... loading ...
حمیداللہ بھٹی
دس رُکنی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کاحالیہ اجلاس اِس بنا پرغیرمعمولی اور اہمیت کاحامل ہے کہ اِس کے دورُکن جوہری ممالک پاکستان اور بھارت کی فضائیہ گزشتہ ماہ ہی دنیا کی سب سے بڑی ڈاگ فائٹ کرچکی ہیں جبکہ رواں ماہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بارہ روزتک جاری رہنے والی جنگ کے بعد امریکی مداخلت سے بظاہر سیز فائر ہوچکا ہے۔ ایک اور عالمی سرگرمی جس کا تذکرہ بھی ضروری ہے وہ دی ہیگ میں نیٹو کانفرنس کے اگلے روز ہی اِس اجلاس کا منعقد ہونا ہے جس میں امریکی دبائو پر یورپی ممالک دفاعی اخراجات بڑھانے پر رضامندہوگئے ہیں کیونکہ چین طویل عرصہ سے امریکی قیادت میں تشکیل پانے والے دفاعی و معاشی اتحادوں کے مقابلے پر ایس سی او کو ایک متبادل پلیٹ فارم کے طور پر پیش کرتا ہے اور ممبر ممالک میں سیاست،دفاع،معیشت،تجارت اور جدید سائنسی علوم میں تعاون کوفروغ دینے کی ضرورت پر زوردیتاہے۔ چینی قیادت میں اِس تشکیل پانے والے اتحاد کی اِس بناپر بھی اہمیت ہے کہ اِس کی قیادت مستقبل کی سپر طاقت چین کے پاس ہے مذکورہ اوصاف دنیا کو اِس تنظیم کے فیصلوں کو نہایت سنجیدہ لینے پر اُکساتے ہیں۔ اب اِس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ مستقبل کے عالمی منظرنامے میں چین کا کردار کلیدی ہوگا مگر ایس سی او کے حالیہ اجلاس میں شریک پاکستان اور بھارت کے وزرائے دفاع کا ایک ہی میزپرہوتے ہوئے بھی دوطرفہ ملاقات سے گریزکو عالمی سطح پرمحسوس کیا جائے گا کیونکہ دونوں کا ایک دوسرے کونظرانداز کرنے سے تنظیم کے روشن مستقبل کے اندازوں کی تائید نہیںہوتی لہٰذا چین جو دنیا کے تنازعات حل کرنے میں پیش پیش ہے ۔اب دنیا ایس سی او کے حوالے سے بھی چینی حکمتِ عملی جانناچاہتی ہے جس پر عمل پیراہوکر تنظیم کومضبوط بنانے کے ساتھ دونوں ہمسایہ جوہری ممالک کوباہمی مسائل بات چیت سے حل کرنے پر آمادہ کرلے گا ۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں چارجوہری طاقتیں ہیں ۔اِن چاروں کو ایک حوالے سے ہمسایہ ممالک بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ چاروں میں زمینی راستے سے آمدورفت ممکن ہے ۔یہ خوبی خطے کی حساسیت بڑھاتی ہے اورممبر ممالک سے بہتر اور خوشگوار باہمی تعاون کا تقاضاکرتی ہے مگر حالیہ اجلاس میں مشترکہ اعلامیے پر نااتفاقی سے دنیا کواچھا پیغام نہیں گیا ۔بھارت نے یہ کہہ کر اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ پہلگام واقعہ کو پاکستان سے جوڑنے کی بجائے بلوچستان میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے کسی عالمی فورم پر کشمیر کو حل طلب مسئلہ خیال کیا جائے اور صوبہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو بیرونی عناصر سے جوڑاجائے ایسی صورتحال بھارت کو سخت ناگوارگزرتی ہے۔ حالانکہ عالمی فورم اپنی کارروائی اور اعلامیے کو محض الزام تراشی سے نہیں حقائق سے منسلک کرتے ہیں ۔اب بھی دس میں سے نوممالک رضامند تھے، واحد بھارت ہے جس نے اختلاف ظاہر کیا۔وہ اجلاس میں پہلگام واقعہ کواعلامیہ کا حصہ بنانے اورپاکستان کی مذمت کرنے کے لیے شرکا کی منتیں کرتا رہا مگر کسی نے بھارتی خواہش کی پزیرائی نہ کی۔ یہ واضح طورپر بھارت کی سفارتی سُبکی ہے لیکن تنظیم کے مستقبل کے لیے ایسا بھارتی رویہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے بھارت خود کوعالمی سطح پرچین کا مخالف اور امریکہ کے حمایتی کے طورپر پیش کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مشترکہ اعلامیے پر رُکن ممالک میں اتفاق ہو وگرنہ نیٹو سمیت دیگرناقد عالمی تنظیمیں کہہ سکتی ہیں کہ جس تنظیم میں مشترکہ اعلامیہ پر اتفاقِ نہیں ہوتا وہ متبادل قوت کیسے بن سکتی ہے؟
یہ نہیں کہ بھارتی موقف سنے بغیر رَد کردیا گیابلکہ سفارتی ناکامی کی وجہ دلائل وشواہد نہ ہونا ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کواپنے حاضر سروس نیول آفیسر کلبھوشن یادیو کا تذکرہ کرنے کی اِس لیے ضرورت نہیں تھی کہ وہ نہ صرف پاکستان کا غیر قانونی سفر کرتے ہوئے گرفتارکیاگیابلکہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کر چکا ہے ۔ایسا کیوں ہوانیز بھارت کی بلوچستان میں کیا دلچسپی ہے؟ وہ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کی کیوں مدد کرتا ہے؟ دنیا بھر میں سکھ رہنمائوں کو قتل کرانے میںبھی اُس کا کردار بے نقاب ہوچکا ہے ۔یہی وہ عوامل ہیں جن سے دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے میں بھارت مسلسل ناکام ہے کیونکہ دنیا کے سوالوں کا اُس کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں مگر جب پاکستان کشمیر اور فلسطین کی بات کرتا ہے تو پُرامن بقائے باہمی پر یقین رکھنے والی تمام اقوام تائید کرتی ہیں کیونکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے سبھی آگاہ ہیں۔
چین کا حالیہ اجلاس کے لیے چنگ ڈاکاانتخاب کرنابھی دنیاکو چونکانے کاباعث ہے کیونکہ یہاں اُس کا ایک اہم ترین بحری اڈہ ہے شاید اسی بناپر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین دنیا کو اپنی دفاعی طاقت سے آگاہ اورمرعوب کرنے کی جن کوششوں میں مصروف ہے ،حالیہ اجلاس بھی اسی حکمت عملی کاحصہ ہے، مقصد کسی کو اِس حوالے سے کوئی ابہام نہ رہے۔ اجلاس میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کی شرکت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقابلے کے دعویدار بھارت کو بحری طاقت کی جھلک کرائی گئی ہے تاکہ اُس کے اندرموجود سمندری ناکہ بندی کاخناس جڑسے ختم کیا جا سکے۔
ہمسایہ ممالک کے لیے جارحانہ عزائم رکھنے والا بھارت یہ بھول جاتا ہے کہ رواں برس مارچ میں گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں پاکستان کا دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرا نمبرہے، اِس کی وجہ 2024میں 2023کی نسبت دہشت گرد حملوں میں پینتالیس فیصد اضافہ ہونا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے تحسین کرچکے اِس کے باوجود بھارت کاخود کومظلوم ظاہرکرنااورپاکستان جوخود دہشت گردی کا شکارہے پر الزام تراشی سمجھ سے بالاترہے ۔دہشت گردی ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے مربوط اور ہمہ گیر کوششوں کی ضرورت ہے مگر اِس آڑ میں مفاد کشید کرنادرست نہیں اِس خطرے کا مستقل تدارک تبھی ممکن ہے جب انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ اور سیکورٹی اِداروں میں قریبی رابطہ ہو، مگر بھارت چاہتا ہے کہ وہ جو کہے دنیا من و عن تسلیم کرلے ۔ایسا توکسی صورت ممکن ہی نہیں۔ یہی کچھ ایس سی اواعلامیے کی منظوری کے دوران ہوا جس پر جھنجھلاہٹ کاشکارہوکر بھارت نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا جودراصل چینی موقف کی بھی نفی ہے۔ مگر کیا چین بھارت کے اِس معاندانہ رویے کویکسر نظر انداز کردے گا ؟شاید نہیں۔واقفان ِ حال کا کہنا ہے کہ چین نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم کو بچانے کے لیے ہر حدتک جا سکتا ہے بلکہ بھارتی کوششوں پرنظر رکھ کر ناکام بنانے کی بھی ہرممکن کوشش کرے گا جس کا ثمر مزید نوازشات کی صورت میںپاکستان کو مل سکتا ہے۔ حالات اِشارہ کرتے ہیں کہ چین بھلے عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند سہی مگر بھارتی رویہ اُسے نظر ثانی پرمجبور کرسکتا ہے۔