... loading ...
ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کیلئے مربوط کام کی ضرورت اول روز سے ہے ۔ اس کمی کی وجہ سے حالات اس ڈگر پر پہنچ چکے ہیں ۔ اگر منصوبوں اور پالیسیوں کو بروقت عملی جامہ پہنایا جاتا تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ ایسا ہی معاملہ بلوچستان کے ساتھ ہوا۔ جنرل مشرف حاکم مطلق تھے اس نے آگ بھڑکائی, قتل و غارت گری شروع ہوئی حکومت سمیت سب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دیکھتے رہیں ۔ اس طرح یہ آگ ایسی بے قابو ہوگئی کہ کچھ ہی عرصے میں صوبے کے غالب حصے کو لپیٹ میں لے لیا ۔ جام یوسف کا پانچ سالہ دور حکومت بے بسی میں گذر گیا ۔ فروری2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ، یعنی آصف علی زرداری کی حکومت میں بھی برابر شعلے بلند ہوتے رہے ، مگر اسے بجھانے کی عملاً کوئی سعی نہ ہوئی۔ محض دعوؤں اور اعلانات تک اپنی کارکردگی محدود رکھی گئی۔ یہی دورفاٹا اور خیبر پشتونخوا میں طالبان کے اثر و رسوخ میں اضافے کا تھا اور یہی زمانہ بلوچستان میں شدت پسندی کے پھیلاؤ کا بھی رہا۔ جتنی بھی کمیٹیاں مسلح تنظیموں کے بیرون ملک رہنماؤں سے ملاقاتوں کیلئے بنائی گئیں سب نام کی حد تک تھیں جن کا کام ’’زیرو‘‘ تھا۔ گویا بلوچستان کو افواج ، حکومتوں اور سول اداروں نے یہاں تک پہنچایا۔ پولیس ،لیویز ،ڈپٹی کمشنر ، حکومتیں اور عدالتیں بے بسی کی تصویر بن گئیں ۔بلکہ ان کی خاموشی،مصلحتوں اور عدم فرض شناسی نے مسائل کے انبار کھڑے کردیئے۔
جنرل راحیل شریف کی سرپرستی میں کور کمانڈر کانفرنس (10نومبر2015) میں بجا طور پر گڈ گورننس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ البتہ اس بابت تحفظات کو اخبارات یا ذرائع ابلاغ کی زینت بنانے کے بجائے معروف طریقہ کار کے مطابق حکومت کو آگاہ کرنا چاہیے تھا ۔ تاکہ کوئی نئی بحث کے چھڑنے اور اندیشوں کے اظہار کا موقع نہ ملتا۔ تحقیقات کیلئے قائم کی گئی مشترکہ ٹیمیں (جے آئی ٹیز) ترجیحی بنیادوں پر اپنا کام مکمل نہیں کرے گی تو لا محالہ اس سے مطلوب کام شدید متاثر ہونے کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ اسی گڈ گورننس کے فقدان کے باعث بلوچستان کے اندر تخریب کاری اور دہشت گردی کا راج ہے ۔ سیاسی لوگوں نے پولیس، کمشنر اور ڈپٹی کمشنروں کو حکومت کے بجائے اپنا نوکر سمجھ رکھا ہے۔ یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آج بھی ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی متعلقہ اضلاع کے وزیر اور رکن اسمبلی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ بلکہ وزراصاحبان پسند کے ڈپٹی کمشنر کو ڈھونڈ کر تعینات کراتے ہیں اور پھر وہ آفیسر فرائض منصبی کی بجائے ان کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ بلوچستان کے اندر تمام سیاسی جماعتوں کا یہی طرز عمل ہے۔ سول بیوروکریسی وزرا شاہی اور فوج کی دسترس میں ہے ۔ حکومتوں کی بے اختیاری کا معاملہ بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ بلوچستان کے حالات کو قابو میں رکھنا کم از کم کسی ڈاکٹر عبدالمالک ، کسی محمود خان اچکزئی یا کسی مولوی اور سردار کے بس کی بات نہیں ہے ۔نہ ہی لیویز اور پولیس کی کمزور جسامت امن کے قیام اور سماج دشمن عناصر کی سرکوبی پر قادر ہے۔ آصف علی زرداری نے پانچ سال ،وقت گزاری میں صرف کئے ۔نواز شریف اڑھائی سال مکمل کرنے کو ہیں مگر بلوچستان کا معاملہ جوں کا توں پڑا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے توسط سے ۱۱؍ نومبر کو پھر براہمداغ بگٹی نے بات چیت کا عندیہ دیا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے پاس کوئی اختیار نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ براہمداغ بگٹی با اختیار لوگوں سے بات چیت پر آمادہ ہیں ۔ اور یہ با اختیار لوگ فوجی ہیں ۔سو ا ل یہ ہے کہ با اختیار لوگ بیرون ملک بیٹھے بلوچ شدت پسند رہنماؤں کو منا کر کیوں نہیں لا تے ؟براہمداغ بگٹی کے مطابق ان سے ڈاکٹر عبدالمالک اور وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے جنیوا میں ملاقات کی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جن کے پاس حالات بہتر کرنے کا اختیار ہے وہ آکر بات کریں۔ اگر امن کے قیام میں گڈ گورننس مسئلہ بنا ہوا ہے تو یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ با اختیار لوگ بھی پسند و نا پسند کی پالیسی اپنا چکے ہیں۔ وہ اپنا نکتہ نظر اور اپنی خواہش کو ترجیح دیتے ہیں۔ غرض نقص کسی ایک کی بجائے کئی جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ نواب جنگیز مری تو ان رہنماؤں کے آنے میں فائدہ ہی نہیں دیکھ رہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان کے آنے سے حالات مزید خراب ہوں گے۔
ناراض رہنماؤں کو واپس لانے کا کہہ کر ہمارے لئے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔ اگر وہ واپس آتے ہیں تو اس کے بعد بھی وہی کچھ کریں گے اس لئے یہ فیصلہ درست نہیں اور یہ دُہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔ پہلے انہیں کمزور کرنا چاہیے اور وہ بڑی حد تک کمزور ہو بھی چکے ہیں۔ جنگیز مری کہتے ہیں کہ ان رہنماوؤں سے مذاکرات کے حوالے سے انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔ دراصل جنگیز مری کو اپنے خاندان میں مشکلات درپیش ہیں۔ ان کا قبیلہ مسلح مزاحمت کی راہ پر ہے۔ تین بھائی علیحدگی پسند ی کی تبلیغ کررہے ہیں۔ اگر کوئی افہام و تفہیم ہوتی ہے اور وہ بلوچستان لوٹ آتے ہیں تو یقینا جنگیز مری مشکلات سے دور چار ہوں گے۔ سرداری اور نوابی کے نظام کی جڑیں بلوچستان میں اب بھی مضبوط اور پیوست ہیں۔’’سنڈیمن‘‘کی طرح سرداری نظام کو فوج بھی توانا دیکھنا چاہتی ہے ۔ چنانچہ حکومت اور فوج کو سرداروں اور نوابوں کی بجائے قومی مفاد کو آگے بڑھانا اور امن کی صورت پیدا کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ حکومت اور سول اداروں سمیت فوج اور ان کے اداروں کو بھی اپنی خامیوں پر نظر رکھنی چاہیے کہ آیا یہ خامیاں مسائل کا باعث تو نہیں بن رہیں۔ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتیں دونوں’’ شریفوں ‘‘ کے ساتھ ہیں ۔فوج کی قطعی مرضی اس حکو مت کی تشکیل میں شامل تھی ۔سب پر عیاں ہے کہ دراصل حکومت کی نگرانی کہاں سے ہو رہی ہے ۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کر دیا۔وزیراعظم نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کرنے کی منظوری دی۔کابینہ ڈویژن نے اس ضمن میں نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے ۔وزیر خارجہ اس وقت وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ حکومت پاکستان...
وزیراعظم شہبازشریف اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان سعودی عرب میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران غیررسمی اہم ملاقات ہوئی جہاں پاکستان کے ایک اور قرض پروگرام میں داخل ہونے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔تفصیلات کے مطا...
غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں امریکا سے شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا ہے ۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اب برطانیہ، اٹلی، فرانس اور آسٹریلیا کے طلبہ بھی میدان میں آگئے ، انہوں نے اسرائیلی کمپنیوں سے تعلقات منقطع کرنے کی حمایت کی ہے۔ ادھر کولمبیا یونیورسٹی ...
حساس ادارے نے چھاپہ مار کارروائی میں کراچی اور بلوچستان کی پولیس کو انتہائی مطلوب دہشت گرد سمیت 3 افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کر لیا، گرفتار دہشت گرد کالعدم بی ایل اے کے لیے ریکی اور دہشت گردی کی متعدد واردتوں میں ملوث رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق دہشت گرد اور اس کے ساتھی کو اب...
درآمد شدہ گندم مقررہ ضرورت و اجازت سے زائد منگوائے جانے اورپرائیویٹ سیکٹر کو نوازے جانے کا انکشاف ہوا ہے ،بیوروکریسی کے غلط فیصلوں سے قومی خزانہ کو ایک ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے ۔ ذرائع کے مطابق نیشنل فوڈ سکیورٹی نے ضرورت سے زیادہ گندم ہونے کے باوجود 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم د...
سکھ فار جسٹس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا میں بھارت کی ناکام قاتلانہ سازش کا شکار سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے...
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دیے جانے کی تصدیق ک...
امریکا کی مختلف جامعات میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں گرفتار طلبہ اور اساتذہ کی تعداد ساڑھے پانچ سو تک جا پہنچی ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے صیہونیوں کیخلاف نعروں پر طلبہ کو جامعہ سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ صہیونی ریاست کیخلاف احتجاج آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گئے ۔ سڈن...
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیمرا کو اس ضمن میں ...
کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈیونٹ مسروقہ گاڑیاں برآمد کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اے وی ایل سی کی جانب سے شہریوں کی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل(اے وی ایل سی)گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی ...
کراچی میں ناکے لگا کر شہریوں کے چالان کرنا ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی چیکنگ پر ایکشن لے لیا۔ڈی آئی جی نے ایس او محمود آباد اور ریکارڈ کیپر سمیت 17افسران و اہلکاروں کو معطل ...
آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شکارپور سے کراچی رینج میں تبادلہ کیے جانے والے پولیس افسران کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اِن اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائیگی۔ترجمان پولیس کے مطابق اہلکاروں کے خلاف ملزمان کے سات...