وجود

... loading ...

وجود
وجود

پیاسے کوہستان کی بیٹیاں نازک نہیں !

جمعه 13 اکتوبر 2017 پیاسے کوہستان کی بیٹیاں نازک نہیں !

21ویں صدی کا 17واں سال گزر رہا ہے، دنیا نے ستاروں اور سیاروں پر کمند ڈال دی ہے، جدید ٹیکنالوجی نے تصوراتی طلسم تک کو سچ کر دکھایا ہے، اِس جدید دور میں ہماری جہتیں کیا ہیں اِس کا اندازہ اخباروں کی سرخیاں اور ٹی وی چینلوں کی لال پٹیاں خوب بتاتی ہیں۔
آبادی کے ساتھ پسماندگی بھی بڑھتی جا رہی ہے، کراچی سے صرف چند کلومیٹر دور (کینجھر اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان) اِسی طرح کے کچھ ایسے پسماندہ علاقے موجود ہیں جہاں زندگی نے شاید 21ویں صدی میں قدم ہی نہیں رکھا بلکہ وہاں لوگ اب بھی 19ویں صدی میں ہی سانس لے رہے ہیں۔ وہاں آج بھی لوگ کچی جھگیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہاں کی عورت کو آج بھی پانی کے دو مٹکوں کے لیے چلچلاتی دھوپ میں تین سے پانچ کلومیٹر کا پیدل سفر طے کرنا پڑتا ہے، اور دن میں ایک بار نہیں بلکہ کم از کم تین بار اْسے پانی بھرنے کے لیے جانا پڑتا ہے تاکہ وہ اور اْس کے اہلِ خانہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔
یہاں اب بھی پانی بھرنے کی یہ ذمے داری روایتی اور ثقافتی طور پر عورت پر عائد ہے اور 8 سال کی بچی سے لے کر 50 سالہ عورت تک یہ ذمے داری صرف ’صنفِ نازک’ ادا کرتی ہے۔ ستم دیکھیے کہ معاشرے نے عورتوں کو صنف نازک کا نام دیا اور ایسے کٹھن کام بھی ‘نازک’ انسانی وجود سے لیتا ہے۔ اب چاہے کسی خاتون یا بچی کی ریڑھ کی ہڈی میں خم آجائے، مہرے جگہ سے بے جگہ ہوجائیں یا کسی حاملہ عورت کا بچہ ضائع ہوجائے یہ کام تو بس اْسے ہی کرنا ہوتا ہے۔ مرد روایتی اور ثقافتی طور پر اِس ذمے داری سے آزاد ہیں۔ عورت کی زندگی کے اِس منظر کو دیکھ کر حبیب جالب یاد آجاتے ہیں جنہوں نے شاید ایسے ہی حالات دیکھ کر کہا ہوگا کہ
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
وہ نیا سورج تو جانے کب نکلے لیکن عورت کی زندگی کا یہ منظرنامہ پاکستان کے تقریباً ہر گاؤں اور خصوصاً صوبہ سندھ کے ہر گاؤں میں یکساں نظر آئے گا، سوائے چند ایسے علاقوں کے جہاں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی سعی سے حالات کو بدلنے کی تھوڑی بہت کوشش کی ہے۔ ہم بھی کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے اِن 34 گاؤں کی بات کررہے ہیں جہاں کام کرنے والی ایک تنظیم انڈس ارتھ ٹرسٹ اور کوکا کولا فاؤنڈیشن نے کچھ تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔
اِن تنظیموں نے کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے 34 گاؤں میں پانی کا پائیدار اور فطری طریقوں پر انتظام بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس آبی انتظام نے گھریلو اور زرعی سطح پر لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ تحفظ ماحول یا تحفظ فطرت کے لیے جو بھی قدم اْٹھاتے ہیں اْس کا بہتر اثر انسانی زندگیوں پر ہی پڑتا ہے۔
وہ 16ستمبر 2017 کا ایک گرم دن تھا اور سفر تھا کوہستان کا جہاں گرمی مزاج پوچھ رہی تھی۔ ہم ملنے جا رہے تھے کوہستان ضلع ٹھٹھہ کے ایک گاؤں حاجی شفیع محمد کی خواتین سے۔ہمیں بتایا گیا کہ روایتی طور پر کوہستان کی لڑکیاں پڑھی لکھی نہیں ہیں اور اگر دیکھا جائے تو اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ لڑکیوں کو پڑھانا نہیں چاہتے بلکہ اْن سے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے کہ “پھر پانی کون لائے گا۔” اِس گاؤں میں 8 یا 9 سال کی عمر سے لڑکیاں پانی لانا شروع کر دیتی ہیں۔ بچی کی کم عمری کا جب احساس دلایا تو ساتھ جانے والی اْس کی ماں نے کہا کہ یہ کم از کم اپنی ضرورت کا پانی تو بھر لائے گی۔پانی بھرنے کی ذمے داری عورتوں کی ہے اور اِس علاقے کی 92 فیصد عورتیں اِس کام کو انجام دیتی ہیں جبکہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی تعداد 8 فیصد ہے اور وہ بھی پیدل یا مٹکے اْٹھا کر نہیں لاتے بلکہ گدھا گاڑی پر لاد کر پانی لے آتے ہیں لیکن یہ مثالیں خال خال ہی ہیں۔ عورت ہی ہے جو ازل سے یہ بوجھ اٹھارہی ہے۔
یہاں کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگا جو دھیرے دھیرے اِس علاقے کی خواتین کی زندگی بہتر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جب سماجی تنظیم نے پانی عورت کے لیے ‘واٹر فار وومین’ نامی اپنے پروجیکٹ کے تحت اِن 34 گاؤں میں پانی کا انتظام کیا ہے تو اْنہیں لوگوں کا یہ اعتراض بھی سننا پڑا کہ کیا پانی صرف عورتوں کی ضرورت ہے؟ مردوں کو پانی نہیں چاہیے؟ لیکن اْن کا کہنا تھا کہ جب پانی مہیا کرنا عورتوں ہی کی ذمے داری ہے تو پھر یہ پروجیکٹ بھی عورتوں ہی کے لیے ہے۔کہتے ہیں کہ پانی زندگی کی علامت بھی ہے اور ضمانت بھی، آب ہے تو حیات ہے، جہاں آب نہیں ہوتا وہاں سے حیات بھی رخصت ہوجاتی ہے۔ حیات کے سارے تانے بانے پانی کے کنارے ہی بنے جاتے ہیں۔ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہاں ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جو پانی نہ ہونے کی وجہ سے نقل نکانی کرچکے تھے لیکن یہاں پانی آنے کے بعد وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔
آئین پاکستان کے تحت ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ اْسے پانی میسر ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صورتحال خاصی خراب ہے۔ گاؤں دیہات کی تو بات ہی کیا، کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی پینے کے لیے سنکھیا آلود پانی میسر ہے۔
سماجی تنظیم نے اِن 34 گاؤں میں کام کرنے سے قبل جنوری 2017 میں ٹھٹھہ یونین کونسل کوہستان میں ایک سروے کیا تھا۔ سروے میں لوگوں نے سب سے بڑا مسئلہ پانی کی عدم موجودگی کو بتایا۔ تحقیق کے مطابق دیہات میں 92 فیصد خواتین اپنے گھروں کے لیے پانی لاتی ہیں، وہ دن میں تین مرتبہ لگ بھگ تین سے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے دو مٹکے یا کین لے کر آتی ہیں جن میں بمشکل 15 سے 20 لیٹر پانی بھرا جاسکتا ہے۔ گرمیوں میں یہاں کا درجہ ِ حرارت 45 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔
پانی لانے کی اِس ذمے داری سے حاملہ خواتین کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے، اْنہیں بھی یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ وزن اْٹھا کر لانے سے انہیں کئی امراض لاحق ہوجاتے ہیں مثلاً، پٹھوں میں درد، سر کے بال گرنے لگتے ہیں، وزن میں کمی، مدافعتی نظام میں کمزوری، ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف اور مہروں کے سرک جانے کی تکالیف عام ہیں۔ خواتین پانی لانے جاتی ہیں تو بچے گھر پر چھوڑ جاتی ہیں، ایسے میں اکثر حادثات بھی پیش آتے ہیں، جیسے بچوں کو کوئی کیڑا وغیرہ کاٹ جاتا ہے یا پھر بچوں کو چوٹیں لگ جاتی ہیں۔
سروے کے مطابق تقریباً 15 برس سے کم عمر 71 فیصد بچیاں پانی لانے میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرد پانی لانے میں خواتین کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ مردوں کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم پانی لانے لے جانے میں مصروف ہوگئے تو پھر کام دھندے پر کون جائے گا؟ اِس لیے دیہات میں مرد پانی لانے کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ اگرچہ یہ بات سچ نظر نہیں آتی کیونکہ بیشتر مرد بے روزگار ہوتے ہیں اور وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے۔ ہماری بات کی تصدیق اِردگرد کے ہوٹلوں میں موجود مردوں کی تعداد کو دیکھ کر ہورہی تھی۔
اِن دیہات میں پانی کی آمد کا واحد ذریعہ بارش ہے۔ اِسی پانی سے ہی یہاں کے لیے کچھ بہتری ہوسکتی تھی۔ اِسی خیال کے تحت مارچ 2017 میں کوکا کولا فاؤنڈیشن آگے آئی اور اْس نے ٹھٹھہ کی یونین کونسل کوہستان میں پانی کی منظم انداز سے فراہمی کے لیے تقریباً 19 ملین روپے (ایک کروڑ 90 لاکھ روپے) کا فنڈ مختص کیا۔ اِس منصوبے سے تقریباً 34 دیہات کے 15 ہزار افراد پر مشتمل 2200 گھرانے مستفید ہوں گے۔
اِس منصوبے کے تحت سب سے پہلے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر ریزروائر (ذخیرہ گاہ یا بڑے تالاب) کی تیاری کا آغاز ہوا۔ اِس حوالے سے قدرتی گزرگاہوں کو مدِنظر رکھا گیا یعنی جن راستوں سے پانی کا بہاؤ ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے پہلے سے موجود 18 ریزروائر (بڑے تالاب) جو خشک ہوچکے تھے، اْنہیں گہرا کیا گیا، جبکہ 10 نئے ریزروائرز بھی تیار کیے گئے۔ جب مون سون کا موسم آیا اور بھرپور بارشیں ہوئیں تو کیرتھر کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا پانی اْن 28 ریزروائرز میں جمع ہوگیا۔ اْن ذخیرہ گاہوں کو تقریباً 30 فٹ تک گہرا کیا گیا ہے اور اْن کے قریب کئی مقامات پر واٹر پمپ لگائے گئے ہیں تاکہ صاف پانی حاصل کیا جاسکے۔ اِس منصوبے کی تکمیل سے کوہستان یونین کونسل میں پورا سال پانی دستیاب رہے گا۔
اِس کے علاوہ کیرتھر کی پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مزید اقدام کے طور پر چھوٹے عارضی ڈیم (چیک ڈیم) کی تعمیر پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ لوگ پْراْمید ہیں کہ اِس سے کھیتی باڑی میں بہتری آئے گی اور تقریباً ایک ہزار ایکڑ اراضی زیرِ کاشت آجائے گی۔ اِس ضمن میں چار مقامات کا تعین کرلیا گیا ہے جہاں چیک ڈیم بنائے جائیں گے۔
اِسی طرح 20 مقامات پر کنویں بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ اِس پروجیکٹ کے تحت مختلف مقامات پر ریزروائر کے قریبی مقامات پر ہینڈ پمپ بھی لگائے جائیں گے جن سے نہ صرف خواتین کے وقت کی بچت ہوگی بلکہ وہ دیگر کاموں پر زیادہ توجہ بھی دے سکیں گی۔اِس علاقے میں کوئی اسکول نہیں، پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں۔ کوہستان میں حکومت نے آر او پلانٹ لگانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے لیکن 8 سال گزر جانے کے باوجود پینے کے صاف پانی کا پلانٹ تاحال فعال نہیں ہوسکا ہے۔یہاں کی عورت روایتی اور ثقافتی طور پر سلائی کڑھائی نہیں کرتی نہ ہی اْنہیں بیچتی ہیں بلکہ وہ صرف رلیاں اور بہت خوبصورت گوٹا اور شیشے لگے چمکیلے تکیے تیار کرتی ہے۔ اِن تکیوں پر تقریباً 5 ہزار روپے کی لاگت آتی ہے، یہ تکیے وہ بیٹی کو جہیز میں دیتی ہے۔روایتی طور پر ایسے 40 سے 45 تکیے جہیز میں دیے جاتے ہیں جبکہ 10 سے 15 رلیاں بھی دی جاتی ہیں۔ جب اْن سے کہا گیا کہ وہ یہ اشیاء شہر میں بیچ کر پیسے بھی کماسکتی ہیں تو اْن کے چہروں پر حیرانی تھی۔ لیکن حیرانی کو فوراً افسوس کے اظہار میں تبدیل کرتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ یہ کام تو صرف مرد کرسکتے ہیں اور اْن کے مردوں کو اِس قسم کے کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور یہ یہاں کا رواج بھی نہیں ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ یہاں حکومت کہیں نظر نہیں آتی، اِسی لیے شاید اِس خلا کو سماجی تنظیمیں ہی پْر کررہی ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ کراچی کی ایک مخیر شخصیت نے منفرد قسم کے واٹر وہیلز تیار کرکے بھیجے ہیں جن سے علاقے کی خواتین کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اب اْنہیں پانی کا برتن سر پر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ اِسے ہینڈل سے پکڑ کر پانی کھینچ کر لاسکیں گی۔ ایسے ہر واٹر وہیل میں 40 لیٹر تک پانی بھرا جاسکتا ہے۔
یہ علاقے زیادہ تر بنجر ہیں اور دور دور تک کوئی سایہ دار درخت بھی نظر نہیں آتا، لیکن اب اْمید ہے کہ یہ لوگ پانی آنے کے بعد پھل دار درخت بھی لگا سکیں گے۔ اِن علاقوں میں مویشیوں کی تعداد بھی کم ہے کیونکہ نہ پانی میسر تھا اور نہ جانوروں کے لیے چارا، کیونکہ صرف ایک گدھا ہی 200 کا چارا کھا جاتا ہے اور وہ بھی قریبی شہر جنگ شاہی سے لانا پڑتا ہے۔
اب چیک ڈیم بننے کے بعد پانی بھی میسر ہوگا اور اِس کے ساتھ سماجی تنظیم کی یہ بھی کوشش ہے کہ اعلیٰ قسم کا چارا اگایا جائے جو سال بھر کام آئے۔ لوگ تو یہاں تک پْرامید ہیں کہ چیک ڈیم بننے کے بعد وہ گندم بھی اْگا سکیں گے یوں وہ اپنی غذائی ضروریات میں بھی خود کفیل ہوجائیں گے۔
شبینہ فراز


متعلقہ خبریں


فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف وجود - اتوار 05 مئی 2024

وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ریونیوکلیکشن سب بڑا چیلنج ہے ،جزا ء اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں،بہتری کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا...

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند وجود - اتوار 05 مئی 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں، ادارے آئین کی تابعداری کے لیے تیار ہیں تو گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے ، ڈائیلاگ کی بنیاد فارم 45ہے ، فارم 47کی جعلی حکومت قبول نہیں کرسکتے ، الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنے جس کے پاس مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے د...

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف وجود - اتوار 05 مئی 2024

ملک میں 8؍فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجو...

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت وجود - اتوار 05 مئی 2024

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے ) نے نان ٹیکس فائلر کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کی معذرت کر لی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2023 میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے 5...

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف وجود - اتوار 05 مئی 2024

کراچی میں پیپلزبس سروس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف کروا دیا گیا ۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے مسافروں کیلئے سفر مزید آسان ہوگیا۔ شہری اب کرائے کی ادائیگی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے ۔ سندھ حکومت نے آٹومیٹڈ فیئر کلیکشن سسٹم متعارف کرادیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی ش...

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا وجود - اتوار 05 مئی 2024

گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے اجلاس میں نگراں دور کے سیکریٹری فوڈ محمد محمود کو بھی طلب کیا تھا، جوکمیٹ...

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ وجود - هفته 04 مئی 2024

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں کیوں دفتر نہیں کھولتے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے چاہئی...

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق وجود - هفته 04 مئی 2024

یوم صحافت پر خضدار میں دھماکا، صحافی صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے ۔پولیس کے مطابق خضدار میں قومی شاہراہ پر سلطان ابراہیم خان روڈ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ایس ایچ او خضدار سٹی کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور 10 افراد زخمی ...

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر