... loading ...
براہِ راست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسراربخاری
(ن) لیگ کے سینیٹر پرویز رشید کے قادیانیوں کے حق میں بیان سے دینی حلقوں میں شدید ردعمل غیر متوقع نہیں ہے ، پرویز رشید سیکولر ذہن رکھنے والا شخص ہے ۔ اس کے بیان میں مسلمانوں کیلئے دل آزاری کا پورا زہر موجود ہے۔ اس حوالے سے گرفت کرنے کے اولین لمحے میں جس خیال نے ذہن میں کلبلاہٹ کی وہ یہ تھا کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز ناراض ہو سکتی ہیں کیونکہ پرویز رشید ایک مدت سے ان کا انکل ہے ، برسوں پہلے جب یہ علم میں آیا کہ پرویز رشید (ن) لیگ کے قائد میاں نوازشریف کا زبردست حامی اور ان کے قریبی مصاحبین میں شامل ہوگیا ہے تو اس لئے عجیب سالگا تھا کہ اس کی سوچ ، نظریات اور میاں نوازشریف کی سوچ اور نظریات میں زمین اور آسمان کا فاصلہ ہے ،وہ سیکرلر جبکہ میاں نوازشریف دینی ذہن رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ پرویز رشید کی اپنے نظریات سے 180ڈگری پر الٹی رقند محسوس ہوئی تھی۔ بہرحال نظریات میں تبدیلی ممکنہ عمل ہے ۔ 1968-69ء میں راولپنڈی میں وادیٔ صحافت میں کوچہ گردی کا آغازہوا تو میں سب سے جونیئرصحافی تھا اور بہت لائق احترام سینئرز جناب ہدایت اختر، عبدالسلام قریشی ، شورش ملک ،سعود ساحر، فاروق اعظم، ناصر بخاری، لطیفہ آذر، شبیر الاسلام عثمانی، نواب یزدانی، منوبھائی، زیڈیو خان اوردیگر سے اس دور سے سیاست دانوں اورا سٹوڈنٹس لیڈروں کی باتیں سنا کرتا تھا، جن میں چھوٹارشید (لال حویلی والا)بڑا رشید غالباً اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق تھا ،اس دور میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا چرچا تھا۔ راجہ انور اور پرویز رشید بائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے ، ان کی جوڑی بہت مشہور تھی۔ راجہ انور نے مری روڈ کی ایک بلڈنگ کی دوسری منزل پر اپنا ڈیرہ بنارکھا تھا۔ اس دور میں یہ بات صحافتی حلقوں میں بہت معروف تھی ۔کوئی راجہ انور کے ڈیرے کا پتہ پوچھے تو بتادیا جائے فلاں بلڈنگ کی دوسری منزل کے جس کمرے سے چرس کی خوشبو آئے وہ ہی اس کا ڈیرہ ہے ۔ یہ مخالفوں کا پروپیگنڈہ تھا یا سچ تھا ،مجھے کبھی اس ڈیرے پر جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ جب مرتضیٰ بھٹو جہاز اغواء کرکے کابل لے گیا تو راجہ انور بھی اس کے ساتھ کابل چلا گیا۔ میرے علم کی حدتک پرویز رشید پاکستان میں ہی رہ گیا۔ اس پس منظر سے پرویز رشید کے نظریات کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔
1971ء میں روزنامہ جادواں بند ہواتو میں لاہور آگیا کافی عرصہ بعد پرویز رشید کے (ن) لیگ میں سرگرم ہونے کی خبر ملی ۔اس طرح تب دونظریاتی مخالف شیخ رشید اور پرویز رشید ایک سیاسی پلیٹ فارم پر آگئے۔ اپنی قلابازیوں کے باعث شیخ رشید اس پلیٹ فارم سے دوراور پرویز رشید اس پلیٹ فارم کا اہم حصہ بن گیا ۔حتیٰ کہ آج اسے وزیراعلیٰ مریم نواز کے سیاسی اتالیق کی حیثیت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے اوپر کی سطور میں پرویز رشید کے بیان کو ہرزہ سرائی قرار دینے پر مریم نواز کے ناراض ہونے کے خدشہ نے سراٹھایا۔ پھر جائزہ لیا اس ناراضی کے نتیجے میں کیا خسارہ ہوسکتا ہے۔
میاں نوازشریف گورنر جیلانی کی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے سیاست میں سرگرم ہوئے تب میں روزنامہ مشرق سے وابستہ تھا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ ملک کے وزیراعظم (تین مرتبہ) شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ اور ملک کے وزیراعظم جبکہ مریم نواز لمحہ موجود میں پنجاب کی وزیراعلیٰ ہیں۔ کسی بھی دور میں (ن) لیگ کی کسی حکومت سے کسی بھی نوعیت کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ وزیر خزانہ نوازشریف کے دورمیں مریم نواز کے موجودہ دورتک کسی صلہ وستائش کی تمنالئے بغیر ملک اور عوام کیلئے ان کے اچھے کاموں کو سراہا اور اجاگر کیا ہے۔ اس لیے پرویز رشید کی گرفت پر مریم نواز ناراض ہو جائے تو کوئی خسارہ نہیں لیکن اگر ختم نبوت کے ڈاکووں کے حق میں ہرزہ سرائی پر خاموشی اختیار کرنے سے آقائے دوجہاں ناراض ہوگئے تو دنیا ہی نہیں آخرت کی دائمی زندگی میں بھی خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ پرویز رشید نے بظاہر انسان دوستی، قومی یکجہتی اور ہر شہری کے دل ودماغ میں پاکستانیت کا احساس بیدارکرنے کا تاثر دیا ہے جبکہ یہ کھلم کھلا ملک میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے سے متعلق قوانین ختم کرنے کا دیرینہ مطالبہ ہے جو یوں ہے ۔ پاکستان میں جب تک تمام شہریوں سے مساوی سلوک نہیں ہوتا ہرشہری کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھا جاتا، سب پر ایک جیسی توجہ نہیں دی جاتی تب تک یہ تقسیم رہے گی اس تقسیم کی دردناک کہانیاں ہیں۔ سرکاری وردی میں پولیس والا ایک خاتون کے گھر جاکر اس کے عقیدے کے بارے میں سوالات کرتا ہے کون سی ریاست ہے جس میں کسی کو حق دیا جائے اس چیز کیلئے کہ قربانی کا گوشت جس گھر سے آیا ہے اس کا تعلق کس عقیدے سے ہے ۔ یا دوسروں میں قربانی کا گوشت تقسیم کرنے والے کاکس عقیدے سے تعلق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قربانی کا گوشت مسکینوں میں غریبوں میں، یتیموں ، بیواوں اور گوشت کھانے کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کرو، لیکن یہاں پرسوال و جواب یہ ہوتا ہے غریب ، مسکین نہیں اس کا عقیدہ کیا ہے اس کو گوشت دیا جاسکتا ہے یا نہیں دیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں رہنے والی اقلیت جس کا عقیدہ اکثریت سے مختلف ہے وہ تمام ان امتحانوں سے گزرتی ہے ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں رہتیں ،ان کے گھر محفوظ نہیں رہتے ، ان کیلئے ہردم خطرات رہتے ہیں کسی پر الزام لگتا ہے تو سالہاسال جیل میں رہتا ہے اور کسی کو زندگی سے محروم کردیا جاسکتا ہے آئے آج اس چیز کا عہد کریںیہ پارلیمنٹ ان تمام قوانین کو ختم کرے ، ہمارے ہاں جن قوانین کے تحفظ کی آڑلے کر، جن قوانین کا بہانہ استعمال کرکے پاکستان کے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوتی ہے نہ کہ ہم ایسا پاکستان بنائیں جس میں رہنے والا ہر شہری اس ملک کو اپنا ملک سمجھے ، جس میں رہنے والا ہرشہری اپنی زبان، اپنے جغرافیہ اور اپنے عقیدے سے نہ پہچانا جائے بلکہ اس کی پہچان نہ صرف اور صرف یہ ہو وہ پاکستان کا ہے اور پاکستان اس کا ہے ۔پاکستان میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں ان کے گھروں کا محفوظ رہنا اور خطرات میں گھرے رہنا، محض الزام پر سالہا سال جیل اور زندگی کا خاتمہ خلاف واقعہ ہی نہیں۔ پرویز رشید نے انتہائی کذب زبانی سے کام لیا ہے ، پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز جس کا وہ انکل ہے کیا اس نے پنجاب میں کرسچنوں، ہندووں، سکھوں کی عبادت گاہوں کی تزئین وآرائش نہیں کرائی کیا وہ اقلیتوں کے مذہبی تہوار میں شریک ہوکر اپنائیت کا احساس نہیں دلاتی، کیا پاکستان کی تاریخ میں مستقل مالی مدد کیلئے مریم نے اقلیتوں کو پہلی مرتبہ کارڈ جاری نہیں کئے رہ گئی قادیانیوں کی بات تو وہ خود کو کب اقلیت ظاہر کرتے ہیں، میرا دعویٰ ہے وہ آج خود کو اقلیت ہونے کا اعلان کریں ۔آج ہی مریم نواز ان کیلئے حسن سلوک کی راہیں کشادہ کردے گی۔ پرویز رشید سے قرآن حکیم کی غلط تفسیر کی ہے اللہ تعالیٰ نے قربانی کا گوشت مسکینوں، غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور گوشت نہ کھانے کی استطاعت رکھنے والوں میں تقسیم کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا ہے۔ غیرمسلموں کو نہیں کیونکہ ان پر تو قربانی فرض ہی نہیں ہے ، البتہ اگر ہر قادیانی ہر روز ایک بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت مسکینوں، غریبوں میں تقسیم کرے کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ اعتراض کیوں اور کب ہوتا ہے پرویز رشید کو خودبھی اچھی طرح علم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔