وجود

... loading ...

وجود
وجود

١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

هفته 23 مارچ 2024 ١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر
(گزشتہ سے پیوستہ)
کوئی نظریہ جس کو کسی ملک میں راسخ کیا جانا مقصود ہو اس کے لیے مقتدرہ ابلاغ کے تمام تر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک بیانیہ تشکیل دیتی ہے۔ ریاست کے دیگر ادارے مقتدرہ کا ساتھ دینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں ۔اس کے متوازی وہ قوت اور توانائی بھی ہوتی ہے جس کا اظہار انکار، مزاحمت ،بغاوت اور بسا اوقات مقتدرہ کی نظر میں غداری قرار پاتاہے ۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اور سرکارکا منظور شدہ نصا ب جو بیانیہ تشکیل دیتے ہیں اس کی نوعیت یک طرفہ ہوتی ہے۔سچائی تک پہنچنے کے لیے دوسرے کا نکتہ نظر ، تاریخ اور حالات ِ حاضرہ کے تناظر میںدیگر سماجی معاملات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے ہی ممکن ہے اور اس کے لیے بنیادی اہلیت و قابلیت اخلاص اور غیر جانب داری ہے۔سربراہان مملکت وہ؛ جو کام کرنا چاہتے ہیں ان کی تقریریں ،انٹرویو اور رہن سہن اور سربراہان ِ مملکت وہ ؛جو حکومت کرنا چاہتے ہیں ان کی تقریریں ،انٹرویو اور رہن سہن زمین و آسمان کا فرق رکھتے ہیں ۔
گولڈا میئر ،اسرائیل کی یہ سابقہ وزیر اعظم گھر میںصبح سے شام تک کی ایک خادمہ رکھتی تھی اور اگر مہمان رات کے کھانے پر مدعو ہوں تو رات کو میز صاف کرکے ،کھانے کے برتن دھوکر اور باورچی خانہ خود صاف کرکے سوتی تھی ۔اس تمہید کے بعد آتے ہیں گولڈا میئر کے انٹرویو کی طرف جو اسرائیل فلسطین موجودہ صورتِ حال میں سچائی تک پہنچنے کی راہ سوجھانے میں روشنی فراہم کرتاہے۔ اوریانا فلاشی کے سوالات سے لگتاہے کہ جیسے وہ فلسطینی مسلمانو ںکا مقدمہ اسرائیل کی وزیرِ اعظم سے لڑ رہی ہو ۔
گزشتہ کالم میں گولڈا میئر کی بات اس نکتے پر ختم ہوئی تھی کہ :” اقلیت کے لیے مختص علاقوں میں معاشی مجبوریوںکے ساتھ محصور ،سزا یافتہ ، تباہ حال اور پھر بھی وہ جیتے رہے اور انہوں نے ایک ہوکر رہنا نہیں چھوڑا اور پھر وہ دوبارہ اکٹھے ہوئے ،دوبارہ ایک قوم بننے کے لیے…
اوریانا: لیکن یہی تو ہے جو فلسطینی چاہتے ہیں مسز میئر ، وہ ایک قوم بننا چاہتے ہیں،اور اسی لیے کچھ لوگ رائے دیتے ہیں کہ ان کی ریاست مغربی کنارے پر ہونی چاہئے۔
گولڈا؛ دیکھو ، میں پہلے ہی وضاحت کرچکی ہوںکہ اردن کے مشرق اور مغرب میں تمہیں ایک ہی لوگ ملیں گے،اور میں اس کی وضاحت بھی کرچکی ہوں کہ وہ پہلے فلسطینی کہلاتے تھے اور بعد میں اردنی کہلائے جانے لگے ۔اگر وہ اب فلسطینی یا اردنی جو بھی کہلوانا چاہتے ہیں مجھے اس کی ذرہ بھر پرواہ نہیں ہے۔یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل اور اس خطے کو جو آج کل اردن کہلاتاہے ،کے درمیان ایک نئی عرب ریاست تشکیل نہ دے سکیں۔ بحیرئہ روم اور عراق کی سرحدوں کے درمیانی زمینی ٹکڑے پر بس دو ہی ملکوں کی جگہ ہے ایک عرب اور ایک جیوش۔ اگر ہم حسین کے ساتھ امن کا معاہدہ دستخط کرتے ہیں اور اردن کے ساتھ سرحدوں کا تعین کرتے ہیں تو پھر اس سرحد کے اس پار جو بھی ہو اس سے اسرائیل کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔
فلسطینی ، حسین کے ساتھ جیسا بھی چاہیں معاملہ طے کرلیں،وہ اس ریاست کو جو چاہیں بلاسکتے ہیں،اور جیسا چاہتے ہیں ویسا نظام قائم کرلیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہمارے اور اردن کے بیچ ایک تیسری ریاست معرضِ وجود میں نہ آئے ۔ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں۔ہم اس کے لیے اجازت نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ ہمارے خلاف ایک خنجر کی طرح استعمال کیاجاسکتاہے۔
اوریانا: مسز میئر ،میں ایک اور موضوع کو بات چیت کے لیے چننا چاہتی ہوںاور وہ یہ ہے کہ جب کوئی ایک خواب دیکھتاہے اور اسے تخیل سے سجاتا رہتاہے اور پھر جب وہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوجاتاہے تو خواب دیکھنے والے کو ادراک ہوتاہے کہ تخیل آخر تخیل ہی ہوتاہے ۔ کیا آپ اسرائیل سے مطمئن ہیں آج وہ جیساہے؟
گولڈا: میں ایک بے تکلف عورت ہوں ۔ میں تمہیں بے تکلفی سے ہی جواب دوں گی ۔ ایک سوشلسٹ ہونے کے ناطے میں مطمئن نہیں ہوں۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اسرائیل میرے خوابوں جیسا ہے ۔ میں ایک ایسی یہودی سوشلسٹ ہوں جس نے ہمیشہ اپنی سوشلزم میں یہودی عنصر کی موجودگی پر بھر پور زور دیا ہے تو ،اسرائیل اس سے کہیں اچھا ہے جیسا میں نے خواب دیکھا تھا۔ اب میں اس کی وضاحت کرتی ہوں۔ صیہونیت کا ادراک میرے لیے سوشلزم کالازمی جزو ہے۔ میں جانتی ہوں کہ دوسرے سوشلسٹ میرے ساتھ اتفاق نہیں کریں گے مگر میں اس بارے میں ایسے ہی سوچتی ہوں۔ میں اس بارے میں معروضیت پسند نہیں ہوں، اور میرا ماننا ہے کہ اس دنیا میں کئی گروہوں کی طرف سے حقوق کی پامالی اور نا انصافی کا بازار گرم ہے،کوئی کالے افریقیوں کو دبانے میں مصروف ہے تو کوئی یہودیوں کو گرانے کا دل دادہ ہے ، اور اس کے علاوہ میرے خیال میں ان دونوں ناانصافیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے سوشلسٹ قوانین اور قاعدے بہترین لائحہ عمل ہیں۔ میری زندگی کا مقصد یہودیوں کے حقوق کا تحفظ ہی رہاہے اور مختصراََ یہ کہ چالیس یا پچاس سال قبل مجھے ذرہ بھر بھی امید نہیں تھی کہ یہودی ایک خود مختار ریاست حاصل کرپائیں گے ۔ مگر اب ہمارے پاس ہے سو مجھے نہیں لگتاکہ اب میرا اس ریاست کی کجیوں اور خامیوں پر کڑھنا مناسب بات ہے ۔ اب ہمارے پاس اپنی مٹی ، اپنا وطن جہاں ہم بے دھڑک رہ سکتے ہیں ،قدم جما سکتے ہیں اور جہاں ہم اپنے پسندیدہ سوشلسٹ نظریات کا احاطہ کرسکتے ہیں جو اس سے پہلے فقط ہوا میں جھول رہے تھے۔
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد ،سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر