وجود

... loading ...

وجود
وجود

خالدقیصر غزل کے آئینے میں

اتوار 24 دسمبر 2017 خالدقیصر  غزل کے آئینے میں

کچھ دن پہلے خالد قیصر صاحب نے فون پر بتایا کہ اُن کے دوسرے مجموعۂ کلام ’’تم چلے آؤ‘‘ کا مسودہ تیار ہے تو خوش گوار حیرت ہوئی کہ ابھی تو کراچی کے ادبی حلقوں میں اُن کے پہلے مجموعۂ کلام ’’ہندسوں کے درمیان‘‘ کی پذیرائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے اور انہوں نے دوسرا مجموعۂ کلام بھی مرتب کر لیا۔گویا موصوف تخلیقی وفور سے متصف ہیں۔مذکورہ پہلا مجموعہ بھی نظر نواز ہوا تھااور اُس پر راقم الحروف نے سہ ماہی غنیمت میں مختصر تبصرہ بھی کیا تھا۔ بصارت کے علاوہ اُن کی غزلیںسماعت کے وسیلے سے بھی کراچی کے مشاعروں میں مجھ تک پہنچتی رہی ہیں ۔ اب زیر نظر مجموعۂ کلام کا مطالعہ کیا تو محسوس ہوا کہ فنی اور فکری طور پر یہ پہلے کہے گئے کلام ہی کا تسلسل ہے۔’’تم چلے آؤ‘‘ نام میں جو سادگی اور غنائیت ہے بلا شبہ وہ روحِ کلام کہی جا سکتی ہے جو پورے کلام میں رواں دواں ہے۔اگرچہ اب وہ تاثراتی تنقید پر مبنی مضامین بھی لکھ رہے ہیں مگر اُن کی پہچان کا بنیادی حوالہ شاعری ہی ٹھہرتا ہے۔انہوں نے متفرق موضوعات مثلاََ اتحاد ملت، راجپوت برادری، ہلالِ عید ،استاد اذفر زیدی،اپنی قوم سے متعلق نظمیں اور چند قطعات و رباعیات بھی کہی ہیں مگر فی الوقت درج ذیل سطور میں ہمارا موضوع اُن کی غزل ہے۔ مسودے کا سرسری جائزہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ صاحب کتاب کا محبت کرنے کا اپنا انداز ہے اور اس سلسلے میں اپنا مکتب فکر ہے ۔محبت، ہجرو فراق اور اُس کے نتیجے میںجنم لینے والی دل خراش تنہائی، انتظار،حسرت وشوقِ دید،بے اعتنائی کا شکوہ،حسن و جمال یار کے تذکرے اس انداز سے کیے ہیں کہ خمِ کاکل بھی دل کی دنیا کو برہم کر دے۔ مناظر فطرت میں محبوب کی جلوہ سامانیاں اور رعنائیاں کتاب کا بنیادی موضوع ہیں۔ صاحب کتاب خالد قیصر اُسے ’’آفتابِ حُسنِ طلسمات‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔اُس شوخ کی مسکراہٹ اُن کے دل پر بجلیاں گراتی ہے، حافظ شیرازی کی طرح محبوب کے تل پرسمر قند و بخارا صدقے کرنے والوں میں سے ہیں۔ محبت میں انا کے نہیں مکمل سپردگی، شیفتگی اور وارفتگی کے قائل ہیں کہ محبوب کے دل میں گھر کرنے کی خواہش نا تمام انگڑائیاں لے رہی ہے ۔زمانے میں اسیر زلف جاناں کی سند پانا چاہتے ہیں۔اُس کی محبت کو پاؤں کی زنجیر کرنا چاہتے ہیں۔موصوف کی خوشی اور غم کا تصور بھی مرضی محبوب سے مشروط ہے۔عشق اُن کا مسلک ہے ۔یہ جگ بیتی نہیں دل کی بات ہے۔ اُن کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ جذباتِ محبت کا بدل خلوص و مہر ہی کی صورت میں مل جائے۔
دل کے معاملات میں قید نہیں ہے کوئی بھی
اُن کو بھی اختیار ہے مجھ کو بھی اختیار ہے
اے ذوقِ طلب کون سی منزل پہ کھڑا ہوں
اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے
انہوں نے وہ علامتیں استعمال کی ہیں جو ایک زمانے میں مقبول عام تھیں۔ ساغر، میخانہ، ساقی، میکش، جنوں ، داماں، چاک گریباں، حجاب، نقاب، آشیانہ ، چار تنکے ، بجلی،گردش جام وغیرہ۔وہ روایت سے جُڑے ہوئے ہیں مگر انہوں نے شعری تجربات یا صنعتوں کا استعمال نہیںکیا ، اس لیے کہ وہ عصر حاضر کے شاعر ہیں۔ دوسری طرف موجودہ عہد کے شعرا کی طرح مشکل ردیف وقوافی بھی استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے ہم عصروں کی طرح مشکل ترکیبیں اور کثرت سے اضافتیں استعمال نہیں کی ہیں ۔ روایتی مضامین باندھے ہیں مگر سادگی، روانی اور رعنائی کے ساتھ۔وہ لفظ پرستوں کی ظاہر دار دنیا سے کوسوں دور ہیں۔انہوں نے پرانی علامتیں استعمال کی ہیں مگر اپنی قلبی صداقتوں کے اظہار کے لیے۔ اس لیے قاری کو کہیں کھوکھلا پن محسوس نہیں ہو گا۔ایک اور بات یہ کہ اُن کی شاعری میں رندی و سر مستی تو ہے۔بیانِ عشق میں سپردگی،ہجراور کوچہ جاناں میں رسوائی و خواری کے مضامین بھی ہیں مگر روایتی عشاق مثلاََ لیلیٰ مجنوں، ہیر رانجھا ، شیریں فرہاد وغیرہ کا ذکر نہیں ملتا۔اس کے علاوہ رقیب، ناصح، محتسب، پیر مغاں اور شیخ جی بھی ندارد ہیں۔ اُن کی ذہنی فضا کو جذبہ عشق کی نیرنگیوں نے سجا رکھا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ بہر حال غزل کے مزاج آشنا ہیں اور روایت کو سلیقے سے برتتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹوٹتے بکھرتے خوابوں کو غزل کے طاق پر محض رکھا ہی نہیں ہے، غزل کی روایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، سلیقے سے سجا کر رکھا ہے۔اُن کو داد دینی چاہیے کہ ایک بنیادی موضوع جو بہر حال محبت ہے ، یہ اُن کی فنی اور فکری استعداد ہے کہ اُس کی ایک کیفیت، سرشاری اور والہانہ پن کو کس کس رنگ، کس کس زاویے اور کس کس خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔موضوع کی محدودیت کے باوجود خوب طبع آزمائی کی ہے، جاذبیت پیدا کی ہے، رنگ بھرے ہیں اور نئے نئے ڈھنگ سے اشعار کہے ہیں۔

تیری آنکھوں کا نشہ کچھ اور ہے
شہر میں یوں تو ہیں مے خانے بہت
چار تنکوں کے گھر میں رہتا ہوں
زد میں بجلی کے آشیاں کیوں ہے

اثر آفرینی کلام میں قلبی واردات کے بیان سے پیدا ہوتی ہے۔ دل کا درد ہی ہر آواز میں سوز و ساز کا سبب ہو تا ہے۔ صاحب کتاب کی کئی غزلیں مکمل سوز و گداز کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں، غم کے اشکوں سے گندھی ہوئی ہیں۔کئی اشعار میں شدّت سے محسوس ہوا ہے کہ کہیں غمِ جاناں اور اس کی بخشی ہوئی تنہائی سے گھبرا کر وہ اُسے بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں۔ اس مقام پر بہاروںکی طلب میں اُن کا دل گریہ کرتا ہے۔ اُن کے ہاں عاشقانہ جذبات کی شدت میں بڑا اعتدال ہے جس نے جذباتیت کی بجائے جذبے کو جنم دیا ہے۔ جو بھی شاعر خالد قیصر کی طرح الفاظ کے تہ بہ تہ مفاہیم ، اُن کے تاثر، روایت کی ادبی قدروں سے واقف ہو ، خاموش طبع ہو مگر اس بات سے آگاہ ہو کہ قلبی واردات کو کس طرح اشعار کا جامہ پہنانا ہے، جو محبت میں شکست خوردہ اور نارسا ہو مگر حوصلے سلامت رکھتا ہو، وہ جب بھی کچھ کہے گا لطیف اور دل گداز پیرائے میں کہے گا۔

جب دل میں کوئی درد نہیں راز نہیں ہے
آواز میں بھی سوز نہیں ساز نہیں ہے
اشک آنکھوں سے اس طرح نکلے
شمع پگھلی ہے جیسے جل جل کر

اُن کے فن کے اِس پہلو کی صراحت ضروری ہے کہ وہ جناب اذفر زیدی کے تلامذہ میں سے ہیں۔انہوںنے باقاعدہ اصلاح لی ہے۔ایسے ہی شعرا کی وجہ سے استادی شاگردی کا ادارہ ابھی زندہ ہے۔ اگرچہ ( فاعلاتن، مفاعلن، فعلن) اُن کی پسندیدہ بحر ہے اور اُن کی زیادہ تر غزلیں اِسی بحر میں ہیں مگر اس کے علاوہ بھی انہوں نے کوئی سترہ بحور اپنے کلام میں استعمال کی ہیں۔وہ شعری اُفق پر قدرے دیر سے نمایاں ہوئے ہیں مگر عرصہ درازسے علم و ادب سے جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ مجموعہ بلا شبہ اُن کی فنی ہُنر مندی اور چابک دستی کا ثبوت ہے۔ خالدقیصر نے مختصر اور طویل دونوں طرح کی بحور میںکامیابی سے اظہار کیا ہے۔اُن کی پسندیدہ صنف سخن غزل ہی ٹھہرتی ہے مگر زیر نظر مجموعے میں چند قطعات، رباعیات اور پابند نظمیں بھی شامل ہیں۔اس لیے میں اِسے غزلوں کا مجموعہ ہی کہوں گا۔

اُن کے ہاں مصنوعی مضمون آفرینی نہیں ہے ۔کم کم ایسے مقامات ہیں جہاں انہوں نے غمِ دوراں کوموضوعِ سخن بنایا ہے۔ لیکن فی زمانہ زندگی چوں کہ بڑی تلاطم خیز ہو گئی ہے ۔ ہر روز ہماری ذاتی اور قومی حیات کو نت نئے حادثات کا سامنا رہتا ہے۔موصوف بھی اسی معا شر ے کا ایک حساس فرد ہیں ، اس لیے انہوں نے بھی کئی ایک مقامات پر جیون کی کٹھنائیوں کا ذکر کیا ہے۔ان متفرق موضوعات میں ’’دنیا کی بے ثباتی‘‘ بھی ہے ، جس پر ہر تخلیق کار کسی نہ کسی رنگ میں شعر ضرور کہتا ہے کہ جس چیز کا نام سکوں ہے دنیا میں کہیں نہیں۔ایک مسلسل تبدیلی اور تغیر ہے ۔ ہر شے ایک روز زوال آشنا ہو گی، وہ دولت ہو، طاقت ہو یا جاہ و حشمت۔ کسی دارا و سکندر کو دوام ہے نہ رستم و سہراب کو۔زمانہ سب کے کس بل نکال دیتا ہے۔چراغ جل جل کر بھی آخر گُل ہو ہی جاتے ہیں ۔چند ا شعار کلام میںایسے موجود ضرور ہیں۔

زمانے نے ہر ایک کے خم نکالے
ہوئے کتنے رستم یا سہراب کتنے
ہم غمِ دوراں کے ہیں مارے ہوئے
بازی عشق و وفا ہارے ہوئے

ظاہر ہے اُن کا کلام اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ اُن کا رجحان عصر رواںکی کلی ترجمانی نہیں کرتا۔تنوع زیادہ نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی اس بات کا دعوی کرہی نہیں سکتا کہ اُس نے زندگی کی ہر فصل بہاراںاور پت جھڑ کا بغور مشاہدہ کر لیا ہے اور ساری گہرائیوں اور پہنائیوں کو اشعار میں سمو لیا ہے۔ایک شخص کتنا بھی وقت کا ارسطو کیوں نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں ۔وہ بس اپنی زندگی، اس کے متعلقات اور گرد و پیش کا بساط بھر احاطہ کرتا ہے اور ایسی شاعری گہری فکر کی منت کش بھی نہیں ہوتی۔خالد قیصر کے کلام کی اہمیت اُن کی سادہ کاری، غنائیت ، شعریت اور بالکل راست انداز میں تصنع اور بناوٹ سے مبرا اسلوب کی وجہ سے ہے۔اُن کی شاعری آرزو اور شکست آرزو سے عبارت ہے۔ شکستہ خوابوں کی کرچیوں نے دیدۂ خوش خواب کو چشمِ پُرنم کر دیا ہے۔بے شک وہ میر کی سادگی اور سپردگی کے قائل تو ہیں۔ اُن کے ہاں دوری اور مہجوری بھی ہے ۔اُن کے کلام میں کچھ روایتی علامتیں اور مضامین بھی دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے کلام میں اپنے احساسات، جذبات، خیالات، اپنی عقیدت، محبت، سوچ ،اپنا کرب اور عشق پیش کیا ہے۔ وہ میر ہیں نہ درد، وہ مومن ہیں نہ غالب۔وہ ــ’’خالد قیصر‘‘ ہیں اور انہوں نے خود کو اپنے قاری کے سامنے’’ خالد قیصر‘‘ ہی کے طور پر پیش کیا ہے۔
٭ ٭ ٭


متعلقہ خبریں


حکومت نے ایک بار پھر عوام پر بجلی گرا دی وجود - هفته 18 مئی 2024

حکومت نے ایک بار پھر عوام پر بجلی گرا دی ، قیمت میں مزید ایک روپے 47 پیسے اضافے کی منظوری دے دی گئی۔نیپرا ذرائع کے مطابق صارفین سے وصولی اگست، ستمبر اور اکتوبر میں ہو گی، بجلی کمپنیوں نے پیسے 24-2023 کی تیسری سہ ماہی ایڈجسمنٹ کی مد میں مانگے تھے ، کیپسٹی چارجز کی مد میں31ارب 34 ک...

حکومت نے ایک بار پھر عوام پر بجلی گرا دی

واجبات ، لوڈشیڈنگ کے مسائل حل کریں،وزیراعلیٰ کے پی کا وفاق کو 15دن کا الٹی میٹم وجود - هفته 18 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے وفاقی حکومت کو صوبے کے واجبات اور لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 15دن کا وقت دے دیا۔صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ آپ کا زور کشمیر میں دیکھ لیا،کشمیریوں کے سامنے ایک دن میں حکومت کی ہوا نکل گئی، خیبر پخ...

واجبات ، لوڈشیڈنگ کے مسائل حل کریں،وزیراعلیٰ کے پی کا وفاق کو 15دن کا الٹی میٹم

اڈیالہ جیل میں سماعت ، بشری بی بی غصے میں، عمران خان کے ساتھ نہیں بیٹھیں وجود - هفته 18 مئی 2024

اڈیالہ جیل میں 190 ملین پائونڈ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی شدید غصے میں دکھائی دیں جبکہ بانی پی ٹی آئی بھی کمرہ عدالت میں پریشان نظر آئے ۔ نجی ٹی و ی کے مطابق اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف 190 ملین پائونڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس سلسلے می...

اڈیالہ جیل میں سماعت ، بشری بی بی غصے میں، عمران خان کے ساتھ نہیں بیٹھیں

اداروں کے کردارکا جائزہ،پی ٹی آئی کاجوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ وجود - هفته 18 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں اداروں کے کردار پر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کردیا۔ ایک انٹرویو میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے فارم 47 کا فائدہ اٹھایا ہے ، لہٰذا یہ اس سے پیچھے ہٹیں اور ہماری چوری ش...

اداروں کے کردارکا جائزہ،پی ٹی آئی کاجوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ

پی آئی اے کی نجکاری ، 8کاروباری گروپس کی دلچسپی وجود - هفته 18 مئی 2024

پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن(پی آئی اے ) کی نجکاری میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور مختلف ایئرلائنز سمیت 8 بڑے کاروباری گروپس کی جانب سے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے درخواستیں جمع کرادی ہیں۔پی آئی اے کی نجکاری میں حصہ لینے کے خواہاں فلائی جناح، ائیر بلیولمیٹڈ اور عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ سم...

پی آئی اے کی نجکاری ، 8کاروباری گروپس کی دلچسپی

لائنز ایریا کے مکینوں کا بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج وجود - هفته 18 مئی 2024

کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں بجلی کی طویل بندش اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کیا گیا تاہم کے الیکٹرک نے علاقے میں طویل لوڈشیڈنگ کی تردید کی ہے ۔تفصیلات کے مطابق شدید گرمی میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف لائنز ایریا کے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور لکی اسٹار سے ایف ٹی سی جانے والی س...

لائنز ایریا کے مکینوں کا بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج

مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا۔بھکر آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات میں حکومتوں کا کوئی رول نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کا رول ہوتا ہے ، جس کا الیکشن کے لیے رول تھا انہوں نے رول ...

مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم وجود - جمعه 17 مئی 2024

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کے دوران شر پسند عناصر کی طرف سے صورتحال کو بگاڑنے اور جلائو گھیرائوں کی کوششیں ناکام ہو گئیں ، معاملات کو بہتر طریقے سے حل کر لیاگیا، آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں، کشمیریوں کی قربانیاں ...

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی وجود - جمعه 17 مئی 2024

ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، اصل بات وہی ہے ۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سم...

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے وجود - جمعه 17 مئی 2024

رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا ہے کہ جج کے پاس وہ طاقت ہے جو منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں، جج کے پاس دوہری شہریت بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، عدلیہ کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا کہ کیا دُہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی...

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام وجود - جمعه 17 مئی 2024

شکارپور میں کچے کے ڈاکو2مزید شہریوں کواغوا کر کے لے گئے ، دونوں ایک فش فام پر چوکیدرای کرتے تھے ۔ تفصیلات کے مطابق ضلع شکارپور میں بد امنی تھم نہیں سکی ہے ، کچے کے ڈاکو بے لگام ہو گئے اور مزید دو افراد کو اغوا کر کے لے گئے ہیں، شکارپور کی تحصیل خانپور کے قریب فیضو کے مقام پر واقع...

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

سندھ کے سینئروزیرشرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ بانی پی ٹی آئی کی لائونچنگ، گرفتاری، ضمانتیں یہ کہانی کہیں اور لکھی جا رہی ہے ،بانی پی ٹی آئی چھوٹی سوچ کا مالک ہے ، انہوں نے لوگوں کو برداشت نہیں سکھائی، ہمیشہ عوام کو انتشار کی سیاست سکھائی، ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مزید بہتر کرنے کی کوشش...

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر