وجود

... loading ...

وجود
وجود

حلقہ ارباب فنونِ لطیفہ

اتوار 08 نومبر 2015 حلقہ ارباب فنونِ لطیفہ

وہ اکثر محافل میں زیادہ بات چیت نہیں کرتا ۔ہاں البتہ اپنے بے تکلف دوستوں اور اپنے والد مبارک احمد مرحوم کے بزرگ دوستوں کی منڈلیوں میں خوب چہکتا اور محفل میں رنگ جماتا ہے۔

اس نے کہا کہ مجھے پھر ایک سرکاری ادارے سے فون آیا کہ اپ اپنا بائیو ڈیٹا ، شناختی کارڈاورایک عدد تصویر بھیج دیں ۔اور ہاں اس کام میں دیر نہ لگائی جائے جتنی جلدی یہ کام کر دیں ہماری سہولت کے لیے بہتر ہو گا۔ اس سات کتابوں کے مصنف نے کہا کہ بھائی وہ سب تو ٹھیک ہے مگر اونے پونے اتنی جلدی کاہے کی اور کس مقصد کے لیے آپ مجھے اتنی جلدی ڈال رہے ہیں ۔سرکاری ملازم نے کہا کہ آپ کا نام پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے اسلام آباد بھیجناہے اور پلیز اس بات کا ذکر کسی سے نہ کیجیے گا۔اس نے کہا کہ میں نے ایساکیا کیا ہے کہ آپ کو میں ہی نظر آیا ہوں ۔ملازم نے پھر درخواست کی کہ سر آپ کا نام ہی یہاں سے فائنل ہوا ہے آپ فور اً مطلوبہ فائل بھیج دیں تا کہ اگلی کارروائی کے لیے فائل روانہ کی جائے۔ اس نے پہلے والی ہٹ دھرمی سے کہاکہ میری محفل میں ادبی خدمت کرنے والوں میں مجھ سے کہیں زیادہ سینئرز موجود ہیں کیا آپ کو وہ نظر نہیں آتے۔سرکاری کارندے نے عاجز انہ انداز میں کہا کہ سر جی بہر حال آپ کو اطلاع کرنا مقصود تھا ،آپ نظر ثانی کر لیں ۔میرے عزیزو!آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ آخر وہ کون سر پھرا شخص ہوسکتا ہے جسے کسی سول ایوارڈ کی آفر ہو اور وہ اپنی ذات پر اپنے سینئردوستوں کو ترجیح دے رہا ہو ۔۔۔۔۔۔اس سے ملیے ،یہ ہے ایرج مبارک۔یاد رہے کہ ایرج مبارک معروف شاعر مبارک احد کا فرزندارجمند ہے جو خود بھی افسانہ نگار اور شاعر ہے۔اپنے باپ کا اتنا مودب بیٹا شاید ہی کسی نے دیکھا ہو جو اپنے باپ کے مرنے کے بعد باپ کے دوستوں کو وہی مقام دے رہا ہو جو باپ نے دے رکھا تھا۔بتاتی چلوں کہ اس کے باپ کے دوستوں میں انتظار حسین،مسعود اشعر،اکرام اﷲ،زاہد ڈاروغیرہ ہیں۔ایرج مبارک حلقہ ارباب فنون لطیفہ کے تحت ماہانہ ادبی تقریب سجاتا ہے اور اس میں یہ ادب کی اربعہ چٹانیں محفل کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں ۔جونیئر لکھنے والوں کو ان کی موجودگی سے اعتماد اور حوصلہ ملتا ہے۔اور ان کے زیر سایہ ایک تحفظ کا بھی احساس ہوتا ہے۔شہر میں اگر چہ ادبی محافل کی کمی نہیں مگر حلقہ فنون و ادب نہایت سفسٹیکیٹد ادبی محفل ہوتی ہے جس میں فنون لطیفہ سے متعلقہ موضوع طے کیا جاتا ہے پھر اس پر محفل برپا کی جاتی ہے۔اکثر اوقات گپ شپ ہوتی ہے جس میں موجودہ حالات پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور محفل کا صدر جو عموماً انتظار حسین ہی ہوتا ہے تقریب میں اپنا صدارتی خطاب کرتا ہے۔یہ محفل اصل میں خود سے ملنے کا بہانہ ہی ہوتی ہے جہاں ہم اپنا وقت خود کو دے رہے ہوتے ہیں ورنہ تو ساری زندگی دوسروں کے لیے بِتا دیتے ہیں۔مجھے یہاں مبارک احمد کے کچھ اشعار یاد آ گئے ۔ وہ کہتے ہیں:

ڈھونڈ نے ہم کو زمانہ نکلا
خود سے ملنے کا بہانہ نکلا
پڑے رہتے ہیں پسِ پردۂ فقر
کوئی اپنا بھی ٹھکانہ نکلا
جان نکلی کہ ہوا قصہ تمام
ان کے پڑھنے کو فسانہ نکلا
ہم مبارک کو نیا سمجھے مگر
آدمی وہ تو پرانا نکلا

جو اپنی قدروں ریتوں رسموں کو ساتھ لے کر چلتاہے وہ تو پرانا ہی ہوتا ہے ۔پرانا ہونے پر ہمیں فخر ہے کیوں کہ اسی کو ثبات ہے ۔ بزرگ کہا کرتے تھے تو ٹھیک ہی کہا کرتے تھے کہ ’’نوا نو دن پرانا سو دن‘‘( نیا صرف نو دن رہے گا اور پرانا سو دن تک چلتا ہے )

بات ہو رہی تھی ایرج مبارک کی ۔تو دوستو ! یہ اپنے باپ کا وہ سپوت ہے جوبزرگوں کے احترام میں اور رشتوں کی پالنا میں تو اقدار کی انگلی تھام کر چلتا ہے مگر ادب میں اس نے اپنے بزرگوں سے ہٹ کر کچھ غیر محسوس طریقے سے تخلیقی تجربے کیے ہیں ۔یہ تجربے اس کی نثر میں زیادہ نکھر کر سامنے آئے ہیں مگر اپنی نظم میں بھی وہ انفرادیت رکھتا ہے۔منیر نیازی کی طرح کبھی کبھی تو انتہائی مختصر نظم میں کوئی بڑا جہان مقید کر دیتا ہے ۔منیر نیازی مختصر نظم میں جب جہان قید کرتا ہے تو ایک خاص دائرے میں رہتا ہے ۔بس نشان دہی کرتا ہے ، دائرے کو توڑنے یا تبدیل کرنے کی بظاہر کوئی لائن نہیں کھینچتا۔وہ اسی دائرے میں رہتے ہوئے تمام بات اسی جہان کی کرتا ہے ۔گرچہ اس کے مخالفین سر دھنتے رہ جاتے ہیں ،تلملاتے رہ جاتے ہیں مگر اس نے جتنا کہنا ہوتا ہے وہ من مانی کرتا ہے مثلا وہ جب کہتا ہے کہ

اپنے ای ڈر توں جڑے ہوئے نیں
اک دوجے دے نال
شہر دے مکان

یعنی اس نظم میں وہ شہروں میں بسنے والے لوگوں کی بے حسی ،بے بسی اور خوف کی بات کرتا ہے تو باقی بات وہ اپنے قارئین پر چھوڑ تا ہے کہ وہ اس کرب اور دکھ کو خود محسوس کریں یا اس کا خاتمہ کریں ۔وہ ولی کی طرح بس نشاندہی کرتا ہے ۔ وہ پرے ہو کے تماشا دیکھتا ہے۔نہ تو کوئی سرزنش کرتا ہے اور نہ ہی حکم صادر کرتا ہے۔نہ کوئی مشورہ دیتا ہے نہ ہی دلیل چاہتا ہے ۔ایرج کی شاعری میں ایک نئی بات یہ ہے کہ وہ اپنی مختصر نظم میں نئی جرات دیتا ہے چاہے وہ ادب کی روایت توڑے ،چاہے وہ ادب کی ریاست میں نئی اینٹ لگائے مگر وہ اپنی بات کہنے سے گریز پا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک نظم دیکھیے جس کا نام ہے’’شرط ِتحّرک‘‘:

شرط ہے
رقص کے لیے
پاؤں زمیں سے رشتہ
ایک لمحہ کو توڑے
وہ پرے ہو کے تماشا دیکھتا ہے۔نہ تو کوئی سرزنش کرتا ہے اور نہ ہی حکم صادر کرتا ہے۔نہ کوئی مشورہ دیتا ہے نہ ہی دلیل چاہتا ہے ۔

نڈر تو منیر نیازی بھی بہت تھا ۔اس نے خوف وتحّیر کو ایک طاقت کے طور پر استعمال کیا اس نے شاعری میں اپنے منفرد اسلوب سے خود کو منوایا۔ ایرج مبارک نہ تو مشاعرے پڑھتا ہے اور نہ ہی اس نے کبھی شاعر ہونے دعویٰ کیا ہے مگر اس کی شاعری میں جرات اور دلیری اور منفی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرنا ، چیلنج کرنا اور مقابلہ کرنا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی نظم ’’ناٹکِ کردار‘‘ میں کہتا ہے کہ
میں جوہر کار ہوں
حلقہ ء ارباب نظر
جوہر شناس
تم کون ہو؟؟؟؟؟؟
گویا روایت و جدت کے ہمراہ چلنا پسند کرتا ہے ۔اور مخالف قوتوں کو چِت کرنے سے پہلے موازنے کے لیے اپنی شفاف و متبرک اقدار کا تعارف دیتا ہے پھر اگلے کا شجرہ چیلنج کرتا ہے۔لڑتا ہے مگر اصول کے ساتھ۔جیسے ڈاکٹر اختر شمار کہتے ہیں :

دشمنی کر مگر اصول کے ساتھ،
مجھ پہ اتنی سی مہربانی ہو
میرے معیار کا تقاضا ہے،
میرا دشمن بھی خاندانی ہو

ایرج اپنے اصولوں کو صرف تحریر کی حد تک محدود نہیں کرتا بلکہ یہ چیز اس کی عملی زندگی میں بھی نمایاں ہیں۔ کہ محفل میں اگر سامنے انتظار حسین ،مسعود اشعر ، اکرام اﷲ اورزاہد ڈار ہوتے ہیں تو ان کے سامنے والی کرسیوں پر شفیق ؔاحمد خان، ڈاکٹر غافر ؔشہزاد،جمیل احمد عدیل ؔوغیرہ ہی ہوتے ہیں ۔جہاں ایسی محافل میں ایک جنریشن دوسری جنریشن سے محو کلام ہوتی ہے تو وہاں تخلیقی سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے۔ایرج مبارک اپنے باپ مبارک احمد کی طرح دوست دار آدمی ہے۔وہ زندگی میں بہت حساس واقع ہوا ہے، اپنے لیے کم مگر اپنے ابا حضور کے دوستوں کے لیے زیادہ۔یہ اس کی اخلاقیات ہے جو نا خلفوں کے لیے مشعل راہ ہے۔جو اپنے بڑوں کا احترام نہیں کرتا پھر تاریخ بھی اس کا نام کبھی بہتر حروف میں نہیں لیتی۔


متعلقہ خبریں


کون کس سے کیا پوچھے؟ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - منگل 03 نومبر 2015

دعوے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ثابت ہو گیا تو دعویٰ کرنے والا معتبر اور اگر بد قسمتی سے دعوے دار اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے تو نہ صرف اس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں بلکہ لوگ اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔اسے صدیوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کا نہ پورا ہ...

کون کس سے کیا پوچھے؟

نا اہل اساتذہ۔۔۔۔۔جعلی ڈگریاں ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - هفته 17 اکتوبر 2015

ہم روز رونا روتے ہیں کہ فلاں جگہ اتنے بے گناہ مارے گیے ۔ فلاں جگہ ڈاکو اتنی نقدی اور طلائی زیورات لے کر گھر والوں کوایک کمرے میں بند کر کے چلے گیے ۔ محلے داروں نے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ توڑااور لٹیروں کے ہاتھوں برباد ہونے والے یر غمالیوں کو رہائی دلوائی۔چھوٹے بچوں ک...

نا اہل اساتذہ۔۔۔۔۔جعلی ڈگریاں

جاہل اور منافق دونوں بوجھ ہیں زمین پر ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - پیر 12 اکتوبر 2015

دوزخ نامہ بنگالی زبان میں لکھا جانے والا شاہ کار ناول ہے جس میں پہلی بار منٹو بہ مکالمہ غالب دکھایا گیا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نام دوزخ نامہ اور گفتگو منٹو اور غالب کی۔۔۔جی ہاں! تو جنابِ والایہ دونوں کردار اس ناول میں جہنم میں محو کلام ہیں ۔اس سے قبل بھی اس عظیم ناول نگا ر،ربی س...

جاہل اور منافق دونوں بوجھ ہیں زمین پر

مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر