... loading ...
ریاض احمدچودھری
مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کے ظلم و ستم پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی ہے،مگرنہتے کشمیریوں پرظلم کے پہاڑتوڑتے ہوئے بھارتی حکومت اورفوج کو شرم نہیں آئی۔کشمیریوں پر بد ترین ریاستی دہشت گردی کر کے حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محض عسکری طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا غلام بنا رکھا ہے،بلکہ اس نے کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے ایسے پہاڑ توڑے ہیں جن کا کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے حال ہی میں جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ان کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 1989ء سے اب تک 94ہزار سے زائد بے قصور اور بے گناہ افراد کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ 7ہزار سے زائد بچے یتیم ہو گئے اور 22ہزار 7سو سے زائد عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ اس کے علاوہ 10ہزار ایک سو سے زائد خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ اس عرصے میں ایک لاکھ 6ہزار سے زائد مکانات اور دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔ اس ظلم و ستم کے باوجود مقبوضہ وادی کے عوام اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔اگر بھارت اپنے تمام وسائل، عسکری قوت اور خزانہ مقبوضہ کشمیر میں بروئے کار لائے تو بھی وادی کی ہیئت تبدیل نہیں ہو گی۔ بھارتی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دھونس اور دباؤ کی پالیسی سے جذبہ آزادی ختم نہیں ہو گا۔عالمی برادری کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی کے عالمی ادارے گزشتہ 25برسوں کے دوران لاپتہ کئے گئے 9ہزار سے زائد افراد کی بازیابی اور ان لوگوں کی گمشدگی سے متعلق حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ 8ہزار سے زائد گمنام قبروں میں دفن لوگوں کے اصل حقائق سے کشمیری قوم اور ان افراد کے لواحقین کو معلومات فراہم کرنا عالمی برادری کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہم عالمی برادری کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام پر جاری مظالم کے خاتمے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی، جبکہ بھارت انکاری ہے۔ یہ مسئلہ اگر ابتدا ہی میں حل ہو جاتا یا سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا ایک پرامن خطہ ہوتا، لیکن نہ تو اقوام متحدہ نے اس طرف کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی چھوڑی اور آج تک یہ مسئلہ جوں کاتوں ہے۔ اقوام متحدہ اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور عالمی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں، تاکہ مظلوم کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت مل جائے اور وہ بھی آزادانہ طور پر زندگی گزار سکیں۔
بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں امرناتھ یاترا کے تحفظ کے نام پر پیراملٹری سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کی 580 اضافی کمپنیاں تعینات کر رہا ہے، تاہم مبصرین اسے پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں مودی حکومت کے مذموم منصوبے کا حصہ سمجھتے ہیں۔ نئی تعینات کی جانے والی فورسز میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف)، بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف)، انڈو تبتین بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی) اور ساشستریا سیما بال (ایس ایس بی) شامل ہیں۔یہ تاریخ میں سالانہ یاترا کے نام پر تعینات کی جانے والی فورسز اہلکاروں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ کل 580کمپنیوں میں سے تقریبا 400 کمپنیاںوادی کشمیر کے پہلگام اور بال تل کے راستوں پر تعینات ہوں گی۔باقی کمپنیاں جموں ڈویژن میں تعینات کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ ڈرونز، سی سی ٹی وی کیمروں، نائٹ ویژن آلات اور بم کا پتہ لگانے والے دستوں کوبڑے پیمانے پر تعینات کیا جارہا ہے۔ حساس علاقوں میں ریموٹ کنٹرول آئی ای ڈی دھماکوں کو روکنے کے لیے موبائل سگنل جیمرز کو نصب کیا جائے گا۔ مبصرین مقبوضہ جموں و کشمیر میں یاترا کے تحفظ کے نام پر پیراملٹری فورسز کی اضافی تعیناتی کوپاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں مودی حکومت کے مذموم منصوبے کاحصہ سمجھتے ہیں۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں پہلے ہی10لاکھ سے زائد قابض فوجیوں کوتعینات کر رکھا ہے۔بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ اور پولیس کو 156سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کمپنیوں کوبھی متحرک کرنے کا اختیار دیا ہے جو پہلے سے مقبوضہ علاقے میں تعینات ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی پر جاری بات چیت کو اب طول نہ دیا جائے بلکہ فوری طور پر حتمی فیصلہ لیا جائے تاکہ عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو سکے۔ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ کشمیری عوام کا آئینی و جمہوری حق ہے جسے مزید نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کی غیر قانونی نظربندی کے دوران گرتی ہوئی صحت پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحمید فیاض جو سرینگر سینٹرل جیل میں قید ہیں۔اہلخانہ کے مطابق وہ جیل میں شدید علیل ہیں اورانہیں فوری سرجری کی ضرورت ہے۔ میر واعظ نے تشویش ظاہرکی کہ کشمیری سیاسی رہنمائوں کی جیلوں میں نظربندی کے دوران حالت انتہائی ابتر ہے اور انہیں مناسب خوراک اور علاج معالجے کی سہولتوں سے مسلسل محروم رکھا جارہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔