... loading ...
آنکھ ٹھنڈ کی وجہ سے کھلی، اے سی چل رہا تھا اور ہم بغیر کمبل کے سو گئے تھے، بھوک بھی لگ رہی تھی، کلائی کی گھڑی میں وقت دیکھا نو بج رہے تھے۔ ہم نے ابھی تک گھڑی میں وقت تبدیل نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے وقت میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اس حساب سے ریاض میں شام کے سات بج چکے تھے۔ ہمارے کچھ ساتھی ابھی تک سو رہے تھے، کچھ شائد باہر نکل گئے تھے۔ ہم نے بیگ سے ڈائری نکالی اور اپنے ایک دیرینہ دوست امین کا نمبر تلاش کرنے لگے۔ امین ہمارا بیج فیلو ہے جوکئی سال سے ریاض میں مقیم تھا، وہ ایک ٹیلی کام کمپنی میں انجینئر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ہم منہ ہاتھ دھو کر ہوٹل اپارٹمنٹ کے ریسپشن پر پہنچے۔ سعودی عرب میں لوکل کال مفت تھی، کسی بھی دکان یا دفتر سے کسی بھی لوکل نمبر پر کال کی جا سکتی تھی۔ موبائل فون ابھی عام نہیں ہوئے تھے اس لیے یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ خاص طور پر ہم جیسے اجنبیوں کے لیے جنہیں جان پہچان والوں سے رابطے کے لیے فون کا سہارہ درکار ہوتا ہے۔ خیر ہم نے ریسپشن پر موجود شخص سے فون کرنے کی اجازت طلب کی جو خوش دلی سے مل گئی۔ امین کا نمبر ملایا، بیل جا رہی تھی چوتھی بیل پر ہیلو کی آواز سنائی دی، فون پر کوئی اجنبی آواز تھی، ہم نے اپنا نام بتاکر کہا امین سے بات کروا دیں، اس کے بعد آنے والی آواز امین کی تھی۔ اس کی آواز میں حیرت تھی تم کب پہنچے، آنے سے پہلے بتایا کیوں نہیں، کیسے آئے، کس کمپنی میں ملازمت ملی ہے؟ امین نے ایک ہی سانس میں کتنے ہی سوال کرڈالے۔ ہم نے مختصر الفاظ میں اپنے سعودی عرب آنے کی روداد سنائی اور تفصیلی کہانی ملاقات سے مشروط کردی۔ امین نے پوچھا کہاں ٹہرے ہوئے ہو، ہم نے ریسپشن سے کارڈ لیا جس پر عربی میں ہوٹل اپارٹمنٹ کا نام اور پتا لکھا ہواتھا۔ ہم نے امین کو پڑھ کر سنایا، الصالحیہ شققہ المفروشہ۔۔ تقاطہ شارع فلاں، البطحہ، الریاض۔۔ ہم نے خاصی تجوید کے ساتھ یہ تحریر پڑھی تھی پورے درست شین قاف کے ساتھ دوسری جانب سے امین کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ہم نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگا ریسپشن پر کوئی ہے تو اس سے بات کروادو۔ میں اس سے پتہ سمجھ لوں گا، ہم نے فون ریسپشن پر موجود عربی کی جانب بڑھا دیا۔ عربی نے ہوٹل اپارٹمنٹ کا نام بتاکر پتا سمجھایا اور فون ہمارے حوالے کر دیا، امین پھر ہنسنے لگا ،میں نے پوچھا کیا ہوا کیوں ہنس رہے ہو، جواب آیا تم نے ہوٹل کا کیا نام بتایا تھا ہم نے دوبارہ تجوید کے ساتھ دوہرایا’’ الصالحیہ شققہ المفروشہ‘‘۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا تو شْگاصالحیہ بولو نا۔۔ جس کو ہم پورے شین قاف کے ساتھ شققہ پڑھ رہے تھے وہ مقامی عربی میں شْگا، تھا۔ شین پر پیش کے ساتھ گاف اور الف۔ تلفظ کا یہ دوسرا جھٹکا تھا اس سے پہلا جھٹکا ریاض کو’’ ریاد‘‘ سن کر لگا تھا۔ امین نے بتایا کہ یہ شگا صالحیہ بطحہ میں ہے جو ریاض کا مرکزی کاروباری علاقہ ہے اور اس کی رہائش وہاں سے قریب ہی ہے۔ امین نے آنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔
ہم ریسپشن کی لابی ہی میں بیٹھ کرامین کا انتظار کرنے لگے۔ ٹی وی پر سعودی چینل ون لگا ہوا تھا، جس پر کوئی مصری ڈرامہ چل رہا تھا۔ ہم نے صوفے پر نیم دراز ہوکر آنکھیں بند کرلیں۔ دیار غیر میں آپ کے دوست احباب کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ گھر سے، گھر والوں سے دور تنہائی اور اجنبیت کا احساس کس طرح ڈستا ہے اس کا درد وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے دیار غیر میں بالکل تنہا وقت گزارا ہو۔ وقت جیسے رک گیا تھا انتظارکی گھڑیاں طویل ہو رہی تھیں۔ کوئی آدھے گھنٹے بعد امین داخل ہوا، اس کو دیکھنے سے مانو کوئی نعمت مل گئی۔ ذوق نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا۔
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
امین کے ساتھ ہوٹل سے باہر نکلے اس کی گاڑی میں بیٹھے اور امین نے گاڑی آگے بڑھائی۔ اس دوران کراچی کی باتیں، دوستوں کی خیر خیریت اور اپنے اپنے حال احوال سنائے۔ امین نے کہا بطحہ کے ایک جگہ کی چائے بہت مشہور ہے، چلو تم کو وہ پلواتا ہوں۔ ہم نے کہا بھائی پہلے کچھ کھانے کو مل جائے تو اچھا ہے۔ ذرا دیر میں ہم ایک چھوٹے سے کیفے ٹیریا پر کھڑے تھے جہاں سے سینڈوچ کھانے کے بعد چائے پینے کیلیے نکل پڑے۔ چائے بھی ایک کیفے ٹیریا پر ملی، کسی ملباری کا چھوٹا سا کیفے ٹیریا، اس کوڈھابہ سمجھ لیں لیکن ذرا بہتر حالت میں اور ذرا زیادہ صاف ستھرا۔ ایسے کیفے ٹیریا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں میں کثرت سے ملتے ہیں یہاں چائے، جوس اور سینڈوچ وغیرہ مل جاتے ہیں۔ یہ کم خرچ بالا نشین قسم کی چیز ہوتی ہے۔ خیر اس ڈھابے ۔۔سوری۔۔ کیفے ٹیریا کی چائے اچھی تھی لیکن اس میں وہ بات کہاں جو ہمارے کوئٹہ ہوٹل کی دودھ پتی چائے میں ہوتی ہے۔ امین ہمیں بطحہ اور اطراف کے علاقے گھماتا رہا۔ بتاتا بھی رہا یہاں کیا ہے، کونسی مشہور عمارت ہے یا کونسی مارکیٹ ہے۔ ایک جگہ سے گزرتے ہوئے اس نے بتایا اس طرف اس کا گھر ہے۔ پھر اس نے گاڑی دوسری طرف گھمالی اور ہمارا ہوٹل آگیا۔ امین سے سلام دعا کرکے ہم اپنے کمرے میں لوٹ آئے، ہمارے ساتھی جاگ چکے تھے اوران میں کوئی باہر جا کر کسی ہوٹل سے کھانا بھی لے آیا تھا، وہ کھانا کھا رہے تھے ہم بھی شریک ہو گئے۔ کھانے کے بعد دیرتک گپ شپ ہوتی رہی اور اس کے بعد سب ہی سونے کے لیے دراز ہو گئے۔ ریاض میں پہلا دن گزر چکا تھا۔۔۔ جاری ہے۔
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس ...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...
علی اور منیب سوتے سے اٹھے تھے اس لیے انہیں چائے کی طلب ہو رہی تھی، ہم نے کہا چلو باہر چلتے ہیں نزدیک کوئی کیفے ٹیریا ہوگا، وہاں سے چائے پی لیں گے۔ علی نے بتایا کہ گزشتہ روز وہ اور منیب شام میں کچھ دیر کے لیے باہر نکلے تھے لیکن قریب میں کوئی کیفے ٹیریا نظر نہیں آیا۔ ہم نے کہا چل ...
دوسری بار کھٹ کھٹانے پر دروازہ کھلا، سامنے ایک درمیانے قد، گہرے سانولے رنگ کے موٹے سے صاحب کھڑے آنکھیں مل رہے تھے، گویا ابھی سو کر اٹھے تھے، حلیے سے مدراسی یا کیرالہ کے باشندے لگ رہے تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے ہمیں تو یہاں پاکستانی بھائی ملنا تھے، یہ بھارتیوں جیسے صاحب کون ہیں ،ابھی ...
کراچی کا صدر، لاہور کی انارکلی یا مزنگ اور پنڈی کا راجا بازار، تینوں کو ایک جگہ ملا لیں اور اس میں ڈھیر سارے بنگالی، فلپائنی اور کیرالہ والے جمع کریں تو جو کچھ آپ کے سامنے آئے گا وہ ریاض کا بطحہ بازار ہوگا۔ بس ہمارے بازاروں میں خواتین خریداروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جبکہ بطحہ میں...
رات کودیر سے سوئے تھے اس لیے صبح آنکھ بھی دیر سے کھلی۔ جب سب لوگ جاگ گئے تو فیصلہ کیا گیا کہ ناشتہ باہر کسی ہوٹل میں کیا جائے۔ لیکن ایک صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس نہ پاسپورٹ ہے نہ اقامہ اس لیے ہمیں باہر نہیں نکلنا چاہیے، ہم سب کو مشکل میں ڈال دیا۔ سعودی عرب میں کفیل سسٹم ہے، ...
ہم ریاض ایئرپورٹ سے باہر آچکے تھے، جہاز میں اور ایئرپورٹ کے اندر ایئرکنڈشننگ کی وجہ سے موسم سردی مائل خوشگوار تھا لیکن ایئرپورٹ سے باہر آتے ہی گرم ہوا نے استقبال کیا۔ یہاں مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے کا وقت تھا،مارچ کا مہینہ ہونے کے باوجود گرمی شباب پر تھی۔ ایک دم گرمی کا شدی...
فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہوائی جہاز ائیرپورٹ کے رن وے پرآہستہ آہستہ چلنا شروع ہوا۔ ہماری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی اس لیے باہر کے مناظر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔یہ بہت دلچسپ منظر تھاایئرپورٹ پر مختلف سائز کے کھڑے جہازاور ٹرمینل کی عمارت بھی نظر آرہی تھی، ایئرپورٹ پر مختلف قسم کی گ...
تیسرے ہزاریے کا پہلا سال تھا، سرکاری نوکری چل رہی تھی،کام کاج کا تردد بھی نہ تھا یعنی سرکاری اہلکاروں کی مانند ہڈحرامی کا دور دورہ تھالیکن دل کو چین نہیں تھا، اطمینان قلبی کی تلاش بھی تھی اور کچھ کرنے کی امنگ بھی ،ابھی دل زنگ آلود نہیں ہواتھا۔ دوسری بات جیب کی تنگی تھی ،سرکار تنخ...