وجود

... loading ...

وجود
وجود

شہر ناپرساں کے باسی ۔۔جائیں تو جائیں کہاں!!

هفته 24 دسمبر 2016 شہر ناپرساں کے باسی ۔۔جائیں تو جائیں کہاں!!

دنیا کے تمام ممالک اپنی رہائش اور ملازمت کے مقام کا انتخاب ٹرانسپورٹ کی دستیابی کی صورتحال دیکھ کر کرتے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کراچی میں بھی لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختلف ادوار میں مختلف تجربات کیے جاتے رہے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران اس مقصد کے لیے متعدد ماسٹر اربن پلان تیار کیے جاتے رہے لیکن بوجوہ یہ تمام منصوبے جن کی تیاری پر سرکاری خزانے سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے رہے تیاری کے بعد کبھی عملدرآمد کامنہ نہیں دیکھ سکے اور کسی نہ کسی مصلحت کاشکار ہوکر طاق نسیاں کے سپرد کیے جاتے رہے۔ جس کے نتیجے میں کراچی میں شہریوں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل بڑھتے بڑھتے سنگین صورت اختیار کرتے گئے اور اب صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مرد تومرد خواتین بھی دفتری اوقات میں بسوں اور ویگنوں کے پائیدان پر لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔علاوہ ازیں سڑک پر جا بجا سیوریج کا پانی پھیلا ہوتا ہے جس سے نہ صرف سڑکی زندگی کم ہوجاتی ہے بلکہ راہگیروں اور سواروں کے لیے یکساں دشواری کا باعث بنتی ہے ساتھ جگہ جگہ سڑک کنارے پڑے کچرے کے ڈھیر شہر میں صفائی کے ناقص انتظامات کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
ماہرین یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بہترین اور موثرماس ٹرانزٹ نظام کسی بھی ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتاہے، کراچی میں ایسا کوئی نظام عملی طورپر موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس شہر کے لوگ گوناگوں مسائل کا شکار ہوتے گئے، اس شہر کے رہائشی علاقوں کے بِنا کسی منصوبہ بندی کے پھیلائو اور شہر کی آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے شہر کے ٹرانسپورٹ کے ساتھ ہی ٹریفک مسائل میں بھی نمایاں اضافہ کردیاہے جس کا نظارہ اس شہر کی کسی بھی سڑک پر کسی بھی وقت کیاجاسکتاہے۔
کراچی خاص طورپر شہر کے نواحی علاقوں میں رہنے والوں کو آمدورفت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے کئی مرتبہ کوششیں کی گئیں اس کے لیے بار بار منصوبے تیار کیے گئے لیکن ماس ٹرانزٹ کے دیگر منصوبوں کی طرح یہ منصوبے بھی تیاری کی منزل تک ہی محدود رہے۔
1947میں کراچی میں قابل عمل ٹرانسپورٹ سسٹم موجود تھا، ا س دور میں اس شہر میں چلنے والی ٹرامیں شہر کے اس دور کے بیشتر رہائشی اور تجارتی وکاروباری علاقوں کو آپس میں ملانے کے لیے بہت کافی تھیں اور گھر سے صاف ستھرا لباس پہن کر باہرنکلنے والا ہر فردصاف ستھرے لباس ہی میں گھر واپس پہنچتاتھا ،لیکن بعد میں اس شہر پر حکمرانی کرنے والوں کی جانب سے شہر یوں کوسہولتوں کی فراہمی سے چشم پوشی نے یہ صورتحال زیادہ عرصہ قائم نہیں رہنے دی۔حکمرانوں کی اس بے اعتناعی اور خود اس شہر کے منتخب نمائندوں کی جانب سے شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی جانب سے عدم توجہی نے بتدریج عوام کی مشکلات میں اضافہ کرناشروع کردیا،شہر میں حکمرانوں کی جانب سے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی کا فائدہ بعض ایسے لوگوں نے اٹھایا جن کااس شہرسے کبھی کوئی قلبی تعلق یامفاد وابستہ نہیں تھایہاں تک کہ ان میں سے اکثریت کے اہل خانہ بھی اس شہرمیں نہیں رہتے ۔ان لوگوںنے شہر میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کو سب سے زیادہ منفعت بخش تصور کرتے ہوئے ملک کے دیگر شہروں میں چلنے والی ایسی خستہ حال بسیں جن پر ان شہروں کے لوگ بیٹھنے کوتیار نہیں تھے ،خرید کر کراچی لانا اور انھیں شہر کے مختلف روٹس پر چلانا شروع کیا، شہر میں چونکہ حکومت اورشہری انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کے لیے آمدورفت کی سہولت کی فراہمی کاکوئی انتظام نہیں تھا اس لیے اس شہر کے لوگوں نے ان بسوں کو ہی غنیمت تصور کیا اور ان خود غرض ٹرانسپورٹ مافیا کی جانب سے شہر کی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کو بھاری رشوت دے کرمنظور کرائے گئے منہ مانگے کرائے پر سفر کرناشروع کیا۔ یہ سلسلہ دراز ہوتاگیا یہاں تک کہ اس شہر کی ٹرانسپورٹ کا بڑا حصہ ان لوگوں کے قبضے میںچلاگیا جن کا واحد مقصد اس شہر سے دولت کماکر ایک بس سے دو اور چار بسیں بنانا اور منافع کمانا تھا۔
شہر کے ٹرانسپورٹ نظام پر پوری طرح قبضہ کرنے کے بعد ان لوگوں نے ایک مافیاکی شکل اختیار کرلی اور زیادہ سے زیادہ مسافر بٹھانے او ر زیادہ سے زیادہ پھیرے لگانے کے لیے کراچی کی سڑکوں کو گھڑ دوڑ کامیدان بنادیاگیا جہاںنئے سیکھنے والے ڈرائیور یہ کھٹارا بسیں دوڑاتے تھے اور ان میں بیٹھے والے صحیح سلامت منزل تک پہنچنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتاتھا جب اس شہرپر چلنے والی بسوں کی زد میں آکر کوئی شہری جان سے ہاتھ نہ دھوبیٹھتا ہو، اور اس شہر کے لوگ بے بسی کے ساتھ اپنے حکمرانوں اور منتخب نمائندوں کی بے اعتنائی پر دل ہی دل میں کڑھتے رہتے تھے ،اور ان کے دلوں میں ان خون آشام ٹرانسپورٹروں کے خلاف لاوا پکتا رہتاتھا۔ اسی دوران کراچی کی ایک معروف سڑک پرترنم عزیز نام کی ایک کالج طالبہ سڑک کراس کرتی ہوئی ایک خون آشام بس کانشانہ بن گئی، انتظامیہ شہریوں کے دلوں میںپکنے والے لاوے کااندازہ نہیں لگاسکی اوراس نے اپنی روایتی غفلت اور بے اعتناعی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس حادثے کے ذمہ دار ڈرائیور کو گرفتار کرنے اور بس کو ضبط کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا، انتظامیہ کے اس رویے نے جلتی پر تیل کاکام کیا اور اس شہر کی سڑکیں خون آشام ٹرانسپورٹرں اور نااہل انتظامیہ کے خلاف میدان میں آگئی اور جب حکمرانوں کی آنکھ کھلی تو معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل چکاتھا ، اگرچہ اس مسئلے پر عوام کااحتجاج کامیاب رہا اوراس واقعے کے بعد حکمراں کراچی میں ٹرانسپورٹ کانظام بہتر بنانے اور شہریوں کو آمدورفت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کرنے اورسڑکوں پر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دندنانے والے ڈرائیوروں کونکیل ڈالنے کے لیے قانون پر عملدرآمد کرنے کے لیے اقدامات پر مجبور ہوئی لیکن جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ اب بہت دیر ہوچکی تھی ،اس ایک حادثے نے حکمرانوں کو توآنکھیں کھول دیں لیکن ایک اور مفاد پرست ٹولے نے اس موقع سے فائدہ اٹھاکر کراچی کے عوام کی محرومیوں کو اپنی سیاست چمکانے کا ہتھیار بنالیا۔
بعد ازاں ملک میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے اس وقت کے فوجی حکمرانوں نے اس شہر کی اس وقت کی مقبول سیاسی پارٹیوں کی طاقت توڑنے کے لیے ان کی بالواسطہ اور بلاواسطہ مدد کرکے ان کو اپنی طاقت بڑھانے کاموقع فراہم کردیا۔اس وقت کے عاقبت نااندیش حکمراں اس شہر کے لوگوں کے لیے ٹرانسپورٹ کامناسب انتظام تو نہیں کرسکے لیکن اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے ایسے عناصر کی پشت پناہی کی جس نے اس شہر کے لوگوں کو ٹرانسپورٹ مافیا کے ساتھ ہی ایک ایسی لعنت اورعذاب میںمبتلاکردیا جس کے نتیجے میں اس شہر کے لوگ اپنے تشخص سے محروم ہوگئے، اور اس شہر کے لوگ تعلیم اور تہذیب جن کی پہچان تھی، بھتا خور، لینڈ گریبر اور قاتل کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔
اس شہر کے لوگ آج بھی ٹرانسپورٹ، پانی ،بجلی، علاج معالجے اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں اور شہریوں کی ان محرومیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اب ٹرانسپورٹ مافیا کے ساتھ ،ٹینکر مافیا ،ہسپتال مافیا اور اسکول مافیا بھی وجود میں آچکے ہیں،یہ صورتحال ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کی نمائندگی کے دعویدار حکمراں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد اسمبلیوں میں پہنچنے والے اپوزیشن اراکین اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اس شہر کے عوام کو مذکورہ بالا مافیاز سے نجات دلانے کے لیے موثر منصوبہ بندی کریں اور شہریوں کو ٹرانسپورٹ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، علاج معالجے کی ارزاںقیمت پر سہولتوں اورمناسب فیسوں پر تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے پر توجہ دیں۔


متعلقہ خبریں


مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا۔بھکر آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات میں حکومتوں کا کوئی رول نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کا رول ہوتا ہے ، جس کا الیکشن کے لیے رول تھا انہوں نے رول ...

مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم وجود - جمعه 17 مئی 2024

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کے دوران شر پسند عناصر کی طرف سے صورتحال کو بگاڑنے اور جلائو گھیرائوں کی کوششیں ناکام ہو گئیں ، معاملات کو بہتر طریقے سے حل کر لیاگیا، آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں، کشمیریوں کی قربانیاں ...

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی وجود - جمعه 17 مئی 2024

ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، اصل بات وہی ہے ۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سم...

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے وجود - جمعه 17 مئی 2024

رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا ہے کہ جج کے پاس وہ طاقت ہے جو منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں، جج کے پاس دوہری شہریت بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، عدلیہ کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا کہ کیا دُہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی...

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام وجود - جمعه 17 مئی 2024

شکارپور میں کچے کے ڈاکو2مزید شہریوں کواغوا کر کے لے گئے ، دونوں ایک فش فام پر چوکیدرای کرتے تھے ۔ تفصیلات کے مطابق ضلع شکارپور میں بد امنی تھم نہیں سکی ہے ، کچے کے ڈاکو بے لگام ہو گئے اور مزید دو افراد کو اغوا کر کے لے گئے ہیں، شکارپور کی تحصیل خانپور کے قریب فیضو کے مقام پر واقع...

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

سندھ کے سینئروزیرشرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ بانی پی ٹی آئی کی لائونچنگ، گرفتاری، ضمانتیں یہ کہانی کہیں اور لکھی جا رہی ہے ،بانی پی ٹی آئی چھوٹی سوچ کا مالک ہے ، انہوں نے لوگوں کو برداشت نہیں سکھائی، ہمیشہ عوام کو انتشار کی سیاست سکھائی، ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مزید بہتر کرنے کی کوشش...

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا

پنجاب حکومت، ہتک ِ عزت بل کی منظوری اتوار تک موخر وجود - جمعرات 16 مئی 2024

پنجاب حکومت نے مزید مشاورت کرنے کیلئے ہتک عزت بل کی اسمبلی سے منظوری اتوار تک موخر کر دی جبکہ صوبائی وزیر وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا ہے کہ مریم نواز کی ہدایت پرمشاورت کے لئے بل کی منظوری کو موخر کیا گیا ہے ، ہم سوشل میڈیا سے ڈرے ہوئے نہیں لیکن کسی کو جھوٹے الزام لگا کر پگڑیاں...

پنجاب حکومت، ہتک ِ عزت بل کی منظوری اتوار تک موخر

دبئی لیکس پہلااوور ، 20اوور میچ کے 19اوور باقی ہیں، شبر زیدی وجود - جمعرات 16 مئی 2024

سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)شبر زیدی نے دبئی پراپرٹی لیکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاستدان یہ بتائیں کہ جن پیسوں سے جائیدادیں خریدیں وہ پیسہ کہاں سے کمایا؟ایک انٹرویو میں دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی مالیت 20 ارب سے زیادہ ہے ، جن پیسوں سے جائیدادیں خر...

دبئی لیکس پہلااوور ، 20اوور میچ کے 19اوور باقی ہیں، شبر زیدی

اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو رونا دھونا جاری رہیگا، بلاول بھٹو وجود - جمعرات 16 مئی 2024

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو ان کا رونا دھونا جاری رہے گا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کا لیڈر رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے مجھے نکالو، مجھے نکالو، یہ انگلی ...

اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو رونا دھونا جاری رہیگا، بلاول بھٹو

لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو گرڈ اسٹیشن خود سنبھال لیںگے، علی امین گنڈا پور وجود - جمعرات 16 مئی 2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے وفاقی حکومت کو ڈیڈ لائن دے دی۔علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبے میں لوڈشیڈنگ کم کرنے کے لیے آج رات تک شیڈول جاری کرے ، اگر شیڈول جاری نہ ہواتو کل پیسکو چیف کے دفتر جاکر خود شیڈول دوں ...

لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو گرڈ اسٹیشن خود سنبھال لیںگے، علی امین گنڈا پور

190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں عمران خان کی ضمانت منظور وجود - جمعرات 16 مئی 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 190ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں بانی پی ٹی آئی کی 10 لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کرلی۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ عد...

190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں عمران خان کی ضمانت منظور

خواجہ آصف کا ایوب خان کی لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ وجود - منگل 14 مئی 2024

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے آرٹیکل 6 کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں اور ایوب خان کو قبر سے نکال کر بھی آرٹیکل 6 لگانا چاہیے اور اُسے قبر سے نکال کر پھانسی دینا چاہیے ۔قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر عمر...

خواجہ آصف کا ایوب خان کی لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر