وجود

... loading ...

وجود
وجود

وزیراعلیٰ اروندکجریوال کی گرفتاری کاقضیہ

منگل 26 مارچ 2024 وزیراعلیٰ اروندکجریوال کی گرفتاری کاقضیہ

معصوم مرادآبادی

جمہوریت کے قیام کے بعد راجدھانی دہلی نے کئی نظارے دیکھے ہیں۔ان میں کچھ دلچسپ تھے اور کچھ سبق آموز۔ لیکن اس وقت راجدھانی میں جو کچھ ہورہا ہے ، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ایک منتخب سرکار کے وزیراعلیٰ کو جیل میں ڈال دیا گیاہے اور اس کے کابینی وزیرو ممبران اسمبلی سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں کھا رہے ہیں جبکہ جمہوری طورپر منتخب ایک پوری صوبائی سرکار اپنے دستوری حقوق کے لیے دربہ در کی ٹھوکریں کھارہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے کارکنان ملک گیر سطح پراحتجاج کرتے ہوئے اروندکجریوال کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیں۔کجریوال کو بدعنوانی اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزام میں ای ڈی نے گرفتار کیا ہے ۔انھوں نے ابھی تک اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا ہے ۔
ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک وزیراعلیٰ اپنی کرسی سمیت سلاخوں کے پیچھے ہے ۔یہ وہی وزیراعلیٰ ہے جس نے ایماندارانہ سیاست کی قسمیں کھاکر اقتدار حاصل کیا تھا، لیکن خودبے ایمانی کی دلدل میں پھنس گیا ہے ۔ کجریوال کو دہلی کی آب کاری پالیسی تبدیل کرکے جگہ جگہ شراب خانے کھلوانے کا فائدہ کتنا پہنچا ؟یہ ابھی واضح نہیں ہے ، لیکن اس کا نقصان کجریوال اور ان کی پارٹی کو ضرور پہنچ گیا ہے۔ اپوزیشن نے کجریوال کی گرفتاری کو انتقامی سیاست سے تعبیر کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں کجریوال کی پشت پر جس طرح کھڑی ہوگئی ہیں، اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکمراں بی جے پی کو یہ داؤ الٹا بھی پڑسکتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب تک اس حکومت نے بدعنوانی کے الزام میں صرف اپوزیشن لیڈروں کو ہی نشانہ بنایا ہے اوران کے خلاف ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس محکموں کا بے دریغ استعمال کیا ہے ۔ اس دوران اگر کسی پارٹی کا کوئی بدعنوان لیڈر بی جے پی میں شامل ہوگیا ہے تو اس کے تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں ان ہی لوگوں کے خلاف کارروائیاں انجام دے رہی ہیں جو سرکار کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ عام انتخابات سے پہلے ہورہا ہے اور اس کا سیاسی پیغام بہت واضح ہے ۔
اروند کجریوال تیسری بار دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں۔70 رکنی دہلی اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد 62 ہے اور باقی آٹھ ممبران بی جے پی کے ہیں۔ بی جے پی ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگانے کے باوجود دہلی کے عوام کو کجریوال اور ان کی پارٹی سے بدظن نہیں کرسکی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کجریوال نے دہلی کے عوام کو بہت فیض پہنچایا ہے ۔ بجلی پر سبسڈی، اسکولوں اور اسپتالوں کی کایا پلٹ، عوامی خدمات دروازے پرمہیا کرانے جیسے اقدامات نے انھیں عوام کا مقبول لیڈر بنادیا ہے ۔ اسی مقبولیت نے انھیں پنجاب میں اقتدار تک پہنچایا ہے ۔ اس بار عام آدمی پارٹی نے انڈیا اتحاد کے ساتھ مل کر چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دہلی اور پنجاب میں اس نے کانگریس کے ساتھ سیٹیں شیئر کی ہیں۔ دہلی کی سات لوک سبھا سیٹوں میں سے چار پر عام آدمی پارٹی اور تین پر کانگریس کے امیدوار لڑرہے ہیں۔بی جے پی چاہتی تھی کہ کجریوال کانگریس سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں، لیکن مسلسل ہراسانی نے انھیں انڈیا اتحاد کے ساتھ جانے پر مجبور کیا ہے ۔
عام خیال یہ ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی سرکار ہے ، جس کی کمان وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے ہاتھوں میں ہے ، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ دہلی میں دوسرکاریں ہیں۔ ایک لیفٹیننٹ گورنر کی سرکار اور دوسری کجریوال کی سرکار۔ یعنی ایک میان میں دو تلواریں۔ کجریوال کا کوئی بھی حکم گورنر کے دستخط ہونے کے بعد ہی نافذ ہوتا ہے ۔ اس لیے کجریوال سرکار اب کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے ڈرتی ہے کہ کہیں کچھ اور نہ ہوجائے ۔پچھلے سال گورنر نے ایسی حکمت عملی بنائی کہ دہلی حج کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر بی جے پی ایک مسلم خاتون کو کامیاب کرادیا۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی سرکار نے عرصے سے دہلی اردو اکادمی، وقف بورڈ اور اقلیتی کمیشن کسی تقرری کا جوکھم نہیں اٹھایا ہے اور یہ ادارے بے یارومددگار پڑے ہیں۔ دہلی میں وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ عدالت میں ہے ۔ دہلی میں پولیس، دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور دیگر کلیدی محکمے مرکزی حکومت کے پاس ہیں اور باقی وزیراعلیٰ کے پاس۔یہی وہ پیچ ہے جس میں دنوں پھنسے ہوئے ہیں۔
دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال پر کئی مہینوں سے گرفتاری کی تلوارلٹکی ہوئی تھی۔ نئی شراب پالیسی کامعاملہ جس میں ان کے دو سابق کابینی وزیر،ایک راجیہ سبھا سمی ممبراورکئی دیگرلوگ تہاڑ جیل میں قید ہیں، ایک ایسا معاملہ ہے جس کی پرتیں مسلسل کھل رہی ہیں۔ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وزیراعلیٰ کو عہدے پر رہتے ہوئے گرفتار کیا گیا ہے ، ورنہ اس سے پہلے جن وزرائے اعلیٰ پر بھی بدعنوانی یا ہیرا پھیری کے الزامات لگے ہیں، انھوں نے استعفیٰ دے کر ہی گرفتاری پیش کی ہے ۔ ان میں بہار کے لالو پرشاد یادو، تمل ناڈو کی جے للتا، کرناٹک کے بی ایس یدی روپا اور جھارکھنڈ کے ہیمنت سورین شامل ہیں۔پچھلے دنوں جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین پر جب شکنجہ کس دیا گیا تو انھوں نے استعفیٰ دے کروزیراعلیٰ کی کرسی اپنی پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کو سونپ دی۔ لیکن دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے گرفتاری کے بعد کہا ہے کہ وہ جیل سے ہی سرکارچلائیں گے ۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ سیاست کا آٹھواں عجوبہ کہا جائے گا۔انھیں وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے ۔
کجریوال عام آدمی پارٹی کے بانی ہیں اور انھوں نے سیاست میں ایمانداری کے نام پر سرکار بنائی ہے ۔ لیکن یہ کیسا المیہ ہے کہ اسی ایمانداری کی بخیہ ادھیڑنے کے الزام میں یکے بعد دیگرے ان کے لوگ سلاخوں کے پیچھے جارہے ہیں اور وہ خود بھی وہیں پہنچ گئے ہیں۔ دہلی کی نئی آب کاری پالیسی کی دلدل ایسی ہے جس میں ان کی پارٹی کے تمام بڑے لیڈر پھنس گئے ہیں۔ کجریوال نے اپنی ممکنہ گرفتاری کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا، لیکن انھیں وہاں بھی راحت نہیں ملی۔اس کے بعدشام کو ای ڈی کی ٹیم دسواں سمن لے کر ان کی سرکاری رہائش گاہ پہنچی۔ ان سے دوگھنٹے پوچھ تاچھ کی۔ ان کے گھر کی تلاشی لی گئی اور انھیں حراست میں لے لیا گیا۔عدالت نے کجریوال کوچھ دن کے لیے ای ڈی کی حراست میں دیا ہے ۔
آئیے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ آخر وہ تبدیل شدہ آبکاری پالیسی کیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی پر بدعنوانی کے ایسے سنگین الزامات لگے ہیں کہ اس کی ساری سیاسی کمائی مٹی میں جاتی ہوئی نظرآرہی ہے ۔ دراصل نومبر2021میں راجدھانی دہلی میں ایک نئی شراب پالیسی
متعارف کرائی گئی جس کے نتیجے میں یہاں جابجا شراب کی بڑی بڑی دکانیں کھل گئیں۔ حکومت پر الزام لگا کہ اس نے شراب کے تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان کا کمیشن بڑھایاجس سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا۔اس میں رشوت خوری کا بھی الزام عائد ہوا۔مجموعی طور پر دوسو کروڑ روپے کی ہیرا پھیری ہوئی اور یہ رقم عام آدمی پارٹی نے گووا کے اسمبلی انتخابات میں خرچ کی، جہاں اسے اقتدار میں آنے کی امید تھی۔دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ان سبھی الزامات اور شکایتوں کی جانچ کرائی اور اس میں مالی بے ضابطگیاں پائے جانے کے بعدسی بی آئی سے تحقیقات کی سفارش کی گئی۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں ملک گیر سطح پر کئی جگہ چھاپے مارے اور پندرہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔جن لوگوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا، ان میں بی آرایس لیڈر کویتا بھی شامل ہیں، جنھیں چند دن پہلے ہی گرفتار کیا گیا ہے ۔ اسی معاملے میں سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا اورممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ بھی جیل میں ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کجریوال کی گرفتاری کے بعد دہلی سرکار میں جو آئینی بحران پیدا ہوا ہے ، اس کا حل کیسے نکالا جائے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر