وجود

... loading ...

وجود
وجود

اعتمادواعتبار

جمعه 22 مارچ 2024 اعتمادواعتبار

سمیع اللہ ملک
مجھے اس بات کاشدت سے احساس ہے کہ ہم پچھلی سات دہائیوں سے ایک ایسی شکستہ کشی کے سوارہیں جن کے پتوارہمیشہ سے اناڑی ملاحوں کے ہاتھ میں رہے ہیں اوروہ کشتی کو کنارے پرلگانے کی بجائے خطرناک طوفانوں کے لرزہ خیزبھنورمیں پھنساکرخودراہِ فراراختیارکرلیتے ہیں اورمسافر(قوم)ان دھوکہ بازوں سے جاں بخشی کیلئے سجدوں میں مناجات میں تومصروف رہتی ہے لیکن آگے بڑھ کران کے ہاتھوں سے پتوارچھین کراس کشتی کارخ کنارے کی طرف موڑنے کی کوئی کوشش نہیں کرتی۔ان حالات میں بڑے سوزوگداز اور چیخ وپکارکے ساتھ پچھلی کئی دہائیوں سے ہرروزاپنے کالمزمیں پوری قوت کے ساتھ ڈھول پیٹ کرسوئی ہوئی قوم کوجگانے کی کوشش کررہاہوں لیکن بعض اوقات محسوس ہوتاہے کہ یہ قوم سونے کی ایکٹنگ کر رہی ہے جس کوجگانے کیلئے اب اسرافیل کے صورکی ضرورت ہے۔
دو برس قبل لندن میں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے تیسری دنیاکے ذمے بے تحاشہ واجب الاداقرضوں کی ادائیگی کی مشکلات کے بارے میں ایک سیمینارمنعقدکیاگیاجس میں تیسری دنیاکے29ممالک اورترقی پزیرملکوں کے پانچ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی،مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ بتاناپڑرہاہے کہ اس اجلاس میں ہمارے مقتدرحلقوں کی لاپرواہی کایہ عالم تھاکہ کوئی ایک بھی نمائندہ اس میں شامل نہیں ہوا۔اس اجلاس کالب لباب ایک فقرے میں بتاناچاہتاہوں کہ مجھے خودآئی ایم ایف کے نمائندے نے شکایتی اندازمیں یہ کہاکہ آپ کی حکومت کوکس نے روکاہے کہ وہ اس معاہدے کوقوم کے سامنے لے آئے جس پرعمران خان کی حکومت نے جن شرائط پردستخط کئے تھے لیکن اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کراس نے اس معاہدے کے پرزے کردیے۔آپ اگرتحریری معاہدوں کایہ حال کرتے ہیں توپھرہم آپ پردوبارہ اعتمادکیوں کریں۔ پاکستان کوئی عام ملک نہیں بلکہ ایک نیوکلیرطاقت کاحامل ملک ہے اورکیادیوالیہ ہونے کی صورت میں عالمی پابندیوں کابوجھ اٹھاسکے گاجبکہ آپ کے ملک کے پچاس فیصداثاثے توہمارے ہاں گروی پڑے ہوئے ہیں۔آپ ہماری ویب سائٹ پرجاکران تمام معاہدوں کی تفصیلات کیوں نہیں پڑھتے جہاں ہم نے ان تمام شرائط پرآپ کے حکمرانوں کے دستخط شائع کررکھے ہیں۔ یقین کریں کہ اس کی یہ گفتگوسن کرمجھ پرگھڑوں پانی پڑگیااورمیں اب تک ندامت کے بحرقلزم میں غوطے کھارہاہوں۔خدارا،اب بھی وقت ہے کہ چہرے نہیں،نظام بدلیں۔نئے اورپرانے پاکستان کے نعرے لگانے والے چہروں نے ہمیں بربادکرکے رکھ دیاہے اور اب ایک مرتبہ پھرڈوبتی کشتی کے پتوارانہی کے ہاتھوں میں تھمادیے ہیں۔
جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیرہوئی۔عوام کے سامنے اپنے تمام عیوب، ناکامیاں گزشتہ حکومت پرڈال کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی۔صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،عوام کے علم میں سب کچھ ہے،اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کودئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔انسان کے جذبات ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی توسوچیں کہ ان کے دردکے فاصلوں کو کیسے کم کرناہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل و دماغ کے درمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنانہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں ۔ اب اس بیمارسوچ کوذہن سے کھرچ کر نکالنا ہوگا کہ ان دونوں کی لڑائی میں ہمارافائدہ ہے۔سیلاب اورزلزلہ جھونپڑی اورمحلات میں کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔سرکارکادعوی ہے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ سے بچالیاہے۔اگریہ واقعی پاکستان پہلے سے بہترہوگیا ہے ،لوگ توتب مانیں گے۔
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحراتھاسمندرہوگیاہوں
صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتاجس کی مرہون منت آنکھیں امیدسے”تربتر”رہتی ہیں۔ امید کسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے بصورت دیگر انجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔امیدکو بارودکے ساتھ ساتھ ”نمرود” سے بھی بچاناہوتاہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتا ہے۔ امید ٹوٹ گئی توسمجھوکہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب میڈیاپراس طرح فتح کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں جیساکہ جلدہی شہداوردودھ کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سننے کومل رہاہے کہ ملکی معیشت کے لئے سخت فیصلے کرنے پڑے ہیں۔اوپرتبدیلی آگئی ہے مگرنیچے اسی طرح کے سخت فیصلے ہوں گے؟گستاخی معاف!اس کا مطلب تویہ ہواکہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔اپنے اداروں کی توقیر کا خیال نہ کیاتوکل کلاں خودبھی بے آبروہونے میں دیرنہیں لگے گی۔
جب کبھی اسلامی معیشت کانام لیاجائے توچاروں طرف سے خودساختہ معاشی ماہرین کی طرف سے غریبوں کی فلاح وبہبود کیلئے سیون اسٹار ہوٹلزمیں پھولوں سے سجی میزوں پرمنرل واٹراورقیمتی کھانوں کے بے تحاشہ اخراجات کے بعد پروگرامزکی ایک لمبی فہرست ترتیب دی جاتی ہے جس میں ایسے پلان شامل کردیئے جاتے ہیں جن سے اہل اقتدارکیلئے لوٹ مارکاایک لامتناہی سلسلہ مستورہوتاہے جبکہ حقیقتاً اسلامی معیشت کاخلاصہ تین مختصرفقروں میں بیان کیاجاسکتاہے اوراس پراگرنیک نیتی سے عملدرآمدکیاجائے تواس کے بہترین نتائج سے ملک وملت کی تقدیربدلی جاسکتی ہے۔
اسلامی معیشت کاسب سے پہلااصول یہ ہے کہ ملک کاسب سے بڑھیاآدمی معاشی اعتبارسے سب سے گھٹیازندگی گزارے جیسے کہ خلفائے راشدین عملًاایساکرتے تھے۔ حضرت عمر کے دورمیں مدینہ منورہ میں مفلسین مساکین کی ایک فہرست تیارکی گئی اوران کی درجہ بندی کی گئی۔جب فہرست تیارہوگئی توسب سے پہلے نمبرپرجونام آیاجوسب سے زیادہ مفلس تھا،وہ خودخلیفہ وقت حضرت عمرکانام تھا۔اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ عوام اپنے بڑوں کودیکھ کران کے طرززندگی کواپنانے کی کوشش کرتے ہیں اوران سے برابری کی کوشش کرتے ہیں کیوںکہ وہ اسی کومعیاربناتے ہیں جس سے عوام میں حرص اورلالچ بڑھتی ہے۔پیسہ جمع کرنے کی ہوس بڑھتی ہے جس کے نتیجے میں حلال وحرام جائزناجائزکی تمیزختم ہو جاتی ہے اورمعاشرے میں جھوٹ،فراڈ،رشوت،سود خوری،ذخیرہ اندوزی وغیرہ وغیرہ ساری مصیبتیں درآتی ہیں اورجب سب سے بڑھیالوگ یعنی حکمران وغیرہ سب سے نیچے والامعیارزندگی اپنائیں گے توپھرکسی بھی شخص غربت افلاس وغیرہ پر کوئی شرمندگی اوراحساس محرومی نہیں ہوتا۔
دوسرا اصول اسلامی معیشت کایہ ہے کہ دولت کوبالکل بھی کسی بھی طرح جمنے نہ دیاجائے کہ وہ کسی ایک جگہ پرجم کررہ جائے بلکہ اس کو توڑتے رہیں تاکہ ملکی دولت پرچنداشخاص کا قبضہ نہ رہے۔لہذاسب سے پہلے موجودہ بنک کے سودی نظام کو ختم کرناہوگا۔اس کافائدہ یہ ہو گا کہ لوگ بینکوں میں پڑاساراپیسہ باہرنکال کرمارکیٹ میں لائیں گے کاروبارکریں گے،کارخانے لگائیں گے جس سے ایک توبیروزگاری ختم ہوگی دوسری طرف مقابلے کی فضاقائم ہوگی جس سے ہرکوئی اپنی چیزبہترسے بہتراورسستی سے سستی بنانے کی کوشش کرے گااوراس سے عالمی سطح پرملکی پیداوارسب سے سستی بھی ہوگی اورمعیاری بھی۔۔یہ دوکام حکومت اورحکمران طبقہ کے کرنے کے ہیں۔
تیسرااصول اسلامی معیشت کایہ ہے کہ ضرورت سے زائد چیزیں پیسہ اپنے پاس نہ رکھاجائے بلکہ اسے اللہ تعالی کی راہ میں اس کی مخلوق پر خرچ کرتے رہیں،اپنے رشتہ داروں ماتحتوں نوکروں پڑوسیوں پرخرچ کریں جس کے نتیجے میں وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ آپ کے کام کاروبارمیں مددبھی کریں گے اوراس کے بڑھنے کی تمنابھی کریں گے اور دعائیں بھی دیں گے۔بجائے اس کے کہ وہ غربا اورمساکین سے آپ سے حسد کریں اورنقصان پہنچانے کی کوشش کریں،چوری کریں،ڈاکہ ڈالیں اور رہزنی کرکے نقصان پہنچائیں ۔بس یہی اسلامی معیشت ہے اوراس کیلئے ضروری ہے کہ آپ کاموجودہ نظام مکمل طورپربدلاجائے۔۔آج معاشی اوراقتصادی بدحالی اورسیاسی ابتری کی وجہ صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ہم خودبھی ہیں جوان کوبابارآزمانے کے باوجودان پراعتبارکرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر