وجود

... loading ...

وجود
وجود

نظام کو بچا لیا گیا ہے!

هفته 16 مارچ 2024 نظام کو بچا لیا گیا ہے!

حمیداللہ بھٹی

آٹھ فروری کے انتخابی نتائج سے نظام کو لاحق خطرات میں کمی آئی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ فی الوقت نظام کو بچا لیا گیا ہے تو بھی کچھ زیادہ غلط نہ ہو گا۔ مگر عیاں حقیقت یہ بھی ہے کہ نظام بچانے کی کوششوں میں عوامی عمل دخل کم ہوا ہے اور یہ کوششیںمقتدراِداروں تک محدود ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں درپیش نازک حالات کی وجہ سے ملک کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے نظام کو بچایا جارہاہے ۔عوامی محافل میں یہ سوال اکثر سُننے کو ملتا ہے کہ انتخابی نتائج سے کچھ تبدیل ہواہے ؟کیونکہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے شہباز شریف اُترے تو انوارالحق کاکڑ براجمان ہو گئے ،وہ گئے تو شہباز شہبازشریف نے دوبارہ منصب سنبھال لیا۔ اِس مشق کے دوران ستر سے اسی ارب روپے خرچ ہو گئے۔ ملک کی کمزورمعاشی حالت کی بناپریہ مشق ناقابلِ فہم ہے۔ اگر یہی چہرے ناگزیر تھے تو بہتر ہوتاکہ مناسب آئینی ترمیم سے مزید چند برس اقتدار میں رہنے دیا جاتا ۔اب بھی تو ستر سے اسی ارب روپے لگا کر پُرانے چہروں کے ذریعے نظام بچایا گیا ہے۔ مناسب ترامیم سے نگرانوں کامعاشی اختیارات دینے جیسا تڑکا بھی تو لگایاہی گیاتھا۔ اگر اسمبلی بھی مزید عرصہ برقرار رہتی تو خزانے سے بھاری رقم ایک مشق کی نذر نہ ہوتی۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تو انھیں قابو کرنا کون سا مشکل کام تھا جس طرح ایک مخصوص مکتبہ فکرکو اظہارِرائے کی آزادی پرابھی تک قدغن ہے، ایسی حکمتِ عملی سے مزید عرصہ سیاسی سرگرمیاں کنٹرول کرناسہل ہوتا اِس وقت موجودہ نظام کے بڑے مستفیدین میں مسلم لیگ ن اور پی پی ہیں اور موجودہ نظام کو بچانے میںدونوں جماعتوں کا کلیدی کردار ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اِس دوران دونوں جماعتوں کی مقبولیت متاثر ہوئی ہے جس کا اقتدار ملنے کی خوشی میں قیادت کوابھی ادراک نہیں یا پھر شاید قیادت کو مقبولیت سے زیادہ اقتدار پسند ہے۔
ماضی میں بھی انتخابی نتائج پر اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں لیکن جس بڑے پیمانے پر آٹھ فروری کے نتائج پر انگلیاں اُٹھائی جارہی ہیں ماضی میں ایسی نظیر کم ہی ملتی ہے سرفراز بگٹی کا وزارتِ داخلہ سے انتخابات سے چند روز قبل الگ ہو کرالیکشن میں حصہ لینا اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان بننا،نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا ایوان زیریں یا ایوانِ بالا کا رُکن منتخب ہوئے بغیر وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالنا اور اب چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کو کینیڈا میں سفیر لگائے جانے کی اطلاعات سے ایسے قیاسات کو تقویت ملے گی کہ موجودہ نظام کو بچانے کے لیے نتائج کو کنٹرول کیا گیا ہے ۔لہٰذا بہتر ہے کہ منصب تقسیم کرتے وقت حکمران حالات کا ادراک کریں ۔اگر اسی طرح بغیر سوچے سمجھے عہدے تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو نتائج میں تبدیلی کے اپوزیشن کے الزامات کو تقویت ملے گی جس سے ایسی احتجاجی تحریک کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جن سے نظام بچانے کی کوششیں سبوتاژ ہونے کا امکان بڑھ جائے گا ۔
وزیرِ اعظم نے کابینہ کا انتخاب کرتے وقت زیادہ تر پُرانے چہروں پر ہی اعتماد کیا ہے جس پر لوگ حیران ہیں۔ اِس حیرانی کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ماضی میں ایک سے زائد بار کابینہ کا حصہ رہنے کے باوجود کاردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور جن کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت میں گراوٹ آتی گئی انھیں ہی مسلسل آزماتے رہنا کوئی دانشمندی نہیں۔ ماضی میں ناکام رہنے والے اب خاک معجزہ دکھا سکتے ہیں ؟ موجودہ کابینہ سے وطن عزیز کومعاشی گرداب سے نکالنے کے لیے توقعات پوری ہونا دشوار ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ چند خاندان مزید پانچ برس مراعات حاصل کرنے کے قابل ہو گئے ہیں صدر آصف زرداری اور وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اپنے عہدوں کی تنخواہیں نہ لینے کا علان کیا ہے ۔یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے کسی صاحبِ ثروت نے کام کاج کے لیے ایک ملازم رکھا مگر تنخواہ طے کرتے ہوئے دونوں میں اتفاق نہیں ہورہاتھا ۔کافی دیربحث ہوتی رہی جس سے تنگ آکر ملازم نے تجویز پیش کی کہ اگر آپ گھر کا سودا سلف لانے کی ذمہ داری بھی مجھے دے دیں تو میں بغیر تنخواہ کام کرنے کوبھی تیار ہوں۔ رانجھے نے بغیر تنخواہ ہی بھینسوں وغیرہ کاخیال رکھنے کی ذمہ داری لی تھی اور پھر نیا ہی چن چڑھا دیا تھا۔ اسی لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اعلان کے مطابق ہماری قیادت کاش وعدے پورے کرے کیونکہ ملک مزید کسی حادثے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بہتر یہی ہے کہ برسرِ اقتدار طبقہ خلوص ِنیت سے ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالے۔ عام لوگ سخت مشکلات کا شکار ہیں مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی،دونوں نے انتخابی مُہم کے دوران تین سو یونٹ تک بجلی مفت دینے کے اعلانات کیے تھے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ انتخابی وعدے ایفا کیے جائیں۔
انتخابی نتائج کی روشنی میں جس طرح شہباز شریف اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھی، اسی طرح آصف زرداری کا صرف اپنی جماعت کے ووٹوں سے صدر منتخب ہو نا بھی کسی طور ممکن نہیں تھا۔ پی پی نے شہباز شریف کو وزیرِ اعظم بننے کے لیے اپنے مینڈیٹ کی بیساکھی پیش کی تو مسلم لیگ ن نے بھی جواب میں ایوانِ صدر تک پہنچانے کے لیے آصف زرداری کو کندھا پیش کر دیا مگر بظاہر اتحادی دونوں جماعتیں ذمہ داریاں لینے سے گریزاں ہیں بالخصوص پی پی تو حکومتی امور سے فاصلہ رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیراہے اُس کی خواہش ہے کہ کل کلاں اگر سیاسی قیمت چکانے کی نوبت آئے تو اپنی جماعت کو بچالیاجائے اسی وجہ سے وہ کابینہ کا حصہ بننے سے کترارہی ہے مگر وزیر ِاعظم چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح پی پی کو کابینہ میں شامل کیا جائے ۔یہ ملکی سیاسی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ شامل اقتدار جماعت اصرار کے باوجود کابینہ میں حصہ لینے پر رضا مند نہیں ہو رہی، نہ ہی دیگر سیاسی جماعتیں مزید عہدوں کا مطالبہ کررہی ہیں۔ حالانکہ ماضی میں اتحادی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ وزارتوں کے لیے بھاگ دوڑ کرتے تھے۔ اب شاید سب کو خدشہ ہے کہ حکومت میں شامل ہو نے سے عوام متنفرہو سکتے ہیں۔ اسی لیے عہدوں سے دور رہنے میں عافیت سمجھی جارہی ہے۔ اِن حالات میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ جس خوش اسلوبی سے مسلم لیگ ن اور پی پی نے وزیرِ اعظم اور صد ر منتخب کرنے کے معاملے کو حل کیا ہے ۔یہ دونوں بڑی جماعتیں ملکی مسائل حل کرنے میں بھی ویسی ہی بصیرت اور حکمت کا مظاہرہ کریں ۔
نظام کوتو بچا لیا گیا ہے لیکن نظام بچاتے بچاتے کئی سیاسی جماعتیں خطرات کی زد میں ہیں۔ نواز شریف کو وزیرِ اعظم بنانے کے لیے بڑے طمطراق سے واپس وطن لایا گیا۔ ابتدامیں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے اور حکومت بنانے کے دعوے بھی کیے گئے مگر انتخابی نتائج نے سیاسی صورتحال ہی یکسر بدل دی ہے۔ اکثریت تو ایک طرف سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی بلکہ کئی ایک جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت تشکیل دی گئی ہے اور وزیرِ اعظم بننے کی آس لے کر آنے والے نواز شریف کوحکومتی منصب تو نہیں مل سکا ۔بس اتنا فائدہ ہوا ہے کہ اُن کی تصویر دس کلو کے آٹے پر لگ گئی ہے۔ اسی لیے سیاسی جماعتوں کو سوچ سمجھ کر کام کرنا ہو گا۔ عوام باشعور ہیں اوروہ ووٹ دیتے وقت کارکردگی پیشِ نظر رکھتے ہیں۔اگر اب بھی پی ڈی ایم حکومت کی طرح سبسڈی کا خاتمہ اور گرانی کا تمام تر بوجھ عام آدمی کی طرف منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رہاتومزید سیاسی نقصان سے بچنا محال ہے کیونکہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معمول کے نہیں بلکہ حالات غیر معمولی ہیں ۔عوام میں بداعتمادی ہے نوجوانوں میں غصہ ہے جس کا علاج عوام دوستی کے دعوے کرنا نہیں بلکہ سلگتے عوامی مسائل حل کرنا ہے۔ عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہے تو اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا ہوں گی۔ اندرونی وبیرونی قرضوں کے علاوہ گردشی قرضوں اور توانائی کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابوپانا ہوگا۔ وگرنہ نظام کو تو شایدمستقبل میں بھی خطرہ نہ ہو لیکن حکمران جماعتوں کی سیاست خطرات کے بھنورمیں پھنس سکتی ہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر