وجود

... loading ...

وجود
وجود

١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

جمعه 22 مارچ 2024 ١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

(گزشتہ سے پیوستہ)
اوریانا: لیکن فلسطینیوں کا معاملہ ذرا الگ ہے مسز میئر ،کیوں کہ …
گولڈا: ہاں یقینا یہ ہے ۔ کیاتم جانتی ہو کہ کیوں؟کیوں کہ جب جنگ چھڑتی ہے تو لوگ بھاگتے ہیںاور عموماََ وہ ایسے ممالک کو بھاگتے ہیں جہاں کی زبان اور مذہب ان سے مختلف ہوتاہے ۔ لیکن اس کے برعکس فلسطینی ایسے ممالک کی طرف بھاگے جہاں پر ان ہی کی زبان بولی جاتی تھی اور مذہب بھی وہی تھا۔ وہ بھاگ کر شام ،اردن اور لبنان گئے ، جہاں کسی نے بھی ان کی مدد نہیں کی تھی ۔ جیسے کہ مصری ،جنہوں نے غازہ کو اچک لیاتھا،انہوں نے بھی فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کی ۔انہیں نوکری کرنے کی اجازت نہ دی بلکہ انہیں حالت ِ غربت میں رکھا تاکہ وہ انہیں جنگ میں ہمارے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکیں۔ یہ ہمیشہ سے عرب ممالک کی حکمت ِ عملی رہی ہے، مہاجرین کو ہمارے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا۔Hammarsk Jold نے مڈل ایسٹ کے لیے ایک تعمیری منصوبہ پیش کیاہے اس اس منصوبے میں سب سے پہلے مہاجرین کے لیے نو آبادیت کے مسئلے کا حل موجود ہے لیکن عرب ممالک نے اس کے لیے بھی انکار کردیا۔
اوریانا: مسز میئر ،کیا آپ ان کے لیے ذرہ بھر بھی ہمدردی محسوس نہیں کرتی ہیں؟
گولڈا: یقینا میں کرتی ہوں۔ لیکن رحم دلی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔بلکہ یہ ذمہ داری عربوں کی ہے۔ہم اسرائیل کے اندر عرب سے آنے والے تقریباََ چودہ لاکھ یہودی جذب کرچکے ہیں۔ عراق سے ، یمن سے ، مصرسے ، شام سے ،شمالی افریقی ممالک جیسے مراکو سے، وہ لوگ جب یہاں لائے گئے تو وہ بیماریوں سے لدے ہوئے تھے اور کوئی نہیں جانتاتھا کہ کیا کیا جائے۔ بشمول ان ستر ہزار یہودیوں کے جو یمن سے آئے تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ڈاکٹر یا نرس نہیں تھاجب کہ تقریباََ سبھی کے سبھی ٹی بی کے مرض میں مبتلاتھے۔ اس کے باوجود ہم نے انہیں قبول کیااور ان کے لیے ہسپتال قائم کیے ،ان کی نگہداشت کی اور انہیں تعلیم دے کر کسان ، ڈاکٹر ،انجینئر اور استاد بنایا…بشمول ان ڈیڑھ لاکھ یہودیوں کے جو عراق سے یہاں پہنچے تھے اور ان میں سے بعض مٹھی بھر لوگ ہی پڑھے لکھے تھے لیکن اس کے باوجود آج ان کے بچے جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔ بے شک ہم ان کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں،ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ۔لیکن پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ہم نے انہیں سنبھالا اور ان کی مدد کی ۔ اس کے برعکس عربی اپنے ہی لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتے ہیں۔ وہ بس ان کا استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔
اوریانا: مسز میئر ، کیساہو اگر اسرائیل فلسطینی مہاجرین کو یہاں واپس آنے دے؟
گولڈامیئر: ناممکن ۔۔۔بیس سال سے ان کے اندر ہمارے لیے نفرت کا بیج بویا جارہاہے ،وہ ہمارے بیچ واپس نہیں آسکتے ۔ ان کے بچے یہاں پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ کیمپوں میں پیدا ہوئے ہیںاور انہیں بس ایک ہی سبق سکھایاگیاہے کہ اسرائیلی کو قتل کرو اور اسرائیل کو تباہ کردو۔ ہم نے ریاضی کی کچھ کتب حاصل کی ہیں جو غازہ کے اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیںاور ان میں کچھ اس طرح کے سوالات شامل ہیں:”تمہارے پاس پانچ اسرائیلی ہیں،تم ان میں سے تین کو قتل کر دیتے ہو،کتنے قتل ہونے والے اسرائیلی باقی بچتے ہیں؟ جب آپ سات یا آٹھ سال کے بچے کو ایسی تعلیم دیتے ہیں تو پھر امید کی کوئی کرن نہیں بچتی ۔ اوہ ! یہ تو ایک بڑی بد قسمتی کی بات ہے اگر ان کو یہاں واپس لانے کے علاوہ کوئی بھی اور حل نظر نہ آئے !لیکن ایک حل ہے۔ اس کا مظاہرہ اردن کے لوگوں نے کرکے دکھایاتھاجب انہیں شہریت عطا کرکے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے لیے ایک ملک بنائیںجس کا نام اردن ہو۔ ہاں ، عبداللہ اور حسین نے جو کچھ کیا وہ کئی درجے بہتر ہے جو مصریوں نے کیا۔ لیکن کیا تم جانتی ہو کہ اردن کے بھلے وقتوں میں فلسطینیوں نے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ جیسے عہدے سنبھال رکھے تھے؟ کیا تم جانتی ہو کہ 1922کی اردن کی تقسیم کے موقع پر اردن میں فقط تین لاکھ Bedouinsمقیم تھے جب کہ فلسطینی مہاجر اکثریت میں تھے ؟ کیوں کے وہ اردن کو اپنے ملک کے طور پر قبول نہیں کرتے تھے ،کیوں …؟
اوریانا: کیوں کہ وہ اپنی شناخت اردنی نہیں چاہتے مسز میئر ۔ کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ فلسطینی ہیں اور ان کا گھر فلسطین ہے نا کہ اردن ۔
گولڈا : پھر ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ لفظ فلسطین سے ہمارا مطلب کیاہے ۔ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ جب فلسطین پر ہماری عارضی اجارہ داری اور حکومت تھی تو اس وقت فلسطین ایک زمین کے ٹکڑے کا نام تھاجو بحیرئہ روم اور عراق کی سرحد کے درمیان میں واقع تھا۔ اردن کے دونوں کنارے اس فلسطین میں شامل تھے اور یہ بھی انگلینڈ کی طرف سے مقرر کردہ ہائی کمشنر کے ماتحت تھا۔ تب 1922میں چرچل نے اسے تقسیم کردیااور اردن کے مغر ب کا علاقہ Cisjordaniaکہلانے لگا جب کہ مشرقی علاقہ Transjordaniaکہلانے لگا۔ ایک ہی نسل کے لوگوں کے دو نام ہوگئے ۔ عبداللہ اور حسین کے باپ دادا Transjordaniaکے مالک تھے اور بعد میں انہوں نے Cisjordaniaبھی حاصل کرلیا۔ لیکن میں پھر بھی دہراتی ہوں کہ وہ سارے ایک ہی نسل کے لوگ تھے ۔ایک ہی وہی فلسطین تھا۔ اسرائیل کو تباہ کرنے سے پہلے عرفات کو چاہیے کہ وہ حسین کو تباہ کرے ۔لیکن عرفات بہت جاہل ہے ۔وہ اتنا بھی نہیں جانتاہے کہ پہلی جنگ ِ عظیم کے خاتمے پر وہ علاقہ فلسطین نہیں کہلاتاتھا جو آج کل اسرائیل ہے ،اسے جنوبی شام کہہ کر پکارا جاتا تھا…چلو خیر ! اگر ہمیں مہاجرین کے موضوع پر ہی بات کرنی ہے تو میں تمہیں یاد دلادوں کہ صدیوں تک یہودی اسی طرح مہاجر بنے رہے ،مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے ،جہاں ان کی زبان نہیں بولی جاتی تھی ،جہاں ان کے مذہب کے پیروکار نہیں تھے اور جہاں ان کی روایات کو پہچاننے والا کوئی نہیں تھا… روس ، یوگو سلاویہ ، پولینڈ، جرمنی ، فرانس، اٹلی ، انگلینڈ، عریبیہ ، افریقہ … اقلیت کے لیے مختص علاقوں میں معاشی مجبوریوںکے ساتھ محصور ، سزا یافتہ ، تباہ حال اور پھر بھی وہ جیتے رہے اور انہوں نے ایک ہوکر رہنا نہیں چھوڑا اور پھر وہ دوبارہ اکھٹے ہوئے ،دوبارہ ایک قوم بننے کے لیے…
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر