وجود

... loading ...

وجود
وجود

١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

جمعرات 21 مارچ 2024 ١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

(گزشتہ سے پیوستہ)
تاریخ وقت کے تسلسل کا نام ہے ۔ وہ اندرا گاندھی کا انٹرویو ہو یاذوالفقار علی بھٹو کا ،گولڈامیئر کاہو یا یاسر عرفات کا ؛ ماضی حال سے اور حال مستقبل سے ایسے مربوط ہے کہ حال کی تفہیم ا ور مستقبل کی پیش بینی ماضی کی آگہی کے بغیرنا ممکنات میں سے ہے۔ آج ملک کے جو حالات ہیں اور فلسطین اسرائیل تنازع کا جو عالمی منظر نامہ ہے ،یہ انٹرویو بجا طور پر اپنے عہد کی وہی ”صحافتی تاریخ”ہے۔
گولڈا میئر اسرائیل کی وزیر اعظم جس کا انٹرویو اوریانا نے یروشلم میں نومبر 1972میں لیا۔ میری عادت ہے کہ میں کتاب پڑھتے ہوئے پنسل ہاتھ میں رکھتی ہوں۔ اس تحریر میں وہی خط کشیدہ جملے سپردِ اِن پیج کررہی ہوںلہٰذا اس کو لکھتے وقت رموز و اوقاف (پنکچوئیشن) کی زیادہ ضرورت پیش آئی ۔
گولڈا میئر: جنگ فقط ایک انتہائی جہالت ہے ۔ میں امید کرتی ہوں کہ ایک دن آئے گاجب تمام جنگیں ختم ہوجائیںگی۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن آئے گا جب بچے اسکول میں ان انسانوں کی تاریخ پڑھیں گے جو جنگیں لڑتے تھے تووہ بچے اس تاریخ کو بالکل اسی حیرانی سے پڑھیں گے جیسے آج کل کے بچے نامعقولیت کے ڈرامے پڑھتے ہیں۔ وہ ششدر رہ جائیں گے ،وہ سخت حیران ہوں گے بالکل اسی طرح جیسے آج ہم آدم خوری کے بارے میں پڑھ کر حیران ہوتے ہیں۔ جب کہ آدم خوری بھی لمبے عرصے تک عام اور ٹھیک چیز کے طور پر قبول کی جاتی رہی ہے۔ لیکن دورِ حاضرمیں کم از کم ظاہری طور پر اس کا کوئی تصور نہیں پایاجاتا۔ ۔۔۔۔۔
میں ہر سو فقط آمرانہ ریاستیں ہی دیکھ پاتی ہوں اور ایک آمر حکمران اپنے لوگوں کو امن کی نوید نہیں سنا سکتاجس کے لیے وہ کاوش بھی نہیں کرتا۔ اس کا حتیٰ کہ لاشوں کے موضوع پر بھی محاسبہ نہیں کیا جاسکتا۔ کون ہے جس نے کبھی یہ جاننے کی کوشش یا خواہش کی ہو کہ پچھلی دو جنگوں میں کتنے مصری فوجی مارے گئے ؟ صرف ان مائوں ،بہنوں ، بیویوں اور عزہ داروں نے جو اپنے پیاروں کو دوبارہ نہ دیکھ سکے ۔ ان کے قائدین کو تو اس بات سے بھی سروکار نہیں ہے کہ وہ کہاں دفن کیے گئے ،اگر کیے بھی گئے ہو ں ۔ جب کہ ہم …
اوریانا: جب کہ آپ ؟…
گولڈا: ان پانچ البموں کو دیکھو۔ اس میں ہر اس عورت اور مرد سپاہی کی تصویر اور حالات ِ زندگی درج ہے جو جنگ میں مارے گئے ۔ ہمارے لیے ہر موت ایک سانحہ ہے۔ ہم جنگ کرنا پسند نہیں کرتے حتیٰ کہ تب بھی جب ہم اسے جیت جاتے ہیں۔ اس پچھلی جنگ کے بعد ہماری گلیوں میں کبھی شادیانے نہیں بجائے گئے۔ ۔۔۔۔۔
گولڈا: کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہاباش نے اس وقت کیا کہاتھا جب اس نے اسرائیلی بچوں سے بھری ہوئی ایک بس کو دھماکے سے اُڑا دیاتھا؟ ”کسی اسرائیلی کو تب ہی مار دینا بہتر ہے جب وہ ایک بچہ ہو۔” ۔۔۔۔۔
شاید کسی بھی دوسری عرب ریاست کے مقابلے میں لبنان دہشت گردوں کی زیادہ مہمان نوازی کر رہاہے۔ ۔۔۔۔۔لیکن ہاباش، عرفات اور بلیک ستمبر کو کہنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے ۔ وہ لوگ جن سے بات چیت ہوسکتی ہے وہ کوئی اور لوگ ہونے چاہئیں۔ ۔۔۔۔۔
اوریانا: آپ جرمنوں کے ساتھ بہت تند مزاج ہوگئی تھیں جب انہوں نے تین عربیو ں کو رہاکیاتھا۔
گولڈا: اوہ !تمہیں چاہیے کہ تم سمجھنے کی کوشش کرو کہ میونخ سانحہ ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتاہے اور یہ حقیقت کہ وہ جرمنی میں پیش آیا…میرا مطلب ہے کہ جنگ کے بعد والا جرمنی فاشسٹ جرمنی نہیں ہے۔ میں وِلی برینڈٹ کو خوب جانتی ہوں،میں اکثر اسے سوشلسٹ اجتماعوں میں ملتی ہوں۔ ایک دفعہ وہ یہاں بھی آیاتھا جب وہ برلن میں میئر مقرر تھا،اور میں خوب جانتی ہوں کہ وہ فاشسٹوں سے لڑاتھا۔ ایک پل کے لیے بھی میں نے ایسا نہیں سوچاکہ وہ ان تین عربوں کو رہا کرکے خوش ہوا ہوگا۔ لیکن جرمنی …میں آسٹریا جاتی ہوں لیکن میرا دل جرمنی میں داخل ہونے کو نہیں کرتا۔ ہم یہودیوںکے جرمنی کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں جیسے ذہن اور دل کے درمیان ایک اختلاف ہوتا ہے… مجھے ایسی باتیں کرنے پر مجبور نہ کرو۔ میں وزیر ِ اعظم ہوں اور مجھ پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔دیکھو، مجھے یہ کہہ کر اس بات کو مکمل کرنے دو کہ اس معاملے میں میری سخت رائے کو نرم نہیں کیا جاسکتا۔ جرمنوں کے بیانات نے ہمارے زخموں میں بے عزتی کا اضافہ کیا۔ آخر یہ تین عربوں کا معاملہ تھا جنہوں نے گیارہ نہتے اسرائیلیوں کو قتل کیاتھا اور جو اب مزید کو قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔
اوریانا: مسز میئر ،کیا آپ جانتی ہیں کہ زیادہ تر لوگ کیا سوچتے ہیں؟ وہ یہ کہ عرب دہشت گردی وجود رکھتی ہے اور یہ تب تک اپنا وجود قائم رکھے گی جب تک وہاں فلسطینی مہاجر موجود ہیں۔
گولڈا: ایسی بات نہیں ہے کیوں کہ دہشت گردی اب بین الاقوامی سطح کی بیماری کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ ایک بیماری جو ان لوگوں پر حملہ کرتی ہے جو فلسطینی مہاجرین کا کچھ نہیں کر سکتے ۔ ان جاپانیوں کی مثال لے لو جو لوڈ(Lod)کی تباہی لے کر آئے تھے۔ کیا اسرائیلی کسی جاپانی زمین کو ہتھیارہے ہیں؟ اور مہاجرین کا سن لو: جہاں کہیں بھی جنگ چھڑتی ہے تو وہاں مہاجرین کا وجود قائم ہوجاتاہے۔ دنیا میں فلسطینی مہاجر اکیلے نہیں ہیں بلکہ پاکستانی مہاجر ،ہندو مہاجر اور جرمن مہاجر بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ خدا کے لیے !وہاں لاکھوں جرمن مہاجرین پولش کی سرحدوں پر مقیم ہیںجو اب پولینڈ کا حصہ ہے اور اس کے باوجود جرمنی ان لوگوں کی ذمہ داری کو بوجھ سمجھتاہے جو اس کے اپنے لوگ تھے اور وہ Sudeten جرمن؟ کوئی بھی ایسا نہیں سوچتا کہ Sudetenجرمنوں کو چیکوسلواکیہ میں واپس جانا چاہیے۔ وہ خود یہ جانتے ہیں کہ وہ کبھی بھی واپس نہیں جائیںگے ۔ان دس سال کے دوران ، میں نے متحد امریکی ریاستوں میں منعقد کی گئی محافل میں شرکت کی ہے لیکن میں نے کسی کو بھی Sudetenجرمنوں کے بارے میں بات کرتے نہیں سناجوکہ اٹھا کر یوگوسلاویہ سے باہر پھینک دیے گئے تھے ۔کیوں سارے لوگ فلسطینیوں کے ساتھ خاص ہمدردی محسوس کرتے ہیںجو وہ باقی دوسروں کے لیے نہیں کرپاتے ؟
اوریانا: لیکن فلسطینیوں کا معاملہ ذرا الگ ہے مسز میئر ،کیوں کہ …
گولڈا: ہاں یقینا یہ ہے ۔ کیاتم جانتی ہو کہ کیوں؟ (جاری ہے)
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد ،سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)
_________________________________________________________________________________


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر