وجود

... loading ...

وجود
وجود

کے ڈی اے،کےایم سی،ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا،سپریم کورٹ برہم،وزیراعلیٰ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب

پیر 25 اکتوبر 2021 کے ڈی اے،کےایم سی،ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا،سپریم کورٹ برہم،وزیراعلیٰ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب

سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب کر لیا جبکہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعلی سندھ سے استفسار کیا ہے کہ ہم یہاں مسائل سننے نہیں آئے حل بتائیں، آپ ہر بات میں وفاقی حکومت کی بات کر رہے ہیں، اگر وفاق یہاں آکر بیٹھ گیا تو پھر آپ کیا کریں گے۔ پیرکوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل بینچ نے تجاوزات کے خاتمے، سرکلر ریلوے، اورنگی اور گجرنالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کی جبکہ نسلہ ٹاور سے متعلق بھی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس چیف جسٹس نے کہا کہ وہ حیدرآباد سے ہو کر آئے ہیں، دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یہ صرف کراچی کا نہیں پورے سندھ کا معاملہ ہے، بہتری نظر نہیں آتی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے گجر نالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا جی بتائیں کیاپیش رفت ہوئی؟ گجرنالہ متاثرین کی بحالی کے لئے ابتک کیاکیا؟ عملی طورپرگراؤنڈپرکیاہورہاہے ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا وزیراعلیٰ سندھ نے رپورٹ جمع کرادی، کچھ مالی ایشوزآرہے ہیں۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا ہورہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ سے کہیں فوری پہنچیں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ بلائیں وزیراعلیٰ سندھ کوابھی ان سے ہی پوچھیں گے، آپ لوگ عدالت کامذاق اڑارہے ہیں؟ یہ کیارپورٹ پیش کی ہے آپ نے؟عدالت کے طلب کرنے پر پروزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ پارکوں ،کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہوچکا ہے، سڑکوں پر سائن نہیں ہیں، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ ٹوٹا ہوا ہے، آپ بتائیں کیا پلان ہے آپ کا؟۔چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سے استفسار کیا کہ اتنے عرصے سے شہر کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں،کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کیسے بہتر ہوگا، کوئی ایک چیز نہیں جس میں بہتری آرہی ہو، سہراب گوٹھ سے جاتے ہوئے کیا حالات ہیں، کیا لوگ شہر میں داخل ہوتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں،آپ کہیں گے یونیورسٹی روڑ بنا دی، یونیورسٹی روڈ پر سب رفاہی پلاٹوں پر قبضہ ہوچکا، آپ قصبہ مافیا سے کسی قسم کی رعایت نہ کریں، ان پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے، آپ کا وزیر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے ماتحت اداروں میں کیا ہو رہا ہے؟ ماسٹر پلان مانگ رہے ہیں وہ نہیں مل رہا، وزیراعلیٰ سندھ نے اعتراف کیا کہ انتظامی مسائل ہیں، کے ڈی اے با اختیار ادارہ ہے،قانون موجود ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کراچی کون چلا رہا ہے، کیونکہ سبھی ادارے مفلوج ہیں، کے ڈی اے، کے ایم سی اور ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا، کیا کراچی خود ہی چل رہا ہے، سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے، آپ کا کام تو صوبے چلانا ہوتا ہے، آپ کے ماتحت شہری اداروں کا کام ہے جو وہ نہیں کر رہے، جس کو بلاتے ہیں سب یہی کہتے ہیں کوئی کام نہیں کرنا،شہر میں کثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، آپ دوسرا بڑا صوبہ ہیں، آپ حکومت ہیں، پیسے لانے کے سیکڑوں راستے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ صاحب یہ صرف کراچی کا نہیں پورے سندھ کا معاملہ ہے، میں کل حیدر آباد سے ہو کر آیا ہوں دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ابھی ہم انڈونیشیا گئے تھے کراچی سے بڑا ہونے کے باوجود سرسبز تھا۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ بتائیں کیا پلان ہے آپ کا؟ ہماری سڑکیں دیکھیں کہیں سائن وغیرہ کچھ نہیں ہے،کچھ دن پہلے میں گلستان جوہریونیورسٹی روڈ سے آیا سارے روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نالہ متاثرین کو متبادلہ جگہ دینے کا کہا تھا،سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کرلیے ہیں، اتنے سارے کاموں کے لیے پیسے ہیں متاثرین کے لیے؟ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں عدالت کا شکر گزار ہوں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں،میں بتانا چاہتا ہوں 6 سال سے وزیر اعلیٰ ہوں،میں اس شہر میں ہی پیدا ہوا ہوں،ہم نے جو روڈ بنائے انکی فٹ پاتھ پر دکانیں الاٹ کردی گئی تھیں،ہمیں تجاوزات کے لیے ویسے ہی کام کرنا چاہیے،اس سال کچھ بہتری ہوئی ہے بارشوں میں بھی دیکھا ہوگا، انتظامی مسائل ہیں، مجھے ٹائم دیں میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں شارع فیصل بنایا ہے یونیورسٹی روڈ بنایا ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ادارے ہونے چاہئیں جو اس شہر کو چلا سکیں،ادارے ہوں جو اس شہر کو دیکھ سکیں، کے ڈی اے، کے ایم سی وغیرہ،حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کام کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کے ڈی اے کاڈی جی آیا کہ میں نے حکم امتناع لیا ہوا ہے تب ہی عہدے پر ہوں۔وزیراعلی سندھ نے کہاکہ یہ ادارے با اختیار ہیں، قانون موجود ہے،چیف جسٹس نے ا س پر کہا کہ ویل، بہتری نظر نہیں آتی،جواب میں وزیر اعلی نے کہاکہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ سول اداروں کے پاس اختیارات نہیں، ہم نے اداروں کو اختیارات دے رکھے ہیں، ہمیں اکیس گریڈ کے افسران درکار ہیں، وفاق سے سولہ میں سے چار افسران تعینات ہیں، ایک ایک آفسر سے تین تین عہدے چلوا رہے ہیں، وفاق کو متعدد بار کہہ چکے کہ افسران تعینات کریں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ گزشتہ سال تاریخی بارش ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی، نالہ متاثرین کی بحالی کا کام ہم نے وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کیا ہے،انہوں نے کہاکہ ہم بھی متاثرین کی بحالی چاہتے ہیں، وفاق سے 36 ارب روپے آباد کاری کے لیے مانگے،ہمیں وفاق کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا،پہلی بار ہوا تاریخ میں وفاق سے کم ریونیو ملا ہے، ریاستوں کے لیے وسائل کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، واقعی دس ارب سندھ حکومت کے لیے کوئی مسلہ نہیں، متاثرین کے لیے پی سی ون بن چکا، ایک ارب روپے شروع میں جاری کرنے کی کوشش کریں گے، دو سال میں متاثرین کو بحال کر دیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تیس چالیس سال سے سندھ حکومت نے کسی ہائوسنگ اسکیم کا اعلان نہیں کیا،مراد علی شاہ نے بتایا کہ اس سال کچھ بہتر ریونیو آ رہا ہے وفاق سے گزشتہ مالی سال میں کم پیسے ملے ،ہمیں پتہ ہے لوگوں کے کیا مسائل ہیں لوگوں کو مہنگائی کا سامنا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ابھی وہ پیسے آئے نہیں ہیں آپ پیسے مانگ رہے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سندھ حکومت آٹھ ارب ایک دن میں جنریٹ کرسکتی ہے، مراد علی شاہ نے کہاکہ دس ارب روپے کی ضرورت ہے کابینہ نے ایک ارب کی فوری منظوری دی ہے۔چیف جسٹس نے مراد علی شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم یہاں مسائل سننے نہیں آئے حل بتائیں،گرائونڈ پر کچھ ہے تو بتائیں،وزیر اعلی نے بتایا کہ پی سی ون بنا لیا ہے، عدالت جیسے حکم دے گی ہم عمل درآمد کریں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمیں پلان دیں کرنے کیا جارہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ہمیں کوئی رپورٹ نہیں دی گئی،مراد علی شاہ نے کہاکہ دس ارب صوبے کے لئے کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپکے پیچھے وزیر بلدیات کھڑے ہیں انہیں بلا کر پوچھ سکتے ہیں،مگر ان کے پاس کچھ ہے نہیں بتانے کو سوائے ٹی وی پر بیان دینے کے،وہ اختیارات پتہ نہیں آپ کے پاس بھی ہیں یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بہت افسوس کی بات ہے متاثرین کی بحالی کے ہمارے پاس فنڈ نہیں ، جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں مگر آپ شرائط عائد نہیں کرسکتے،ہم پورے ملک کی سپریم کورٹ ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جنھیں جرائم پیشہ لوگوں نے وہاں بٹھایا،ان لوگوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جوان بچیاں ہیںآپ وزیر اعلی ہیں آپ سکون کی نیند کیسے سو سکتے ہیں۔مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ ہم کریں گے دس ارب کوئی مسئلہ نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کا بیان ریکارڈ کریں گے کہ متاثرین کی بحالی کا کام کریں گے،کوئی اگر مگر نہیں بس بحالی کا کام کریں۔وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن تین ماہ سے غیر فعال ہے،سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ اس کیس کا نمبر دے دیں دفتر میں ہم لگوا دیتے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ بہت ساری چیزیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کہہ سکتا، چیف جسٹس پاکستان نے اس پر کہاکہ پھر کبھی موقع ملا تو سنیں گے،ہم سب کچھ قانون کے مطابق ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہاں لوگوں نے سڑکوں پر قبضہ کرلیا ہے انتظامیہ کہاں ہے ؟کیا یہ گورنمنٹ آف لا ہے؟ہم عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہر مسئلے کا حل ہے آپ دیکھ لیں آپ کچھ نہیں کر رہے،آپ وفاقی حکومت وفاقی حکومت کہہ رہے ہیں وہ آکربیٹھ جائے گی توآپ کہاں جائیں گے،مراد علی شاہ بولے کہ میں وہ بات کرنا نہیں چاہتا، سیاسی بات ہوجائے گی۔جسٹس گلزار نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب ، وزیراعلی سندھ کہہ رہے ہیں کہ وفاق تعاون نہیں کر رہا،آپ وفاقی حکومت سے ہدایت لے کر بتائیں۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ جو افسران انہیں چاہئیں ان کو دیں،چیف جسٹس پاکستان بولے کہ ایسا لگ رہا ہے وفاقی حکومت بھی مفلوج ہے، بڑی تقریریں کرتے تھے گراس روٹ لیول کی حکومت کی،گراس روٹ لیول کی حکومت کہاں ہے؟کوئی بتانے کے لئے تیار نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے مراد علی شاہ سے کہاکہ ڈی جی کے ڈی اے تین ماہ پہلے آیا تھا تبادلہ کردیا ہے کیا کام کرے گا وہ؟ کے ڈی اے کے ڈائریکٹر آپکے پیچھے کھڑے ہیں ان سے پوچھ لیں،وزیر اعل نے کہاکہ میں دیکھ لیتا ہوں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اور بھی کئی افسران ہیں جن کیایک ایک دو دو ماہ میں تبادلے کر دئیے جاتے ہیں۔وزیر اعلی نے کہاکہ ڈی جی کے ڈی اے کے پاس دو چارج ہیں،وزیر تعلیم مکمل فعال سیکریٹری تعلیم چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری بھی پرابلمز حل کریں لوگوں کی پرابلم حل کریں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جتنی بھی سوک ایجنسیز ہیں سب غیر فعال ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ جی بالکل ہمیں لوگوں نے منتخب کیا ہے،سماعت مکمل ہونے کے بعد وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ سپریم کورٹ سے واپس روانہ ہوگئے۔ضیاء الدین اسپتال کے وکیل انور منصور خان بھی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ آپ کے اسپتال کے اطراف تو سب قبضے ہو چکے ہیں۔ کے ڈی اے کے علاقے کا یہ حال ہے۔وکیل انور منصور خان نے بتایا کہ ہم نے قبضہ نہیں کیا، لوگ وہاں گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہی ہمارا موقف ہے کہ اردگرد قبضے ہیں۔چیف جسٹس نے ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ یہ بتائیں، سٹرک پر گھر کیسے بنے؟ یہ سب 3 سال کے اندر اندر ہوا۔ گلستان چلے جائیں، 90 فیصد کراچی گرے اسٹرکچر پر ہے۔جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ کراچی تو کسی بھی وقت گر جائے گا۔ آپ لوگ دفتر میں صرف چائے پینے جاتے ہیں ، یہ ہے میٹرو پولیٹن سٹی؟۔جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ پھر آپ کر کیا رہے ہیں؟۔ڈی جی کے ڈی اے آصف میمن نے عدالت کو بتایا مسئلہ یہ ہے کہ عہدوں پر کوئی رہتا نہیں، محمد علی شاہ او پی ایس افسر کو ڈی جی بنا دیا تھا۔ لوگ سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لے کر آجاتے ہیں۔چیف جسٹس نے آصف میمن سے پوچھا کلفٹن میں کتنے رفاعی پلاٹس ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ کلفٹن میں 3 ہزار کے قریب رفاعی پلاٹس ہیں۔سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ سے جاری حکم امتناع ختم کردیے، عدالت نے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ جعلی لیز پر قائم مکانات، کمرشل تعمیرات فوری گرائی جائیں۔


متعلقہ خبریں


تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ وجود - هفته 04 مئی 2024

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں کیوں دفتر نہیں کھولتے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے چاہئی...

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق وجود - هفته 04 مئی 2024

یوم صحافت پر خضدار میں دھماکا، صحافی صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے ۔پولیس کے مطابق خضدار میں قومی شاہراہ پر سلطان ابراہیم خان روڈ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ایس ایچ او خضدار سٹی کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور 10 افراد زخمی ...

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری وجود - جمعه 03 مئی 2024

سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی وجود - جمعه 03 مئی 2024

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار وجود - جمعه 03 مئی 2024

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی وجود - جمعه 03 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر