وجود

... loading ...

وجود
وجود

دادا کی برسی پر پوتے کی طرف سے بات چیت کی دعوت

اتوار 06 ستمبر 2015 دادا کی برسی پر پوتے کی طرف سے بات چیت کی دعوت

akbar-bugti

کوئٹہ اور بلوچستان کے بلوچ اضلاع میں 26 ؍اگست2015ء کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی نوویں برسی منائی گئی۔ شہر کوئٹہ میں کہیں کہیں دُکانیں بند نظر آئیں۔ البتہ بعض بلوچ اضلاع میں کاروبار احتجاجاً بند رکھے گئے تھے۔ یہ دن تعزیتی ریفرنسوں میں گزرا۔ احتجاج کی شدت گزشتہ سالوں کی نسبت کم رہی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کے سانحہ سے مزید سرو کار یا ملال نہیں رہا ۔ بلاشبہ26؍اگست2006ء کا دن بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا اور یہ المناک سانحہ خصوصاً بلوچوں کی تاریخ میں الگ اور نمایاں باب بن چکا ہے۔

دن تمام ہوا تو پاکستان کے برقیاتی ذرائع ابلاغ نے اُسی شام برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے براہمداغ بگٹی کے انٹرویو کو نمایاں طور پر نشر کرنا شروع کردیا۔ دادا (نواب بگٹی) کی برسی کے دن پوتے (براہمداغ بگٹی) نے حکومت اور عسکری قیادت کو گویا کھلم کھلا بات چیت کی دعوت دے دی ۔ براہمداغ بگٹی کی مذاکرات کے لئے آمادگی خلاف توقع ہر گز نہیں ہے ، بلکہ اُنہیں ان پورے برسوں میں سرے سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔ کسی نے عقل و خرد سے کام نہیں لیا ۔کچھ تو ان جلا وطن رہنماؤں سے مذاکرات کی رٹ لگا کر دروغ گوئی پر گزارا کررہے تھے اورکچھ طاقت کے زعم میں مبتلا تھے۔ راقم نے متعدد مرتبہ توجہ دلائی کی براہمداغ قومی دھارے میں شامل ہونے کو تیار ہے اگر کوئی ان کی طرف سنجیدگی سے قدم بڑھائے۔ آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور میں تقریباً پانچ کمیٹیاں بنیں۔ کوئی بھی کمیٹی کوئٹہ اور اسلام آباد سے آگے پیشرفت نہ کرسکی ۔دراصل قومی سطح پر ویژن اور احساسِ ذمہ داری کا فقدان ہے اورملک و قوم کے مفاد کو مقدم نہیں سمجھا جاتا۔ وگرنہ براہمداغ بگٹی یا دوسرے رہنماؤں سے ملاقاتیں کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ میاں نواز شریف اور ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومتوں میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ خود ڈاکٹر عبدالمالک صاحب اقرار کرتے ہیں کہ سوائے خان آف قلات کے ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہوا۔ اب نواب براہمداغ بگٹی نے چونکہ بات چیت کے ’’در‘‘ کھول دیئے ہیں لہٰذا اب ا س جانب قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جس سے کسی فریق کا نقصان نہ ہو اور براہمداغ کی اس لچک سے فائدہ بھی اُٹھا یا جاسکے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے وگرنہ بلوچ سرزمین پر مزاحمت کی تاریخ سینکڑوں برسوں پر محیط ہے۔

بلوچستان کے اندر علیحدگی پسندوں کو بھارت کی ہر طرح کی کمک حاصل ہے ۔لیکن ہماری کوتاہیاں بھی اپنی جگہ بہت سنگین نتائج کی حامل ہیں

براہمداغ بگٹی نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ بلوچستان کے معاملے پرپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک لحاظ سے شکست ہوئی ہے اور انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کا طریقہ غلط تھا اور پرامن بات چیت کیلئے آنا ہوگا۔ اگر ہمارے دوست ، ساتھی ، سیاسی حلیف اور عوام کی اکثریت یہ چاہتی ہے تو ہم بالکل پاکستان کے ساتھ رہنے کو تیار ہیں۔ تمام معاملات سیاسی اور پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر حکومتی نمائندے ہم سے ملنا چاہتے ہیں تو ہم اس کیلئے تیار ہیں کیونکہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور مسائل کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔ یہ تو بہت بے وقوفی کی بات ہوگی کہ کوئی کہے کہ ہم بیٹھ کر مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور ہم کہیں کہ نہیں۔ ماضی میں رابطے تو ہوئے لیکن کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک وغیرہ نے بات چیت کی تھی تو اس پر جب زرداری صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے ضرور ملیں لیکن فوج اور اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات کرنا نہیں چاہتی۔ مذاکرات کیلئے ماحول سازگار ہونا ضروری ہے ۔ اگر قتل و غارت جاری ہو تو ایسے میں مذاکرات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اسی لئے ہمارا کہنا ہے کہ آپریشن بند کیا جائے۔ تمام فورسز کو واپس بلایا جائے تو اس کے بعد ہی بات چیت کیلئے ماحول سازگار ہوسکتا ہے اور یہ فیصلہ طاقتور کو کرنا ہے کہ وہ ہمیں کیا دینے کو تیار ہیں اگر وہ آتے ہیں تو ہم انہیں وہی ایجنڈا پیش کریں گے جو ہماری اکثریت کو منظور ہوگا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن دس پندرہ برس گزرچکے ہیں ان برسوں میں کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ بات صرف اخبارات اور حکومتی اجلاسوں تک محدود رہتی۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرے کیونکہ طاقتور وہی ہیں۔ آرمی والے ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ غلط ہے اور بلوچستان میں حالات خراب بھی انہوں نے کئے تھے اور اسے صحیح بھی وہیں کریں گے۔ ہمارے پاس نہ طاقت ہے اور نہ اتنی بڑی فوج کہ ہم ان کا مقابلہ کرسکیں۔ اس خون خرابے اور طاقت کے استعمال سے کچھ نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں جو بھی ترقی ہو وہاں عوامی حکومت ہے ہی نہیں۔ ترقی کے ان فیصلوں میں بلوچ عوام کی مرضی شامل نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں کیا ہورہا ہے؟ اگر بھارت ہماری مدد کرتا ہے تو ہم اس سے انکار نہیں کریں گے کیونکہ اپنے دفاع کیلئے ہر کوئی مدد مانگتا ہے اور ہم اسی طرح اقوام متحدہ اور امریکہ سے بھی مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ بھارت نے تو بلوچستان میں آپریشن کیلئے نہیں کہا تھا ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کی ناکامیاں ہیں کہ وہ اپنے کرتوت چھپانے کیلئے غیر ملکی مداخلت کے الزامات لگاتی ہیں۔ ‘‘ براہمداغ کی اس گفتگو کو ان کی مات یا اپنی فکر اور طرز عمل سے دستبرداری سمجھنا نہیں چاہیے ، بلکہ براہمداغ نے اپنے اس انٹرویو میں ان تمام باتوں کا اعادہ کیا ہے جو وہ ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ طاقتور ان کے وسائل پر قابض ہیں اور بلوچ سیاسی جماعتیں بھی یہی سمجھتی ہیں ۔ آج اگر نیشنل پارٹی حکومت میں شریک ہیں تو کل یہی نیشنل پارٹی براہمداغ کے ساتھ ملکر حقوق کا مطالبہ کرے گی۔ بہر حال بلوچستان کے اندر علیحدگی پسندوں کو بھارت کی ہر طرح کی کمک حاصل ہے ۔لیکن ہماری کوتاہیاں بھی اپنی جگہ بہت سنگین نتائج کی حامل ٹھہری ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ جب زخم ناسور بن جاتا ہے، تب علاج پر توجہ دینا شروع کرتی ہے ۔ انہیں تو بلوچستان کی تاریخ تک سے آگاہی نہیں اور نہ ہی وہ یہاں کے قبائل کے مزاج اور طبیعت سے واقفیت رکھتے ہیں۔ سوئی ملٹری کالج کی افتتاحی تقریب میں راقم نے ایک ذمہ دار سرکاری شخص کو تجویز دی کہ کیوں نہ براہمداغ بگٹی سے بات چیت کی جائے اور انہیں ڈیرہ بگٹی لایا جائے تو اس افسر کا جواب دو ٹوک تھا کہ ’’براہمداغ بگٹی کو یہاں کبھی آنے نہیں دیا جائے گا۔‘‘جبکہ بگٹی خاندان نے اس سے قبل پاکستان سے علیحدگی کی کبھی بھی بات نہیں کی ہے ۔ اور براہمداغ کو ان حالات میں پس منظر میں چلے جانے کے سوا کوئی اور راستہ دکھائی نہیں دیا۔

سوئی ملٹری کالج کی افتتاحی تقریب میں ایک ذمہ دار سرکاری شخص سے کہا گیا کہ کیوں نہ براہمداغ بگٹی سے بات چیت کر کے انہیں ڈیرہ بگٹی لایا جائے تو اس افسر کا جواب دو ٹوک تھا کہ ’’براہمداغ بگٹی کو یہاں کبھی آنے نہیں دیا جائے گا‘‘

نواب بگٹی ،براہمداغ کو مستقبل کا ایک قابل اور بہترین سیاستدان اور قبائلی منتظم دیکھنا چاہتے تھے۔ انہی خطوط پر ان کی تربیت بھی کی گئی تھی ۔ نواب بگٹی نے 31؍ جنوری 1973ء کو ’’لندن پلان ‘‘ افشاء کیا۔یہ مبینہ منصوبہ پاکستان سے علیحدگی کا تھا۔ جس میں ’’نیپ ‘‘ کے اکابرین کے نام لئے گئے تھے اورجسے غیر ملکی اعانت سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا تھا۔ نواب اکبر خان بگٹی 1947ء کے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں ۔ کوئٹہ آمد پر محمد علی جناح کا استقبال کیا۔ 1950ء کی دہائی میں وزیراعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں ڈپٹی وزیر تھے اور 1958 کے مارشل لاء کے نفاذ تک دفاع اور داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے تھے ۔ 1973 ء میں بلوچستان کے گورنر تھے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ گورنر کی تعیناتی میں کس کس کی مرضی و منشا درکار ہوتی ہے۔اُنہیں 1978ء میں وزیراعلیٰ بلوچستان کا منصب ملا تھا۔ نواب بگٹی بہر حال ایسے وفاق کے قائل تھے جس میں صوبے خود مختار ہوں اور آئین صوبوں کے وسائل و حقوق کے تحفظ کا ضامن ہو۔ پرویزی آمریت زور آزمائی کا فیصلہ کرچکی تھی اور نواب بگٹی سے بھی چند غلطیاں سرزد ہوئیں ۔ ڈاکٹر شازیہ کے واقعہ پر نواب حد سے زیادہ مشتعل ہوئے۔ ان کا غصہ اور احتجاج بجا تھا مگر جنگ تک نوبت نہیں لانی چاہئے تھی۔ البتہ نواب بگٹی پر غداری کا لیبل چسپاں کرنے والے دراصل خود غاصب اور گمراہ لوگ تھے جنہیں آئین اور دستور کی بات تک گوارا نہیں تھی ۔

بلوچستان سے متعلق 2004 میں پارلیمانی کمیٹی بنی۔ اس مناسبت سے نواب نے ’’Bugti Dossier‘‘ کے نام سے بلوچستان کا مؤقف ایک مختصر کتابچے کی شکل میں پیش کیا۔ یہ کتابچہ پڑھنے سے کوئی ایک لفظ بھی بغاوت یا سرکشی کا تاثر نہیں ملتا البتہ صوبائی خود مختاری پر بجا طور پر زور پایا جاتا ہے۔ اس میں آئین اور قانون کے راستے سے حقوق کے حصول کا اعادہ کیا گیا ہے کہ1973ء کے آئین میں ایسی ترامیم کی جائے جس سے صوبوں کے سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات میں اس حد تک اضافہ ہو کہ ان کے عوام مطمئن ہوسکے۔ بگٹی ڈوسیئرمیں کہا گیا کہ موجودہ آئین میں سیاسی اور آئینی بحران ختم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اس وقت فیڈریشن اور صوبوں کے مابین جو ناچاقی ، کشیدگی یا تنازع ہے اس کی بنیادی وجہ فیڈریشن کی غیر منطقی اور غیر متوازن ہیئت ہے اس لئے پاکستان کا استحکام ، تنازعات کا مستقل حل اور عوام کی خوشحالی اس میں ہے کہ 1973ء کے آئین میں دی گئی خود مختاری میں اضافہ کیا جائے۔ نواب بگٹی نے اس کتابچے میں گوادر میں مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کی بات کی ہے یعنی گوادر میں دیگر صوبوں سے کاروبار یا رہائش کیلئے آنے والوں کو 10سال تک مقامی سرٹیفکیٹ ، پی آر سرٹیفکیٹ جاری نہ کئے جائیں۔ ووٹر لسٹوں میں ان کے نام کا اندراج نہ ہو کیونکہ اس طرح غیر مقامی انتخابات میں منتخب ہوکر آجائیں گے اور مقامی لوگ نمائندگی کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں پنجاب کو بلوچستان کے وسیع قدرتی وسائل کی اشد ضرورت ہے جس کیلئے ایسے مقامات پر نئی فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے جہاں یہ وسائل بڑے پیمانے پر موجود ہیں ( یاد رہے کہ سوئی چھاؤنی کو ملٹری کالج میں تبدیل کیا جاچکا ہے ) مثال کے طور پر مری ایریا میں تیل اور یورینئم کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور وہاں چھاؤنی تعمیر کی جارہی ہے۔ ڈیرہ بگٹی کے مختلف مقامات میں سے 1953ء سے گیس نکالی جارہی ہے لیکن اس کی آمدنی سے بلوچستان محروم ہے اور پھر ڈیرہ بگٹی میں گیس کے ذخائر ختم ہونے کا پروپیگنڈا بھی کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ نئے سروے کے مطابق مزید ذخائر موجود ہیں ۔یہاں چھاؤنی کے قیام کا فیصلہ مرکز کے لوٹ مار پر عوام کو احتجاج سے روکنا ہے۔ بگٹی ڈوسیر میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ گوادر اور گوادر سے 40میل دور جیوانی کے مقام پر چھاؤنیوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی اسی مقصد کے تحت بنایا گیا ہے۔ فیڈریشن کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام یونٹوں کو برابر کی حیثیت حاصل ہوگی ۔ مقامی باشندوں کے وسائل پر حقِ ملکیت کو بطور ان کی میراث تسلیم نہیں کیا جاتا تو احتجاج کو روکا نہیں جاسکتا۔ اگر اس کتابچے کو مزید بھی پڑھا جائے تو اس میں قومی شناخت اور حقِ ملکیت پر اصرار کے الفاظ ملیں گے۔ بلوچ سیاسی قائدین اور جماعتوں نے براہمداغ بگٹی کے اس انٹرویو پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے البتہ علیحدگی پسند تنظیموں نے ناپسندیدگی ظاہر کی ہے ۔بلوچ لبریشن فرنٹ نے مذاکرات پر اس مبینہ آمادگی کو مایوس کن قرار دیا ہے اور براہمداغ کی اس بات کو قومی آزادی کی تحریک سے انحراف اور تھکاوٹ سے تعبیر کیا۔ بی ایل ایف نے قومی آزادی کے حق سے دستبرداری کیلئے مشورے کی بات کو بھی مضحکہ خیز قرار دیااور براہمداغ کے سامنے سوال رکھا ہے کہ

’’کیا قومی آزادی کی جدوجہد شروع کرنے سے پہلے انہوں نے ریفرنڈم کرایا تھا یا دیگر ذرائع سے بلوچ عوام کے ساتھ مشورہ کیا تھا؟حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ رہنما جو اپنے خاندان سمیت وطن میں موجود ہیں ،جہاں ہر لمحہ ان کی جانوں کو خطرہ رہتا ہے وہ مایوس نہیں ہیں بلکہ مایوسی کا اظہار وہ رہنماکررہے ہیں جو اپنے خاندان سمیت وطن میں لگی آگ کی تپش سے بہت دور یعنی بیرونِ ملک محفوظ فضا میں بلا خوف و خطر زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘

بی ایل ایف کے ترجمان نے براہمداغ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ مایوسی کو قریب بھٹکنے نہ دیں اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کریں کہ جس سے بلوچ قومی تحریک آزادی کو نقصان پہنچے، وگرنہ بلوچ قوم اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ علیحدگی پسند جماعتوں کے اس ردِ عمل کے باوجود قومی حلقوں کی بااثر قوتیں تاحال اس پر کوئی عملی قدم نہیں اُٹھا رہیں۔


متعلقہ خبریں


انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری وجود - جمعه 03 مئی 2024

سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی وجود - جمعه 03 مئی 2024

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار وجود - جمعه 03 مئی 2024

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی وجود - جمعه 03 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز وجود - جمعرات 02 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ وجود - بدھ 01 مئی 2024

پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ

مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر