کیلئے ضروری نہیں بلکہ جمہوری اداروں پر اعتماد اور ان کی حفاظت کیلئے بھی یہ ضروری ہے۔”

29 مئی 1990ء کو انڈیپینڈنٹ اخبار لندن (Independent) کی یہ دلخراش کہانی بھی ایوارڈ یا فتہ بھارتی گورنر جگ موہن کی سفاکیت پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔

“ہندوستانی بربریت کے ایک چشم دید گواہ نے لوگوں کے ایک ہجوم پرہندوستانی پولیس (سنٹرل ریزرو پولیس فورس )کی اندھا دھند فائرنگ کا احوال اس طرح بیان کیا۔ فائر فائر فائر۔۔ ۔ لوگ گولیاں کھا کر گر رہے تھے۔ میں بھی نیچے گر پڑا۔ ہندوستانی پولیس نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں اور کراہتے ہوئے زخمی تھے۔ لیکن مجھے کوئی گولی نہ لگی میں زندہ اور محفوظ تھا۔ پھر ایک اہلکار بندوق تانے میرے پاس آیا۔ مجھ پر نشانہ تانا اور فائرنگ شروع کر دی۔ میں خوش قسمت تھا کہ اسکے جھکنے کے باعث گولی میری پشت کو چھوتی گزر گئی۔ اس نے چھ فائر کئے۔ ٹھک، ٹھک، ٹھک، ٹھک، ٹھکا ٹھک۔ میرا سر محفوز رہا اور میں نے اپنے ہوش بھی قائم رکھے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ پل پر ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ اس چشم دیدگواہ نے دیکھا کہ پولیس والے بندوق تانے لاشوں کے درمیان سے گزر رہے تھے اورزخمیوں کو مسلسل گولیاں مار رہے تھے۔ کسی بھی حرکت کرتے ہوئے جسم، کوئی بازو سر یا ٹانگ حرکت کرتی نظر آتی تو وہ فو راً گولیاں داغ دیتے۔ اور ساتھ ساتھ کہتے۔ ۔ ۔ تو تمھیں پاکستان چاہئے۔ تمھیں آزادی چاہئے۔ گولی داغتے اور کہتے۔ یہ لو اپنی آزادی۔۔ ۔ وہ جنوری کا آخری ہفتہ تھا۔ میں نے ایک ننھے لڑکے کو ایک سٹال کے نیچے کھڑا ا دیکھا۔ وہ اہلکار آیا اور اس معصوم بچے پر گولیاں داغ دیں جبکہ اس لڑکے نے ایک پتھر بھی پولیس والوں کی طرف نہیں پھینکا تھا۔”

مار دھاڑ، قتل و غارتگری، جلاؤ گھیراو کاسلسلہ صرف جگ موہن کے دور حکومت کا خاصہ رہا۔ یاد رہے گورنر جگمو ہن نے 20 جنوری 1990ء کو ریاستی گورنر کی حیثیت سے چارج سنبھالا، اور 22 مئی 1990ء کو انہیں فارغ کیا گیا۔ ان 123دنوں میں 74 دنوں کرفیو لگا رہا۔ ان 123دنوں میں پوری ریاست میں لوگوں کے مارنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہر روز لاشیں گرتی رہیں، جنازے اٹھتے رہے، جلاو گھیراو ہوتے رہے، پاکدامن خواتین کی عصمتوں کو داغدار بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اس سفاک گورنر نے کشمیری پنڈت بھائیوں کو تحریک آزادی کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے استعمال کیا گیا،اور اس آڑ میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے۔ ایسے شخص کو نریندر مودی کی حکومت نے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا۔ ایک کھلم کھلا پیغام ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پھر بھی سرنگ کے اس پار بعض لوگوں کو روشنی کی کرن نظر آرہی ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔


متعلقہ خبریں


فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف وجود - اتوار 05 مئی 2024

وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ریونیوکلیکشن سب بڑا چیلنج ہے ،جزا ء اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں،بہتری کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا...

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند وجود - اتوار 05 مئی 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں، ادارے آئین کی تابعداری کے لیے تیار ہیں تو گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے ، ڈائیلاگ کی بنیاد فارم 45ہے ، فارم 47کی جعلی حکومت قبول نہیں کرسکتے ، الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنے جس کے پاس مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے د...

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف وجود - اتوار 05 مئی 2024

ملک میں 8؍فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجو...

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت وجود - اتوار 05 مئی 2024

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے ) نے نان ٹیکس فائلر کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کی معذرت کر لی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2023 میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے 5...

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف وجود - اتوار 05 مئی 2024

کراچی میں پیپلزبس سروس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف کروا دیا گیا ۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے مسافروں کیلئے سفر مزید آسان ہوگیا۔ شہری اب کرائے کی ادائیگی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے ۔ سندھ حکومت نے آٹومیٹڈ فیئر کلیکشن سسٹم متعارف کرادیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی ش...

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا وجود - اتوار 05 مئی 2024

گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے اجلاس میں نگراں دور کے سیکریٹری فوڈ محمد محمود کو بھی طلب کیا تھا، جوکمیٹ...

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ وجود - هفته 04 مئی 2024

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں کیوں دفتر نہیں کھولتے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے چاہئی...

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق وجود - هفته 04 مئی 2024

یوم صحافت پر خضدار میں دھماکا، صحافی صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے ۔پولیس کے مطابق خضدار میں قومی شاہراہ پر سلطان ابراہیم خان روڈ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ایس ایچ او خضدار سٹی کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور 10 افراد زخمی ...

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر