وجود

... loading ...

وجود
وجود

نا اہل اساتذہ۔۔۔۔۔جعلی ڈگریاں

هفته 17 اکتوبر 2015 نا اہل اساتذہ۔۔۔۔۔جعلی ڈگریاں

fake degree

ہم روز رونا روتے ہیں کہ فلاں جگہ اتنے بے گناہ مارے گیے ۔ فلاں جگہ ڈاکو اتنی نقدی اور طلائی زیورات لے کر گھر والوں کوایک کمرے میں بند کر کے چلے گیے ۔ محلے داروں نے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر دروازہ توڑااور لٹیروں کے ہاتھوں برباد ہونے والے یر غمالیوں کو رہائی دلوائی۔چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی روز کا معمول بن چکی ہے ۔ میڈیا پر شور شرابہ پڑ جائے تووقتی طور پر تھوڑا بہت ایکشن لیے جانے کا ڈراما رچا کر کیسوں کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ اگر واقعہ کے گواہ اور مدعی تگڑے ہوں تو بھی فیصلہ کمیٹیوں کے ہاتھ میں غیر معینہ مدت کے لیے دے دیا جاتا ہے ۔ اب اگر پیروی ہوتی رہے تو کیس کسی جانب لگتا ہے ورنہ طاقتور ظالم دندناتے پھرتے ہیں ۔متاثرین کو نئے مخمصوں میں الجھ کر مزید ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔پڑھے لکھے اور سمجھدار سفید پوش سارا کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اپنا نقصان کروا کے بھی زبان نہیں کھولتے بلکہ عافیت اسی فارمولے میں سمجھتے ہیں کہ اگر جمع پونجی سے عزت بچ جائے تو اس پر جمع پونجی کی قربانی دے دینی چاہیے۔اگر تو عزت واقعی ہی بچ جائے تو جمع پونجی صرف کرنے کی تکلیف نہیں ہوتی مگر خون پسینے کی کمائی سے اولاد کا فیوچر تاریکی میں ہچکولے کھائے تو اس سے بہتر ہے کہ بچوں کو پڑھنے لکھنے کی بجائے کسی مزدوری کے کیے بھیج دیا جائے ۔کسی مولوی نے نوجوان کا نکاح پڑھایا ۔ مولوی صاحب نے نوجوان سے اعزازیہ طلب کیا ۔نوجوان نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ میاں جی کتنے پیسے دوں ؟مولوی صاحب نے جواب دیا کہ برخوردار جتنی تمہاری دلہن حسین ہے اس کے مطابق دے دو۔دلہا نے ایک سو روپے مولوی صاحب کو پکڑائے تو مولو ی صاحب سخت ناراض ہوئے اور دانت پیس کر وہاں سے تلملاتے ہوئے رفوچکر ہونے ہی والے تھے کہ ہوا کے جھونکے سے دلہن کا گھونکھٹ چہرے سے سرکا تو اچانک مولوی صاحب کی نظر دلہن کے چہرے کو چھو گئی جو کہ انتہائی بد صورت تھی۔ مولوی صاحب نے اپنی جیب سے اسّی روپے نکالے اور دلہا کے ہاتھ پر رکھ دیے۔لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب یہ کیا؟ تو وہ بولے کہ یہ ابھی میں نے کم واپس کیے ہیں ۔دلہن کو دیکھ کر تو دل چاہا

کہ پورے کے پورے سو روپے واپس کر دوں مگر میں نے دلہا میاں کا دل رکھنے کے لیے بیس روپے رکھ لیے ہیں ۔ دیکھا آپ نے کہ اس طرح کے مولا نا صاحب جو کہ انتہائی لالچی ہوتے ہیں ان کے بھی وضع کردہ زندگی کے کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بچہ زندگی کرنا اگر چہ اپنے گھر سے سیکھتا ہے مگر زندگی کے اصول و ضوابط تعلیمی اداروں سے سیکھتا ہے ۔والدین اس مقصد کے لیے ڈھیروں روپیہ صرف کرتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے اپنے ملک کے تعلیمی نظام کو دیکھ کر کہ جن لوگوں نے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل تعمیر کرنا ہوتا ہے وہ بجائے تعمیر کے ،نسلوں کی بربادی کا باعث بنتے ہیں ۔آنے والے ہر سال میں تعلیمی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت بھی تعلیم کے شعبے کے لیے بجٹ بڑھا رکھتی ہے اور والدین بھی مہنگائی اور فیسوں کے بوجھ تلے کراہ رہے ہوتے ہیں ۔شنید ہے کہ اب ہر ضلع میں ہماری گورنمنٹ مقامی یونی ورسٹیاں بنائے گی۔یوں تو یہ اچھا قدم ہے ۔

اس سال بھی دنیا کی پانچ سو ٹاپ کی یونی ورسٹیوں کی فہرست میں ہماری ایک یونی ورسٹی بھی جگہ نہیں بنا پائی۔خدا جانے ایچ ای سی ان کا کڑا احتساب کیوں نہیں کرتی۔

ڈر اس بات کا ہے کہ جس طرح گاؤں اور قصبہ جات میں مسجدوں پر مسجدیں بنتی جاتی ہیں لیکن نمازی گھٹتے جاتے ہیں خاکم بدہن کہ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اسی ریشو سے ویران ہوتے جائیں ۔ایک اندازے کے مطابق ایک سو پچاسی ملکی یونی ورسٹیاں تو پہلے ہی بغیر این او سی کے چل رہی ہیں ۔ حکومت اورایچ ای سی کو پہلی فرصت میں اس بات کا نوٹس لینا چاہیے کہ یہ یونی ورسٹیاں طلبہ کی کیسی پنیر ی تیار کر رہی ہیں۔ جن بچوں بچیوں نے کل کو ملک کی باگ ڈور سمبھالنی ہے،ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، مسیحا بننا ہے اور لیڈران وقت بننا ہے معاف کیجیے گا وہ پرائیوٹ پرائمری سکول ٹیچر بننے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ ہماری دانش یہاں ایک ایگزیکٹ کو رو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ قانون ساز اداروں کو چاہیے کہ یہ جو’’ نکی نکی‘‘ کوٹھیوں میں ہائر ایجوکیشن بانٹنے کامصنوعی دھندہ چل رہا ہے مستقل بنیادوں پر اس کا سد باب کرے۔ جس کی پناہ میں طلبہ کا قیمتی وقت اور ان کا پیسہ ضائع ہورہا ہے ۔ یہ ڈگریاں بانٹنے والی فیکٹریاں لگانے والوں کا احتساب بہت ضروری ہے۔طلبہ کا دھیان معیار اور کوالٹی کی بجائے ڈگری کی جانب ہوتا ہے۔جو طلبہ یہاں سے فارغ ہوتے ہیں ان کو دوسرے ادارے تھوڑی تھوڑی تنخواہیں دے کر ان ڈگری ہولڈرز کو ہائر کر لیتے ہیں اور پھر اسٹوڈنٹ سے بھاری فیس بٹور کر ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بیچ کر ان کو عملی میدان میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسی تعلیم یافتہ پود تو پنکچر لگانے کے قابل بھی نہیں ہوتی چہ جائیکہ وہ کسی کلیدی عہدہ سے انصا ف کر سکے۔ ڈگری ہولڈرز میں روز افزوں ترقی ہو رہی ہے اور تعلیم میں کمی۔علمیت و بصیرت کے سوتے سوکھ کر کانٹا بنتے جاتے ہیں اور جہالت کے جوہڑ پھیلتے جا رہے ہیں ۔ کم سخن وبے ہنر تحقیق و تدقیق سے نظریں چرا کر بے منفعت جگالی میں کوشاں رات دن جتے ہوئے ہیں ۔ علمی وا دبی رجحان ، ڈگری کے پیچھے بھاگ کر توانائیوں کا زیاں کرنے والوں کی شکل کو ترس گیا ہے ۔ یہی ڈگری عملی زندگی میں مذاق بن جاتی ہے جب اس سے مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوتے۔ چند مفاد شناس ریٹائرڈ بوڑھے ڈنگ ٹپاؤ کے لیے پرائیویٹ یونی ورسٹیوں میں اپنے کنٹریکٹ پکے کرواتے ہیں اور اپنے نالائق اور انتہائی نکمے تیسرے درجے کے طلبہ کی فوج ظفر موج وہاں اپنے ساتھ بھرتی کرا دیتے ہیں تا کہ نہ تو کوئی موازنہ کرنے والا وہاں موجود ہو ، نہ معیار متعین کرنے کی زحمت ہو اور نہ ہی کوالٹی پرکھنے کی نوبت آئے۔ ادارہ مالکان کو سب اچھا کی رپورٹ جاتی رہے اور مفت کے ’’راشن کا کاروبار ‘‘چلتا رہے۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس سال بھی دنیا کی پانچ سو ٹاپ کی یونی ورسٹیوں کی فہرست میں ہماری ایک یونی ورسٹی بھی جگہ نہیں بنا پائی۔خدا جانے ایچ ای سی ان کا کڑا احتساب کیوں نہیں کرتی ۔گزشتہ دنوں ایک یونی ورسٹی کو منہ کی کھانی پڑی جب اس نے ایم فل طلبہ کے لیے ایک ایم اے پاس ٹیچر ہائر کرنے کی کوشش کی تو مطلوبہ ٹیچر نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ جو کلاس میں نے خود نہیں پڑھی اس کو پڑھانا میرے بس میں نہیں ہے۔ متعلقین نے اسے مجبور کیا اور اس کا حوصلہ بڑھایا کہ آپ کوالیفیکیشن کا ذکر نہ کرنا کسی کو پتا نہیں چلے گا۔پھر بھی وہ ٹیچر ایسا کرنے پر راضی نہ ہوئی۔ہم اس غیرت مند ٹیچر کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں۔ جس نے اس مقدس پیشے کی لاج رکھی اور وقتی طور پر فائدہ لینے کی بجائے جھوٹ اور فریب پر لعنت بھیجی اور سچے استاد کا رتبہ بلند کیا۔پاکستان میں ایسا کرنا کوئی ان ہونی بات نہیں ۔کیو ں کہ فرضی اسائنمنٹس،فرضی ورکشاپس اور فرضی نمبر زکو ئی نہیں دیکھتا، دھیان ڈگری پر ہوتا ہے اور ڈگری ،ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ ۔۔۔۔۔ !!!!!!۔۔۔۔اپ گریڈیشن کے چکر میں کھوج پرکھ کی بجائے ڈگری چاہیے، وہ چاہے کسی بھی طریقے سے حاصل ہو۔ جعلی ا دارہ مالکان کے محل نظر لالچ ہوتی ہے، چاہے اس کے لیے نوجوانوں کا مستقبل رہن رکھنا پڑے۔ جانور میں خواہش اور فرشتے میں صرف عقل ہوتی ہے انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ اس میں دونوں قوتیں پائی جاتی ہیں ۔اگر وہ عقل دبا لے تو جانور بن جاتاہے اور اگر وہ خواہش دبالے تو فرشتہ کہلواتا ہے۔اب انسان چوں کہ شعور رکھتا ہے اسے خود سوچنا ہے کہ بھلائی کس میں ہے۔کیا ہم نے بے لگام خواہشات کو فروغ دینا ہے یا شعور بانٹنا ہے؟


متعلقہ خبریں


حلقہ ارباب فنونِ لطیفہ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - اتوار 08 نومبر 2015

وہ اکثر محافل میں زیادہ بات چیت نہیں کرتا ۔ہاں البتہ اپنے بے تکلف دوستوں اور اپنے والد مبارک احمد مرحوم کے بزرگ دوستوں کی منڈلیوں میں خوب چہکتا اور محفل میں رنگ جماتا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے پھر ایک سرکاری ادارے سے فون آیا کہ اپ اپنا بائیو ڈیٹا ، شناختی کارڈاورایک عدد تصویر بھیج...

حلقہ ارباب فنونِ لطیفہ

کون کس سے کیا پوچھے؟ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - منگل 03 نومبر 2015

دعوے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ثابت ہو گیا تو دعویٰ کرنے والا معتبر اور اگر بد قسمتی سے دعوے دار اپنا دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے تو نہ صرف اس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں بلکہ لوگ اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔اسے صدیوں تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو اس کا نہ پورا ہ...

کون کس سے کیا پوچھے؟

جاہل اور منافق دونوں بوجھ ہیں زمین پر ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ - پیر 12 اکتوبر 2015

دوزخ نامہ بنگالی زبان میں لکھا جانے والا شاہ کار ناول ہے جس میں پہلی بار منٹو بہ مکالمہ غالب دکھایا گیا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ نام دوزخ نامہ اور گفتگو منٹو اور غالب کی۔۔۔جی ہاں! تو جنابِ والایہ دونوں کردار اس ناول میں جہنم میں محو کلام ہیں ۔اس سے قبل بھی اس عظیم ناول نگا ر،ربی س...

جاہل اور منافق دونوں بوجھ ہیں زمین پر

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر