وجود

... loading ...

وجود
وجود

اسٹیبلشمنٹ

هفته 16 جنوری 2016 اسٹیبلشمنٹ

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے؟

(اگر آپ لفظ غالب کے لغوی معنی کالم کے عنوان کی مناسبت سے نکالیں تو خاکسار کو کوئی اعتراض نہ ہوگا)

گجراتی زبان میں ان دنوں ساٹھ کی اوائل دہا ئی میں کراچی سے کل دو اخبار دن کے (ملت اور ڈان) اور ایک اخبار شام کا ہوتا تھا جس کا نام وطن تھا ۔ہمارے گجراتی اور میمن گھرانوں میں ان اخبارات کو بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا۔برطانیہ کے ایک قدامت پسند صحافی ہنری فیر لائی نے انہیں برسوں میں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح کو اپنے کالموں میں کثرت استعمال کی وجہ سے نئے معنی بخشے تھے۔

اہل گجرات جن کے ہاں ایک عرصے تک فوج اور ڈیرے دار طوائفوں کی طرح اعلیٰ تعلیم کو ترقی و کامیابی کی راہ میں بہت رکاوٹ سمجھا جاتا تھا،ان کے بڑے بوڑھے ا ن نامانوس اور گنجلک الفاظ سے بہت زچ ہوتے تھے۔ایسے ہی ایک صبح ناشتے کے دستر خوان پر مِلّت اخبار سے نگاہیں اٹھا کر نانا جان نے جھنجلا کر میمنی زبان میں ماموں سے پوچھا ’’ ہی گدھیڑی جو اسٹیبلشمنٹ آکھیر آئی کیر؟‘‘(یہ گدھے کا بچہ آخر اسٹیبلشمنٹ ہے کون؟) ماموں اس اچانک اور غصیلے سوال پر ہڑ بڑا گئے ۔یوں تو وہ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری اور انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا پر بالکل ایسے ہی جان نچھاور کرتے تھے جیسے ان دنوں ایک رنگ کی پگڑی والے اپنی دعوت اسلامی اور پان، گٹکے پر کرتے ہیں ،ماموں کو اس وقت تو فوری کوئی جواب نہ بن پڑا مگر وہ والد محترم کے ذوق ِتجسس کی تشفی کے لیے لفظ اسٹیبلشمنٹ کے معنی کی کھوج میں لگ گئے ۔ ان دنوں نہ تو وکی پیڈیا آیا تھا نہ ہی کوئی وکی لیک سے خائف تھا۔

ایک محفل میں یہ سلسلہ تضحیک و تحقیر ا س قدر طول پکڑ گیاکہ وزیر اعظم نے روتے ہوئے لارڈ بوتھ بائی سے پوچھا کہ وہ صرف یہ اعتراف کرلے کہ وہ ان کی ایک عدد صاحبزادی مسز سارہ میکملن ہیتھ کاباپ ہے۔

جہاں تہاں سے حضرت نے معنی نکال کر نانا کو بمشکل سمجھایا کہ اسٹیبلشمنٹ دراصل ایک ایسی غیر اعلانیہ طاقت ور اکائی ہوتی ہے جو بہ لحاظ تعداد اقلیت میں شمار ہوتی ہے مگر اثرانگیزی، قطعیت،معاملہ فہمی،زور آزمائی اور فیصلہ سازی میں اکثریت پر بھاری ہوتی ہے۔نانا جان نے یہ وضاحت سنی آنکھیں بند کرکے اپنی مرحوم ساس کی سفاکی اور دیگر اوصاف کے بارے میں سوچا تو اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح فوراً سمجھ میں آگئی وفور مسرت سے اپنے فہم و ادراک کا برملا اظہار بھی اپنی اہلیہ یعنی نانی جان سے کردیا ۔سننے میں آیا ہے کہ برخلاف اس کے کہ اس زمانے کی سبھی عورتیں رانی وکٹوریہ کے راج کے ہمہ وقت گن گاتی تھیں، اپنی والدہ کی برطانوی اسٹیبلشمنٹ سے اس گستاخانہ مماثلت کا سن کر نانی اماں، نانا جان کی اس بے لگام حس مزاح سے اتنی زچ ہوئیں تھیں کہ انہوں نے وصیت کی کہ انتقال کے بعد ان دونوں کو ایک قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔تابعدار اولاد نے بعینہ اس وصیت پر عمل بھی کیا۔

اب برطانیہ کا اسٹیبلشمنٹ کیا ہے؟ اتنی سی بوند جتنی تو بات ہے کہ بقول جگر مراد آبادی ع سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے۔ برطانیہ جہاں سیاست کبھی تو قدامت پسندی Conservative تو کبھی جدیدیت یعنی لیبر پارٹی کا عبایا پہن کر ٹھمکتی پھرتی ہے۔ وہاں اس اکائی کے دو سب بڑے محافظ ان کا راج پاٹ یعنی تاج برطانیہ اور دوسرا ہاؤس آف لارڈز یعنی ان کا دار الامرا ء ہے۔ہمارے دوست افضل رضوی کو ہمیشہ سے یہ اعتراض رہا کہ اگر پبلک ٹوائلیٹس کا خواتین کے زیر استعمال حصہ انگریزی لفظ Ladies سے منسوب ہوتا ہے تو دوسرا House of Lords کے نام سے منسوب ہونا چاہیے کیوں کہ لیڈیز کا انگریزی مذکر Gentlemen ہرگز نہیں بلکہ Lords ہے ۔

برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا خزینہ تو اس کے وہ ممبران ہیں جو منتخب نہیں بلکہ مقرر کئے جاتے ہیں۔ ان میں 26 تو ان کے پادری صاحبان ہیں۔ انہیں لارڈ اسپریچول کہتے ہیں۔( ہم بلاوجہ ہی اپنی اسلامک نظریاتی کونسل کی سر پھٹول پر دل میلا کر بیٹھے ہیں)ان کے علاوہ 92 لارڈ ٹیمپورل ہیں۔یہ خاندانی ممبر امراؤ ں کے ورثاء ہیں۔ اور ان کی رکنیت تاحیات چلتی رہتی ہے۔ انہیں ملکہ برطانیہ، وزیر اعظم کی تجویز پر مقرر کرتی ہے۔ان کی تعداد بھی مقرر نہیں اور حالیہ برسوں میں اُن کی تعداد ایوان زیریں کے ممبر صاحبان سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے سینیٹ کے ممبرز بھی جن کی مدت رکنیت بہت کھینچ تان کر بھی محض چھ برس ہوتی ہے، بہت ممکن ہے وہ بھی اس دار الامرا ء کے اجزائے ترکیبی اور کیفیت دوام سے دل ہی دل میں حسد محسوس کرتے ہوں ع کس کو خبر ہے میرؔ ؔسمندر پار کی

 کرسٹین کیلر

کرسٹین کیلر

برطانیہ کے اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں شور و غوغا اس وقت بلند ہوا جب سرد جنگ کے زمانے میں 19برس کی ایک خوبرو ،درجہ سوم کی ماڈل اور عریاں شو کرنے والی غریب لڑکی کرسٹین کیلر اور اس وقت کے برطانیہ کے وزیر جنگ لارڈ پروفمو ایک جنسی اسکینڈل میں ملوث پائے گئے۔بات یہاں تک ہوتی تو خیر تھی مگر اس کو لارڈ پروفمو اور دیگر افراد سے متعارف کرانے کا سہراڈاکٹر اسٹفین وارڈ کے سر بندھا ۔ جو پٹھوں اور ہڈی کے ڈاکٹر یعنی Osteopathتھے۔کرسٹین کیلر اور ایک اور لڑکی مینڈی رائیس ڈیوس کے ذریعے ان کی رسائی برطانیہ امریکہ اور روس کے مقتدر حلقوں تک ہوگئی جنس اور جاسوسی کا بازار یہیں سے گرم ہوا ۔

سرد جنگ کا زمانہ تھا روس امریکابرسر پیکار تھے۔ ویت نام ، کیوبا ، کوریا سبھی اس کے لپیٹ میں تھے۔ ڈاکٹر اسٹفین وارڈ جن کے شفاخانے اور سوادو کمروں کے آستانے پر روسی جاسوس اور برطانوی جاسوس جو برطانیہ کے اعلی خاندانوں کے افراد تھے ، ایڈیٹر ز، اور دیگر اہم افراد باہمی ملاقاتیں کرتے تھے۔ کرسٹین کیلر اس کے فلیٹ پر ہی رہا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ایسی پارٹیوں میں شامل ہوتی تھی جنہیں انگریزی زبان میں پاور پارٹیز کہا جاتا ہے ۔یہ بات آپ کے لیے باعث حیرت ہو کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم ۔آئی ۔ فائیو کے سربراہ راجر ھولیس بھی وہاں آتے تھے ۔ہالی ووڈ کے اداکار بھی اور صدر کینیڈی کے بہنوئی بھی۔ جیسے ہی یہ جنسی اسکینڈل طشت از بام ہوااور لارڈ ڈیننگ کی سربراہی میں ہونے والی تحقیقات کا آغاز ہوا تو اس کے نتیجے میں جاسوسی میں ملوث پائے جانے والے افراد میں سے تین تو بشمول رسوائے زمانہ جاسوس کم فل بی سبھی فرار ہوکر روس پہنچ گئے۔

ڈاکٹر اسٹفین وارڈ

ڈاکٹر اسٹفین وارڈ

اس کے مرکزی کردار ڈاکٹر اسٹفین وارڈ نے اس خوف سے کہ انہیں برطانوی اسٹیبلشمنٹ اپنے اہم افراد کو بے گناہ ثابت کرنے اور بچانے کے لیے قربانی کا بکرا بنائے گا۔ اندیشہ ہائے دور داز کے تحت خواب آور گولیاں کھا کرخودکشی کرلی۔لاڑد پروفمو کی ہمارے صدرفیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے بہت دوستی تھی،صدر خود بھی ایک مرتبہ اس طرح کی محفل شبینہ جس میں عریانی اوربے ہودگی کا ایک بازار گرم تھا شریک ہوئے تھے ۔یہ بکنگھم شائر کے ایک ایسے ولا میں منعقد ہوئی تھی جو برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے اہم رکن لارڈ بل ایسٹر کی ملکیت تھا۔ پاکستان میں جب سن 1963 ء میں اس حوالے سے خبریں اردو انگریزی اخبارات میں لیک ہوئیں تو پاکستانی ہائی کمیشن کی لندن میں دوڑیں لگ گئیں اور صدر محترم کا سرکاری دورہ منسوخ ہوتے ہوتے بچا۔

لاڑد پروفمو ابتدا میں تو کرسٹین کیلر کے ساتھ جنسی طور پر ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے ۔مگر بعد میں حکومت اور دار الامراء سے نہ صرف مستعفی ہوئے بلکہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں تنگ ہوکر جرائم کے کفارے کے لیے جسے انگریزی میں ’’private atonement‘‘ کہتے ہیں وہ برطانیہ کی اشرافیہ کا ممبر اور لارڈ ہونے کے باوجود لندن کے مشہور خیراتی مرکز Toynbee Hall میں ایک مدت تک فرش پر جھاڑو پوچا کرتے دکھائی دیتے تھے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر اسٹفین وارڈ کے خدشات درست ثابت ہوئے ۔مقدمے میں انہیں محض ایسے ایک گھٹیا کردارکے طور پر گردانا گیا جو کرسٹین کیلر اور مینڈی رائس ڈیوس جیسی طوائفوں کی آمدنی پر گزارا کرتا تھا۔اس فیصلے کو بہت سے تجزیہ کار برطانیہ کے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا انتقام گردانتے ہیں۔خود کرسٹین کیلر بھی بڑی بے باکی سے یہ الزام لگاتی ہے کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کی نیک نامی کے تحفظ میں بے حد مصلحت پسند ،مکار اور بے رحم تھا ۔

ان کے ہاں جو اس سلسلے میں انکوائری کمیشن لارڈ ڈیننگ کی سربراہی میں بنا تھا۔ اس نے بہت توجہ اور شفقت سے اس کی تمام گواہی سنی اور اسے بہت آہستگی ،اعتماد مگر کمال پُرکاری سے یہ وارننگ دی کہ اگر وہ اپنی زبان بند نہیں رکھے گی تو اسے ایک ایسے زنداں میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ سورج کی روشنی دیکھنے سے ساری عمر محروم رہے گی۔لارڈ ڈیننگ جن کی اس اسکینڈل کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ سن 1963 میں سامنے آئی ۔کرسٹین کیلر کے نزدیک ایک جھوٹ کا پلندہ ہے جس نے واقعات کے بیان میں اپنے زاویے ڈال کر اس اسکینڈل میں ملوث اہم کرداروں کو تحفظ فراہم کیا ۔اس بدنام زمانہ معصومہ کا یہ فقرہ بھی بہت اہم ہے کہ

’’Denning lived a lie from the summer of 1963 and I don’t know how his conscience allowed him to do so,

’’ڈیینگ اس جھوٹ کے ساتھ 1963 کے سرما سے مسلسل زندہ رہا میں نہیں جانتی کہ اس کے ضمیر نے اسے کیسے جینے دیا‘‘

اگر تحقیقاتی رپورٹوں میں بیان کردہ مصلحت پسندی اور بے ضمیری کی وجہ سے لوگوں کی اموات ہوتیں تو پاکستان کی عدلیہ اور انتظامیہ کے بہت اہم اور سرکردہ افراداپنی اپنی خواب گاہوں میں دم گھٹنے کی وجہ سے مردہ پائے گئے ہوتے۔ایک مصنف نے اپنی کتاب شیم میں لکھا تھا کہ’’ بے حیائی(بے ضمیری) ایک فرنیچر کی طرح ہوتی ہے آپ کو رفتہ رفتہ یہ آنکھوں میں نہیں کھٹکتی اور اس کے ساتھ رہنے کی عادت ہوجاتی ہے۔‘‘

وہ تو اپنی الزام تراشی میں اس حد تک آگے نکل گئی کہ اس نے ڈاکٹر اسٹفین وارڈ جسے وہ spymaster کے لقب سے یاد کرتی ہے،اس کے اسی گھر پر روس اور امریکا کا میزائل پروگرام زیر بحث رہتا تھا۔ مختلف ایجنٹوں کو اس کے سامنے رقم دی جاتی تھی۔اس کے ہاں اور دیگر محافل شبینہ میں جو کچھ سنا ہے ۔اس میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے شوہر کے پرنس فلپ کا معاشقہ ہیلن کورڈٹ کے ساتھ بالاخر ایک فرزند کی ولادت تک جاپہنچا تھا۔

جان ایف کینڈی اور ہیرلڈ میکملن

جان ایف کینڈی اور ہیرلڈ میکملن

اس کے علاوہ بھی کچھ خواتین اور بھی پرنس فلپ کے حلقۂ احباب میں تھیں اور وہ اپنی گواہی میں اس حد تک آگے نکل گئی ہے کہ اس نے نو امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل کے خدشات بھی ظاہر کیے تھے جو جج صاحب نے اور اس وقت کے وزیر اعظم برطانیہ ہیرلڈ میکملن جن کی بیوی کا ایک عاشق لارڈ بوتھ بائی اُ ن کی بھری محفلوں میں بے عزتی اور رسوائی کرتا تھا ۔وہ کہتی ہے کہ ایک محفل میں یہ سلسلہ تضحیک و تحقیر ا س قدر طول پکڑ گیاکہ وزیر اعظم نے روتے ہوئے لارڈ بوتھ بائی سے پوچھا کہ وہ صرف یہ اعتراف کرلے کہ وہ ان کی ایک عدد صاحبزادی مسز سارہ میکملن ہیتھ کاباپ ہے۔

لارڈ ڈیننگ نے جاسوسی اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے سب الزامات وغیرہ رد کردیئے۔لیکن وزیر اعظم ہیرالڈ میکملن نے بھی محض اس کی غربت اورکم حیثیت اور دیگر ملوث افراد کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں اس تضحیک کے ساتھ قابل یقین وعمل نہیں سمجھا کہ موصوف کہا کرتے تھے کہ

” I WAS DETERMINED THAT NO BRITISIH GOVERNMENT SHOULD BE BROUGHT DOWN BY THE ACTIONS OF TWO TARTS”

’’میں نہیں چاہتا کہ کوئی برطانوی حکومت دو طوائفوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گھر چلی جائیــ‘‘

وزیر اعظم ہیرلڈ میکملن کے بڑے بول سامنے آئے ، موصوف نے کچھ دن بعد خرابی ٔ صحت کا بہانہ بنا کر استعفیٰ دیا اور ان کی لیبر پارٹی بھی اس سال الیکشن ہار گئی۔( جاری ہے)


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر