وجود

... loading ...

وجود

پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات

پیر 13 اکتوبر 2025 پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات

محمد آصف

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ، اتار چڑھاؤ سے بھرپور اور باہمی شکوک وشبہات کے دائرے میں رہے ہیں۔ دونوں ممالک جغرافیائی، مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں، مگر سیاسی مفادات، سیکیورٹی خدشات اور بیرونی اثرات نے اکثر ان کے درمیان تناؤ پیدا کیا ہے ۔ حالیہ برسوں میں، خصوصاً طالبان حکومت کے 2021 میں کابل پر قبضے کے بعد، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوگئے ہیں۔ سرحدی جھڑپوں، دہشت گردی کے بڑھتے واقعات، مہاجرین کے مسائل اور سیاسی بیانات نے دونوں ممالک کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے ۔
تاریخی پس منظر
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کا آغاز 1947ء میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہوا۔ افغانستان وہ پہلا ملک تھا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی بنیاد پڑی۔ ”ڈیورنڈ لائن”کا تنازع، جو 1893ء میں برطانوی دور میں کھینچی گئی تھی، آج بھی ایک بنیادی اختلاف کا باعث ہے ۔ افغان حکومتیں ہمیشہ اس سرحد کو غیر قانونی سمجھتی رہی ہیں، جبکہ پاکستان اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد قرار دیتا ہے ۔1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے نے خطے کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا۔ پاکستان نے افغان مجاہدین کی حمایت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دوران لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آئے ۔مگر اس جنگ کے اثرات میں انتہا پسندی، اسلحے کی بھرمار اور دہشت گردی جیسے مسائل بھی پاکستان میں در آئے ۔ بعد ازاں 2001ء میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر ایک مشکل جغرافیائی و سیاسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
حالیہ حالات
2021ء میں جب طالبان نے دوبارہ افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو پاکستان نے امید ظاہر کی کہ یہ حکومت دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ پاکستان نے طالبان حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم تو نہیں کیا، لیکن عملاً ان سے رابطے اور تعاون برقرار رکھا۔ تاہم جلد ہی یہ امیدیں مایوسی میں بدل گئیں۔ سرحدی جھڑپیں بڑھنے لگیں، پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے حملوں میں۔ پاکستان نے بارہا افغان حکام سے شکایت کی کہ ٹی ٹی پی کے رہنما افغان سرزمین پر موجود ہیں اور وہاں سے حملے منظم کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔
وجوہاتِ کشیدگی
دہشت گردی اور سیکیورٹی خدشات: پاکستان کے مطابق حالیہ برسوں میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ، اور ان میں سے اکثر کی منصوبہ بندی افغانستان سے کی جاتی ہے ۔ طالبان حکومت پر الزام ہے کہ وہ TTP کے خلاف سخت کارروائی نہیں کر رہی۔ سرحدی تنازع اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ: ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا عمل طالبان حکومت کو ناگوار گزرتا ہے ۔ افغان فورسز اور پاکستانی سرحدی اہلکاروں کے درمیان کئی بار جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
افغان مہاجرین کا مسئلہ: پاکستان میں تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ پاکستان ان کی واپسی چاہتا ہے ، مگر افغانستان میں غیر یقینی حالات کے باعث یہ عمل رک گیا ہے ۔ حالیہ مہاجرین کے انخلا کے فیصلے نے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کر دیا ہے ۔
سفارتی عدم توازن: دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی شدید کمی ہے ۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغانستان بھارت کے قریب ہوتا جا رہا ہے ، جبکہ افغان حکومت کا الزام ہے کہ پاکستان اس کی خودمختاری میں مداخلت کرتا ہے ۔
معاشی اور تجارتی رکاوٹیں: دونوں ممالک کے درمیان تجارت، جو ایک وقت میں اربوں ڈالر تک پہنچ گئی تھی، اب بتدریج کم ہو رہی ہے ۔ سرحدی بندشیں، غیر یقینی پالیسیوں اور سیاسی بیانات نے اقتصادی تعلقات کو متاثر کیا ہے ۔
اثرات
علاقائی امن و استحکام پر اثر:پاکستان اور افغانستان کے بگڑتے تعلقات کا براہِ راست اثر وسطی اور جنوبی ایشیا کے امن پر پڑتا ہے ۔ دونوں ممالک کی سرحد دہشت گردی کے لیے سب سے حساس خطہ سمجھی جاتی ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کا بڑھنا : ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے ۔ عسکری اداروں کو دوبارہ قبائلی علاقوں میں آپریشنز شروع کرنے پڑ رہے ہیں۔
معاشی نقصان:دوطرفہ تجارت کے متاثر ہونے سے دونوں ممالک کو مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا ہے ، جس سے ریاستی ریونیو کم ہو رہا ہے ۔
سماجی اور انسانی بحران:مہاجرین کی واپسی اور ان کے خلاف کارروائیوں سے انسانی بحران جنم لے رہا ہے ۔ لاکھوں افغان شہری بے یار و مددگار ہو کر سرحدوں پر پھنس گئے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات پر اثرات:دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا فائدہ بیرونی قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ بھارت جیسے ممالک افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ چین اورروس علاقائی امن کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ممکنہ حل اور راہِ نجات
دوطرفہ مذاکرات کا تسلسل: دونوں ممالک کو جذباتی بیانات کے بجائے باہمی مکالمے اور اعتماد سازی کے اقدامات پر توجہ دینی چاہیے ۔ ایک مستقل سرحدی رابطہ کمیٹی تشکیل دی جائے ۔دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی: طالبان حکومت کو واضح طور پر ٹی ٹی پی اور
دیگر گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے ، اور پاکستان کو بھی افغانستان کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا رہنا چاہیے ۔
معاشی تعاون میں اضافہ: تجارتی راہداریوں، بارڈر مارکیٹس اور سرمایہ کاری کے منصوبوںکے ذریعے تعلقات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔
مہاجرین کا باعزت حل:افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے بین الاقوامی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ، کو شامل کر کے ایک انسانی بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے ۔
علاقائی استحکام کے لیے مشترکہ فورمز:شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اور او آئی سی جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان اور افغانستان اپنے اختلافات کم کر سکتے ہیں۔
نتیجہ
پاکستان اور افغانستان دو ایسے ہمسایہ ممالک ہیں جن کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے ۔ بداعتمادی، دہشت گردی اور سیاسی مفادات نے ان کے درمیان دیواریں کھڑی کر دی ہیں، مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دونوں ممالک صرف تعاون کے ذریعے ہی ترقی اور امن کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ اگر دونوں ریاستیں ماضی کے تنازعات کو پسِ پشت ڈال کر حقیقت پسندانہ اور باہمی احترام پر مبنی پالیسی اپنائیں تو خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی ممکن ہے ۔ ورنہ یہ تنازع نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات وجود پیر 13 اکتوبر 2025
پاکستان اور افغانستان کے حالیہ بگڑتے تعلقات

اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ وجود پیر 13 اکتوبر 2025
اسرائیل کی غزہ جنگ کے دو سال:ٹرمپ کا فارمولہ

خاموش انقلاب کا انعام وجود پیر 13 اکتوبر 2025
خاموش انقلاب کا انعام

خطے کا امن اور بھارت وجود اتوار 12 اکتوبر 2025
خطے کا امن اور بھارت

بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال وجود هفته 11 اکتوبر 2025
بے حس مسیحاؤں کی ہجرت صحت عامہ کا زوال

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر