وجود

... loading ...

وجود
وجود

کون کس سے کیا پوچھے؟

منگل 03 نومبر 2015 کون کس سے کیا پوچھے؟

people

دعوے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ثابت ہو گیا تو دعویٰ کرنے والا معتبر اور اگر بد قسمتی سے دعوے دار اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے تو نہ صرف اس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں بلکہ لوگ اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔اسے صدیوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کا نہ پورا ہونے والا دعویٰ ہمیشہ کے لیے اس کا دردِ سر بن جاتا ہے۔عہدِ حاضر خوابوں کی دنیا سے باہر کے جہانوں میں سفر کر رہا ہے۔آج کے اسٹیج پر پرفارمنس جلد پرکھ لی جاتی ہے۔تو صاحب !یہ سب جانتے مانتے ہوئے بھی عوام کے جمِ غفیر کو تگنی کا ناچ نچایا جا رہا ہوتا ہے۔مکار اور عیار مگر مچھ زمینی حقائق کے سرا سر اُلٹ کہانی پیش کر کے لوگوں کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں اور جز وقتی لالی پاپ معصوم لوگوں کے منہ میں دے کر خاموش کروا دیتے ہیں ۔

سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۴۲ میں ہے کہ:

’’باطل کا رنگ چڑھا کرحق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو‘‘

ہمارے اسلامی ملک ہونے کے باوجود اس کے کرتا دھرتا اس آیت سے صریحاً انکار و انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں مگر مصلحت کے پردوں میں سچائی کو لپیٹ کر، کیا سے کیا تاویلیں پیش کر کے بات کو الجھا دیا جاتا ہے۔جن معصوموں کو پچھلی تقریباً آدھی صدی سے حیلوں بہانوں سے بیوقوف بنایا جارہا ہے وہ ان مگر مچھوں کے چنگل سے تو نہیں نکل پا رہے مگر لگتا یوں ہے کہ انہیں کچھ کچھ ادراک ہو گیا ہے کہ ان کی محنت پر پلنے والے کس بے دردی سے ان کا حق کھا رہے ہیں ۔مفاد پرست عناصر کے گھسے پٹے دعوؤں اور جھوٹے نعروں سے خلاصی ضروری ہو گئی ہے۔بے یارو مدد گار عوام کو کھوکھلے نعروں کی نہیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں اور پیٹ کے ایندھن کی ضرورت ہے۔موجودہ حالات اس ڈگرپر چل رہے ہیں کہ جس میں ایک نظام مسلط ہے ۔اس نظام میں لوگ اپنے جائز مطالبات اور حقوق کے لیے سفارش رشوت اور وزیروں مشیروں اور اراکین اسمبلی کے محتاج ہوتے ہیں ۔وہ عدل وانصاف جو عوام کی دہلیز پر موجود ہونا تھا وہ کہیں وڈیروں کی حویلیوں کے کباڑ خانوں میں دفن ہو چکا لگتا ہے۔

پاکستان میں زندگی سے رشتہ جوڑے رکھنے والے غریبوں کو بلٹ پروف گاڑیوں میں پلنے والے گلیمر کی نہیں مخلص اور اہل حکمرانوں کی ضرورت ہے

اس نظام کے مسلط کرنے والوں کا بظاہر کوئی نام نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک کردار ہوتا ہے ۔ملکِ پاکستان میں زندگی سے رشتہ جوڑے رکھنے والے غریبوں کو بلٹ پروف گاڑیوں میں پلنے والے گلیمر کی نہیں مخلص اور اہل حکمرانوں کی ضرورت ہے۔اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ مخلص اور اہل حکمران آئیں گے کہاں سے؟ زمین کے پاس جو کچھ تھا اس نے پیش کر دیا ۔ویسے بھی نیچر کا قاعدہ یہی ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی حکمران ان پر مسلط ہوتے ہیں ۔ظاہر ہے عوامی نمائندے کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں ہوتے زمین کی ہی پیدا وار ہوتے ہیں۔مجھے تو ڈر ہے کہ آنے والے وقتوں میں لوگ ہمیں ان لفظوں میں یاد نہ کریں کہ یہاں ایک ایسی قوم بھی بستی تھی جو پچاس روپے پر جیب کترے کو مار مار کر لہو لہان کر دیتی تھی مگر پچاس ارب روپے کرپشن کرنے والے کو حکمران منتخب کر لیتی تھی۔۔۔۔۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جو کہ کمزور دماغوں کے افکار ہوتے ہیں ۔ہمارے دانشور اور لکھنے پڑھنے والے تقاریب پر الزامات لگانے اور منفی تنقید پر جُت گئے ہیں جو کہ درمیانے درجے کے دماغوں کا کام ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں شاید اچھے دماغوں کے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں جو خیالات پر تنقید کرتے ہیں۔خیالات پر تبادلۂ خیالات کرنا اچھی اور صحتمندانہ سرگرمی ہے۔ تنقید اور تنقیص دو الگ الگ لفظ اور الگ الگ معنی رکھتے ہیں ۔لفظوں اور ان کے معانی کو سمجھنا ہی دانشوری ہے ۔ دانش ، حکمت اور علم انبیاء کی میراث ہے۔ اس میراث کو سید ضمیر جعفری زندگی کہتے ہیں۔ اس زندگی کوہم نے بڑی چابک دستی سے جھوٹے اور جعلی معیاراتِ حیات میں تبدیل کر دیا ہے۔ضمیر جعفری دردِ دل رکھنے والے شاعر تھے ، اُن کے کتھارسس کا اپنا انداز تھا :

تھا کبھی عِلم آدمی، دل آدمی، پیار آدمی
آج کل زر آدمی، قصر آدمی، کار آدمی
کلبلاتی بستیاں ، مشکل سے دو چار آدمی
کتنا کمیاب آدمی ، کتنا بسیار آدمی
زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی
کتنا اُونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی

معیار زندگی بھی تو امیروں کے چونچلے ہیں ۔غریب کی ڈکشنری میں آپ کو اس کی جگہ بصیرت تو مل سکتی ہے مگر زندگی کرنے میں ہزار ہا مقاماتِ آہ و فغاں پاؤں کی زنجیربنے ہوتے ہیں۔ ہر حوصلے اور تسلی پر پھر سے اعتماد کر لیا جاتا ہے ۔پچھلے غم غلط کرنے کو نئے الیکشن کا شور شرابا جعلی مرہم بناتا اور بانٹتا ہے۔

پھر بلدیاتی الیکشن ہو جاتے ہیں۔کچھ نئے اور کچھ پرانے چہرے سامنے آ جاتے ہیں ۔انتظامی اختیارات اور پالیسی سازی کا انجن افسرِ شاہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اورباقی ٹرین کے ڈبے عوام کے۔جب کہ دیکھا جائے تو آئین کی رو سے صوبے مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے کے پابند ہیں۔لوکل گورنمنٹ ایکٹ ۲۰۱۳ کے تحت یونین کونسل،ضلع و تحصیل کی سطح پر چیئر مین اور وائس چیئرمین ہوں گے جب کہ میٹرو پولیٹن شہروں میں میئر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔کون کس سے کیا پوچھے ۔۔۔۔۔کسی کو کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔۔ نہ ہی یہاں کوئی کسی کو کچھ بتانے کا مجاز سمجھتا ہے۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


حلقہ ارباب فنونِ لطیفہ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - اتوار 08 نومبر 2015

وہ اکثر محافل میں زیادہ بات چیت نہیں کرتا ۔ہاں البتہ اپنے بے تکلف دوستوں اور اپنے والد مبارک احمد مرحوم کے بزرگ دوستوں کی منڈلیوں میں خوب چہکتا اور محفل میں رنگ جماتا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے پھر ایک سرکاری ادارے سے فون آیا کہ اپ اپنا بائیو ڈیٹا ، شناختی کارڈاورایک عدد تصویر بھیج...

حلقہ ارباب فنونِ لطیفہ

نا اہل اساتذہ۔۔۔۔۔جعلی ڈگریاں ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - هفته 17 اکتوبر 2015

ہم روز رونا روتے ہیں کہ فلاں جگہ اتنے بے گناہ مارے گیے ۔ فلاں جگہ ڈاکو اتنی نقدی اور طلائی زیورات لے کر گھر والوں کوایک کمرے میں بند کر کے چلے گیے ۔ محلے داروں نے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ توڑااور لٹیروں کے ہاتھوں برباد ہونے والے یر غمالیوں کو رہائی دلوائی۔چھوٹے بچوں ک...

نا اہل اساتذہ۔۔۔۔۔جعلی ڈگریاں

جاہل اور منافق دونوں بوجھ ہیں زمین پر ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - پیر 12 اکتوبر 2015

دوزخ نامہ بنگالی زبان میں لکھا جانے والا شاہ کار ناول ہے جس میں پہلی بار منٹو بہ مکالمہ غالب دکھایا گیا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نام دوزخ نامہ اور گفتگو منٹو اور غالب کی۔۔۔جی ہاں! تو جنابِ والایہ دونوں کردار اس ناول میں جہنم میں محو کلام ہیں ۔اس سے قبل بھی اس عظیم ناول نگا ر،ربی س...

جاہل اور منافق دونوں بوجھ ہیں زمین پر

مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر