وجود

... loading ...

وجود
وجود

کھیل ،کھلاڑی اور اناڑی

پیر 25 مارچ 2024 کھیل ،کھلاڑی اور اناڑی

میری بات/روہیل اکبر
ملک میں جس طرح ہاکی ،فٹ بال ، اسکوائش ،بیڈ منٹن سمیت باقی کھیلوں کا خاتمہ ہوا،ویسے ہی ہماری پہلوانی بھی دم توڑتی جا رہی ہے اور اس کی جگہ بدمعاشی والی پہلوانی لے رہی ہے جو اسلحہ کے زور پر شروع ہوتی ہے اور موت کے منہ میں جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس بدمعاشی والی پہلوانی نے نہ صرف خاندانی دشمنیوں کو جنم دیا بلکہ کئی گھروں کے چشم و چراغ بھی گل کردیے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے امیر بالاج ٹیپو کا قتل اسی سلسلہ کا تسلسل ہے ۔یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم نے اپنے کھیلوں میں بھی سیاست کو گھسیڑ دیا ہے۔ سیاست تو ہماری برباد تھی ہی ساتھ میں ہم نے اپنے کھیلوں کو بھی تباہ کردیا۔کھیل اور کھلاڑی کا جو رشتہ تھا اس میں ہم نے اناڑی قسم کے لوگوں کو عہدے دیکر اپنے کھیلوں کو ختم کردیا جسکا نتیجہ آج ہم منشیات کی صورت میں بھگت رہے ہیں، جب ہمارے کھیل سیاست دانوں سے دور اور سیاست سے پاک ہوتے تھے، اس وقت کے ہمارے بنے ہوئے ریکارڈ آج بھی دنیا میں ناقابل تسخیر ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم ہاکی کی دنیا پر چھائے ہوئے تھے جبکہ ہاکی ورلڈ کپ کا تصور سب سے پہلے پاکستان کے ایئر مارشل نور خان نے دیا تھا۔ انہوں نے ورلڈ ہاکی میگزین کے پہلے ایڈیٹر پیٹرک رولی کے ذریعے ایف آئی ایچ کو اپنی تجویز پیش کی جسے 26 اکتوبر 1969 کو منظور کرلیا گیا اور پھر 12 اپریل 1970 کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں ایف آئی ایچ کونسل نے ہاکی ورلڈ کپ کاپہلا افتتاحی ورلڈ کپ اکتوبر 1971 میں پاکستان میں منعقد کروانے کا اعلان کیا لیکن بدقسمتی سے اسی دوران پاکستان کا ایک بازو کٹ کر بنگلہ دیش کی صورت میں الگ ہوگیا ۔سیاسی حالات خراب ہونے پر ہاکی کا پہلا ورلڈ کپ پاکستان سے بارسلونا اسپین کے ریئل کلب ڈی پولو گراؤنڈز میں منتقل کردیا گیا۔ یہ ٹورنامنٹ جو 1971 میں شروع ہوا تھا، ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے جس میں سمر اولمپکس کے درمیان چار سال کا وقفہ ہوتا ہے۔ ہاکی کے یہ ورلڈ کپ کے مقابلے پاکستان نے چار بار جیت کر ورلڈ چیمپئن کا تاج اپنے سر پہ سجایا جبکہ نیدرلینڈ، آسٹریلیا اور جرمنی نے تین تین ٹائٹل جیتے ہیں۔ بیلجیئم اور بھارت دونوں نے ایک بار ٹورنامنٹ جیتا ہے ۔2023 کا ٹورنامنٹ بھونیشوربھارت میں 13 سے 29 جنوری تک کھیلا گیا تھا جو جرمنی نے بیلجیئم کو پنالٹی شوٹ آؤٹ میں 5ـ4 سے شکست دے کر اپنا تیسرا ورلڈ کپ ٹائٹل جیتا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہاکی ورلڈ کپ کی ٹرافی بھی پاکستانی بشیراحمد نے ڈیزائن کی تھی جسے پاکستانی فوج نے بنایا تھا جسے27 مارچ 1971 کو، برسلز میں ٹرافی باضابطہ طور پر FIH کے صدر Rene Frank کو بیلجیئم میں پاکستانی سفیر مسٹر ایچ ای مسعود نے پیش کیا تھا ۔ یہ ٹرافی چاندی کے ایک کپ پر مشتمل ہے جس میں ایک پیچیدہ پھولوں کا ڈیزائن ہے جسے چاندی اور سونے میں دنیا کے ایک گلوب نے گھیر رکھا ہے جسے ہاتھی دانت سے جڑی ہوئی ایک اونچی بلیڈ کی بنیاد پر رکھا گیا ہے جسکے اوپرایک ماڈل ہاکی اسٹک اور گیند ہے ۔ہمارا ہاکی کا بنا ہوا ریکارڈ آج تک دنیا توڑ نہیں سکی لیکن اپنی ہاکی کو ہم نے خود ہی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ اس وقت بھی ہماری ہاکی فیڈریشن دو حصوں میںتقسیم ہے۔ ایک کے صدر طارق بگٹی ہیں جو وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بھائی ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی صدر پیپلز پارٹی کی جیالی شہلا رضا ہیں۔ ہماری ہاکی تو پہلے ہی ختم ہے ۔رہی سہی کسر ان دونوں گروپوں نے پوری کررکھی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے کھلاڑی سو رہے ہیں۔
اسی طرح اسکوائش میں ہمارے بنائے ہوئے ریکاڑ آج تک کوئی توڑ نہیںپایا۔ جہانگیر خان نے چھ بار ورلڈ اوپن ٹائٹل جیتاجبکہ برٹش اوپن ٹائٹل دس بار (1982–1991)مسلسل جیت کر ورلڈ ریکارڈ کے طور پر اپنے نام کیا۔ انہوں نے لگاتار 555 میچ جیتے جو گنیزبک آف ورلڈ ریکارڈکا شاندار باب ہے۔ انکے بعد جان شیر خان عالمی نمبر 1 بن گئے جنہوں نے آٹھ بار ورلڈ اوپن اور چھ بار برٹش اوپن ٹائٹل جیتالیکن اس کھیل میں بھی سیاست آئی تو یہ بھی ختم ہوگیا۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی ہم عمران خان کی کپتانی میں اس لیے جیت گئے تھے کہ اس وقت اس کھیل میں بھی سیاست نہیں تھی۔ اسی طرح پہلوانی جسے کشتی بھی کہا جاتا ہے، اس کھیل میں بھی ہم نے حکمرانی کی عظیم گاما (غلام محمد بخش بٹ) پہلوان جو رستم زماں رہے جھارا پہلوان رستم ہندرہے اور بشیر عرف بھولا بھالا رستم پاکستان جیسے پہلوان آج بھی ہماری نوجوان نسل کو فن پہلوانی سکھانے میں مصروف ہیں۔ اسی کھیل سے ریسلنگ کا آغاز ہوا مگر بدقسمتی سے ہم رستم زماں،رستم ہند جیسے ٹائٹل رکھنے کے باوجود اپنے اس پہلوانی کے کھیل میں بھی ہم بہت پیچھے چلے گئے ۔اس کھیل میں سیاست تو نہیںآئی لیکن ہمارے سیاست دانوں کی لاپروائی نے اس کھیل کو ختم کردیا جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر بدمعاشی والی پہلوانی کو فروغ دیا۔ اسلحہ کے زور پر قتل وغارت کا ایسا کھیل شروع ہوا جو ابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ جبکہ ہمارے اصل پہلوان وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اس کھیل سے دور ہیں۔ ہماری حکومتوں کی ان پر توجہ نہیں ہے۔ پاکستان ا سپورٹس بورڈ میںکھلاڑیوں کے نام پر جو تھوڑے بہت پیسے آتے ہیں انکی بھی بندر بانٹ ہو جاتی ہے جو خوراک ایک کھلاڑی کو ملنی چاہیے وہ نہیںملتی، پیسے نہیں ملتے ،پاکستان اسپورٹس بورڈ میںتعیناتیاں سفارش پر ہو رہی ہیں جوکھلاڑیوں کی نوکری کرنے کی بجائے اپنے آقائوں کی غلامی کر رہے ہیں۔ کھلاڑیوں کے نام پر آنے والا راشن کہیں اور چلا جاتا ہے۔ ہوسٹل کے کمروں سے بو آرہی ہوتی ہے اور تو اور جو کوچ رکھے ہوئے ہیں انکا معاوضہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔اسی طرح ہمارا پنجاب ا سپورٹس بورڈ ہے جو صوبائی سطح پر کام کرتا ہے۔ اسکا کام پاکستان اسپورٹس بورڈ سے قدرے بہتر ہے لیکن پھر بھی اتنا تسلی بخش نہیں ہے کہ جس سے ہم سمجھیں کہ پاکستان ان کی وجہ سے ملک میںکھیلوں کی ترقی ہورہی ہے۔
چند دن پہلے ریڈیو ایف ایم 95پنجاب رنگ پر میرے پروگرام رائونڈ دی گرائونڈ میں پاکستان میں پہلوانی کے کوچ فرید احمد پاکستان کے دو مایہ ناز پہلوان گلزار گلو اور رضا بٹ تشریف لائے جنہوں نے اس کھیل میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔ خاص طور پرپہلوانی کے اس کھیل میں آنے والوں کی خوراک کے حوالے سے جو کچھ بتایا وہ اتنا مہنگا کام ہے کہ ایک عام گھرانے کا بچہ پہلوان بننے کا صرف سوچ سکتا ہے بن نہیںسکتا ۔اس لیے ہماری حکومتوں کو چاہیے کہ کم از کم کھیلوں کو سیاست سے پاک کرکے نام ور کھلاڑیوں کو مختلف فیڈریشنز میں لایا جائے جو ماضی میں پاکستان کی پہچان رہے ہوں جن کے سینے پر تمغے ہو اور جن کے دماغ میں پاکستان کی سربلندی ہو تاکہ ہم ایک بار پھردنیا کو بتا سکیں کہ ہم سے کوئی بڑھ کر ہے تو سامنے آئے۔ اگر ہم نے ہر کھیل کو سیاسی بنادیا تو پھر وہی ہوگا جو اب ہونا شروع ہوچکا ہے کہ کھلاڑی باہر جاتے توہیں کھیلنے لیکن جیسے ہی انہیںموقع ملتا ہے فرار ہوجاتے ہیں بلکہ ایک بار تو ہماری پوری کی پوری ٹیم ہی غائب ہوگئی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر